غزہ ’امن منصوبہ‘قابض قوتوں کی بالادستی اور پاکستان کیلئے سنگین خطرات

غزہ کے خون میں ڈوبے ہوئے ساحلوں پر جب ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے اب بھی لاشیں پڑی ہیں، جب اسرائیلی جارحیت مسلسل جاری ہے اور قبضہ اپنے بدترین مرحلے پر ہے—ایسے وقت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک ایسا امریکی تجویز کردہ ’’امن منصوبہ‘‘ منظور کیا ہے جس میں خود فلسطینیوں کا کوئی کردار ہی نہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ امن کا فیصلہ ان کے بغیر کر لیا گیا جن کی زمین، جن کے گھروں، جن کے بچوں اور جن کے مستقبل پر یہ منصوبہ مسلط کیا جا رہا ہے۔ حماس نے درست کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینی حقوق کو پامال کرتا ہے اور اسرائیلی قبضے کے ایجنڈے کو ’’بین الاقوامی قانونی لبادہ‘‘ پہنانے کی کوشش ہے۔اس قرارداد کے مرکز میں وہ بیس نکاتی منصوبہ ہے جسے سابق امریکی صدر ٹرمپ نے ’’غزہ امن‘‘ کے نام پر پیش کیا۔ لیکن یہ منصوبہ نہ امن لاتا ہے اور نہ ریاستی خودمختاری؛ یہ ایک ایسی عبوری حکومت قائم کرنے کی تجویز دیتا ہے جس کے ارکان اور سربراہ کا فیصلہ خود ٹرمپ کریں گے۔ ’’بورڈ آف پیس‘‘ کے نام سے یہ غیر واضح ادارہ غزہ کی روزمرہ انتظامیہ چلانے کے لیے ایک ’’ٹیکنوکریٹ کمیٹی‘‘ مقرر کرے گا۔ فلسطینی عوام کی رائے کہاں گئی؟ فلسطینی قیادت کہاں ہے؟ اقوام متحدہ نے فلسطین کے متعدد سابقہ قراردادوں کو کیوں نظرانداز کیا؟ ان سوالات نے قرارداد کو پہلے ہی عوامی قبولیت سے محروم کر دیا ہے۔مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ قرارداد ایک ’’بین الاقوامی استحکام فورس‘‘ کی اجازت دیتی ہے—لیکن یہ کوئی اقوام متحدہ کی امن فوج نہیں ہوگی۔ اس کی نگرانی نہ اقوام متحدہ کے پاس ہوگی نہ کسی بین الاقوامی نظام کے تحت اس کی جوابدہی طے ہوگی۔ یہ فورس براہ راست ٹرمپ کے بنائے گئے ’’بوپی‘‘ کے ماتحت ہوگی۔ اس کا بنیادی کام غزہ میں ’’غیر ریاستی گروہوں‘‘ کو غیر مسلح کرنا ہے—یعنی وہ تنظیمیں جو اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔ یہ تجویز دراصل اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل ہے کہ غزہ کو مکمل طور پر غیر مسلح رکھا جائے، تاکہ آئندہ کوئی مزاحمت پیدا نہ ہو سکے۔یہ منصوبہ فلسطینی ریاست کے بارے میں کوئی واضح ضمانت نہیں دیتا۔ مسلم ممالک کے اصرار پر قرارداد میں ’’فلسطینی ریاست کی طرف ایک راستہ‘‘ ضرور شامل کیا گیا، لیکن یہ راستہ اتنی شرطوں اور مبہمیت سے بھرا ہے کہ اس میں حقیقت کا کوئی وزن نہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کریں گے۔ پھر یہ ’’راستہ‘‘ کس طرف جاتا ہے؟ فلسطینیوں کو مزید غلامی کی طرف یا کسی نئی کنٹرولڈ ریاست کے ڈھانچے کی طرف؟قرارداد کی مبہمیت پر چین اور روس نے بے چینی ظاہر کی۔ دونوں نے رائے شماری سے الگ رہ کر واضح کیا کہ نہ فلسطینیوں کی شرکت ہے اور نہ دو ریاستی حل کی ضمانت۔ روسی مندوب نے اسے ’’نوآبادیاتی طرز کی فورس‘‘ قرار دیا، اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے کہا کہ اس قرارداد سے غزہ پر ’’بیرونی کنٹرول‘‘ مزید مضبوط ہوگا، نہ کہ قبضہ ختم ہوگا۔غزہ کے عوام نے بھی اسے سخت شکوک کی نظر سے دیکھا۔ فلسطینی شہریوں نے واضح کہا کہ انہیں نہ عرب فوجوں کی ضرورت ہے نہ غیر ملکی انتظامیہ کی۔ اسرائیلی بمباری اور عالمی خاموشی نے انہیں خود اپنی حکمتِ عملی پر مجبور کیا ہے۔ وہ بیرونی طاقتوں کا مسلط کردہ کوئی فریم ورک قبول نہیں کریں گے۔اصل فیصلہ حماس اور دیگر فلسطینی گروہوں کا ہے، کیونکہ وہ اب بھی غزہ کے بیشتر حصے پر عملی کنٹرول رکھتے ہیں۔ تازہ ترین عوامی سروے بتاتا ہے کہ جنگ بندی کے بعد حماس کی مقبولیت مزید بڑھی ہے۔ حماس نے قرارداد مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’غزہ پر بیرونی سرپرستی‘‘ مسلط کرتی ہے، جس کا مقصد مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنا ہے۔ حماس نے کہا کہ کسی بھی بین الاقوامی فورس کا کردار صرف جنگ بندی کی نگرانی اور سرحدی سلامتی تک محدود ہونا چاہیے—وہ اسرائیلی مفادات کی تکمیل کے لیے مقامی مزاحمت کاروں کو نشانہ نہیں بنا سکتی۔پاکستان کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسے اس ’’استحکام فورس‘‘ میں شامل ہونا چاہیے؟ اس کا جواب نہایت واضح ہے: ہرگز نہیں۔پاکستان کو ایسی فورس کا حصہ نہیں بننا چاہیے جس کا بنیادی کام مزاحمت کاروں کو پکڑنا اور غیر مسلح کرنا ہو، نہ کہ فلسطینی عوام کی حفاظت کرنا۔ اگر پاکستانی فوجیوں اور فلسطینیوں کا براہِ راست سامنا ہوا تو اس کے سنگین اثرات ہوں گے۔ پاکستان کے لیے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ اس فورس میں شامل ہونا اسرائیل سے قربت کی طرف پہلا عملی قدم ہوگا۔ یہ ایک ایسے جال کی صورت ہو سکتا ہے جو پاکستان کو ’’ابراہیمی معاہدے‘‘ کی طرف دھکیلے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ یہی چاہتا ہے۔تیسرا سبب یہ ہے کہ اسرائیل مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے، قبضہ گہرا کرتا جا رہا ہے، غزہ کے نصف سے زیادہ علاقوں پر کنٹرول قائم کر چکا ہے۔ ان حالات میں حماس غیر مسلح نہیں ہونے جا رہی، نہ ہی کوئی فلسطینی گروہ ایسا فیصلہ کرے گا۔ ایسے غیر حقیقی منصوبے میں شامل ہونا پاکستان کو ایک ایسے دلدل میں دھکیل دے گا جس کا انجام شرمندگی ہو گا۔غزہ امن منصوبہ اس وقت تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر اسے حقیقی مذاکرات، فلسطینی رضامندی، اور قانونی ضمانتوں کے بغیر آگے بڑھایا گیا تو یہ بھی فلسطین کے ماضی کے درجنوں ناکام منصوبوں کی طرح تاریخ کا ایک اور بوجھ بن جائے گا۔ فلسطینی عوام کو ان کی زمین، ان کے مستقبل اور ان کی مزاحمت کے حق سے محروم کرتے ہوئے کوئی بھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ایسے قدم سے گریز کرے جو فلسطینی عوام کی امنگوں کے خلاف ہو، جو مزاحمت کو جرم بنائے، اور جو قبضے کو قانونی جواز دے۔ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کے اصولی مؤقف کی حمایت کی ہے؛ یہ وقت اس مؤقف کو مزید مضبوطی سے دنیا کے سامنے رکھنے کا ہے—نہ کہ غیر واضح، غیر قانونی اور یک طرفہ منصوبوں کا حصہ بننے کا۔ فلسطین کے بغیر فلسطین کا فیصلہ نہ آج قبول ہے، نہ کل ہوگا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں