عورت کے خلاف تشدد کسی بھی سماج کی سب سے خوفناک کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ کمزوری دراصل اُس مردانہ بے بسی کا اعتراف ہے جو اپنی برتری کے خول میں چھپ کر عورت کو برابر کا انسان تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ عورت پر تشدد محض جسمانی یا ذہنی اذیت نہیں، بلکہ ایک پورے سماجی ڈھانچے کے بگڑ جانے کی علامت ہے۔ عالمی یوم انسدادِ تشدد بر نسواں 2025 اس سچائی کی طرف پھر سے توجہ مبذول کروا رہا ہے، لیکن اس بار تشدد کا دائرہ جہاں سب سے زیادہ بڑھا ہے، وہ ہے ڈیجیٹل دنیا۔ اسی پس منظر میں اقوامِ متحدہ نے ’’ڈیجیٹل تشدد کے خاتمے‘‘ کے لیے 16 روزہ عالمی مہم کا اعلان کیا ہے، جس کا اختتام یومِ انسانی حقوق پر ہوگا۔
پاکستان کی صورتِ حال ڈیجیٹل جبر کے نئے چہروں کی سنگینی کو پوری شدت کے ساتھ عیاں کرتی ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ملک بھر میں 3,171 شکایات درج ہوئیں۔ یہ تعداد کسی ایک فرد یا کسی ایک طبقے کی نہیں، بلکہ اس پورے معاشرے کی اجتماعی بے حسی کا آئینہ ہے۔ سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ 2,741 شکایات ’’سائبر ہراسگی‘‘ سے متعلق تھیں۔ یہ وہ جبر ہے جو جسم پر نہیں، ذہن اور وقار پر حملہ کرتا ہے۔ سب سے زیادہ 386 شکایات ایک ہی ماہ میں درج ہوئیں، جو اس بڑھتے ہوئے رجحان کی سنگینی واضح کرتی ہیں۔
مزید تشویش کا باعث یہ حقیقت ہے کہ 36 فیصد شکایات اُن علاقوں سے سامنے آئیں جہاں وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگز موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی بھی جرأتِ جرم کو کم نہیں کر رہی۔ یہی نہیں، درج شدہ شکایات کے تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ سب سے زیادہ متاثر عورتیں ہیں۔ 1,772 شکایات خواتین نے درج کرائیں، جبکہ مردوں کی جانب سے 1,365 شکایات موصول ہوئیں۔ اس فرق سے واضح ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل حملوں کا بنیادی ہدف ابھی بھی عورت ہی ہے—خصوصاً وہ عورت جو اپنے جسم، اپنی آواز اور اپنی مرضی پر اختیار رکھنا چاہتی ہے۔
عورت کی تصاویر کو اُس کی اجازت کے بغیر پھیلانا، اسے بلیک میل کرنا، اُس کی شہرت کو نقصان پہنچانا، یا ’’نام نہاد غیرت‘‘ کے پیمانوں کے ذریعے اُس کی زندگی کو اذیت میں ڈالنا—یہ سب عمل اس حقیقت کا اعتراف ہیں کہ معاشرے کے اندر عورت کی آزادی اور اس کے وجود سے خوف موجود ہے۔ سروے کے مطابق 90 فیصد شکایات خواتین کی جانب سے موصول ہوئیں۔ یہ تعداد محض اعداد نہیں، یہ اُن گھروں کی کہانیاں ہیں جہاں بیٹیاں خوف میں موبائل استعمال کرتی ہیں، جہاں مائیں بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رہنے کے مشورے دیتی ہیں، اور جہاں عورتوں کی شناخت پر ڈیجیٹل حملے اُن کی رُوح کو زخمی کر دیتے ہیں۔
عالمی سطح پر صورتِ حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ 2024 کی بین الاقوامی رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا بھر کی 85 فیصد خواتین نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں ڈیجیٹل تشدد کا سامنا کیا۔ یہ ایک ایسا عالمی المیہ ہے جو ایک طرف ٹیکنالوجی کی وسعتوں کا نتیجہ ہے اور دوسری طرف ان سماجوں کی شکست بھی جنہوں نے جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی تشدد کو بھی معمول بنا دیا ہے۔
یہ بھی المیہ ہے کہ ہر سال قوانین بنتے ہیں، بیانات دیے جاتے ہیں، مہمات چلائی جاتی ہیں، مگر عورت کی زندگی میں حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔ ڈیجیٹل یا جسمانی جبر کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے: عورت کی آزادی محدود ہو جاتی ہے، اُس کی تعلیم متاثر ہوتی ہے، اُس کے روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں، اور وہ سیاسی میدان میں داخل ہونے سے ہچکچاتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی منتخب خواتین نے صرف اس لیے سیاست چھوڑ دینے یا خود کو پیچھے ہٹانے پر غور کیا کہ ڈیجیٹل حملوں نے ان کی زندگی اجیرن کر دی۔
یہ صورتحال ہمیں بتاتی ہے کہ قانون سازی تو ہو رہی ہے، لیکن اُن قوانین کا زمین پر اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے پاس ایسے تحقیقاتی ادارے، ٹیکنیکل مہارت، یا خواتین کے لیے دوستانہ نظام موجود نہیں جو بروقت کارروائی کر سکیں۔ جب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صنفی حساسیت کی تربیت نہیں دی جائے گی، جب تک ڈیٹا کے تحفظ کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے، اور جب تک عوام میں ڈیجیٹل تعلیم عام نہیں ہوگی، اس مسئلے کا خاتمہ ممکن نہیں۔
اسی طرح، ڈیجیٹل دنیا میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عام لوگوں کی آگاہی بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’آن لائن ہراسگی‘‘ کوئی اصل جرم نہیں، یا صرف ’’غصے‘‘ یا ’’مذاق‘‘ کی بات ہے۔ یہ سوچ بذاتِ خود عورت کے خلاف ایک جبر ہے۔ معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کی آن لائن موجودگی کو بھی وہی احترام دے جو اُس کی جسمانی موجودگی کو دیا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ڈیجیٹل دنیا میں عورت کے خلاف جرائم کو محض چند طبقوں تک محدود تحفظ نہیں دے۔ دیہی علاقوں میں، پسماندہ علاقوں میں، اور کم تعلیم یافتہ طبقوں میں ڈیجیٹل تشدد کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ نتیجتاً، متاثرہ عورت نہ تو شکایت درج کرا پاتی ہے اور نہ ہی اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس حقوق موجود ہیں۔
‘‘جنسی بنیاد پر تشدد کی نقشہ بندی 2024‘‘ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہمارے ملک میں بہت کم مقدمات عدالت تک پہنچتے ہیں، اور ان میں سے بھی اکثر ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ وہی ہے: قوانین اور عورت کی زندگی کے درمیان ایک گہری خلیج موجود ہے۔
عورت پر تشدد کے خلاف جنگ کا بنیادی اصول ’’رضامندی‘‘ ہے۔ چاہے جسمانی تعلق ہو، تصویری اجازت ہو، گفتگو ہو، یا ڈیجیٹل اشتراک—ہر جگہ عورت کی مرضی مقدم ہے۔ اس اصول کو ہمارا معاشرہ کب تسلیم کرے گا؟ کب عورت کی چیزوں کو اُس کی مرضی کے بغیر پھیلانے کو ’’مردانگی‘‘ کے بجائے مجرمانہ فعل سمجھا جائے گا؟ کب ہم ایسے جرم کو ’’نجی معاملہ‘‘ کہہ کر نظر انداز کرنا بند کریں گے؟
ڈیجیٹل تشدد کے خلاف حقیقی جنگ اُس وقت ممکن ہے جب:— قانون نافذ کرنے والے ادارے عورت کو محض ’’درخواست‘‘ کے طور پر نہیں بلکہ ’’متاثرہ انسان‘‘ کے طور پر لیں
— ڈیجیٹل حقوق کو بنیادی انسانی حقوق سمجھا جائے؛
— ہر سطح پر صنفی حساسیت کا نظام قائم ہو؛
— عورت کی شکایت کو فوری اور موثر انصاف ملے؛
— آن لائن دنیا میں عورت کی آزادی کو سماجی قبولیت حاصل ہو۔
اگر ہم نے ابھی بھی عورت پر ہونے والے تشدد کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو یہ مسئلہ ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے ساتھ مزید شدید ہوتا جائے گا۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ڈیجیٹل دنیا محض رابطے کا ذریعہ نہیں رہی، بلکہ یہ ایک ایسا میدان بن چکی ہے جہاں عزت، تشخص، وقار اور آزادی کے فیصلے ہوتے ہیں۔
یہ وقت محض بیان دینے کا نہیں—عمل کرنے کا ہے۔ عورت کی حفاظت، چاہے جسمانی دنیا میں ہو یا ڈیجیٹل دنیا میں، معاشرے کی تہذیب کا پیمانہ ہے۔ اور جب تک ہم اس پیمانے پر پورا نہیں اتریں گے، ہم ایک مہذب سماج ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔







