پاکستان کی کل آبادی 22 کروڑ 92 لاکھ 20 ہزار ہے- جن میں سے 14 کروڑ 45 لاکھ 30 ہزار دیہی اور 8 کروڑ 46 لاکھ 90 ہزار شہروں میں رہتی ہے۔ 11 کروڑ 71 لاکھ 10 ہزار مرد اور 11 کروڑ 21 لاکھ عورتیں ہیں- جنوبی پنجاب میں 12 اضلاع کی آبادی 3 کروڑ 91 لاکھ 40 ہزار ہے۔ ہر گھرانے میں اوسط 6ء56 افراد پر مشتمل ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے لیبر سروے 2021-22 کے مطابق پاکستان کی کل لیبر ورک فورس 7کروڑ 16 لاکھ ہے جن میں 6 کروڑ 72 لاکھ 50 ہزار کو باروزگار اور 40 لاکھ 60 ہزار کو بے روزگار دکھایا گیا ہے۔(ایک تو یہ سروے تین سال پرانا ہے اور دوسرا اس سروے میں دیہاڑی دار، کچے اور پارٹ ٹائم روزگار رکھنے والے بھی شامل ہیں- دوسرا گزشتہ تین سالوں میں امپورٹ پر پابندی اور ایکسپورٹ گروتھ منفی ہونے کے سبب بڑے پیمانے پر صنعتیں و کاروبار بند ہوئے ہیں اور اس سے بے روزگاری کی شرح بہت بڑھی ہے تیسرا خواتین کے باب میں معاملات اس سے بھی خراب ہیں- ہمیں تین سال پرانے لیبر سروے سے اندازہ لگا لینا چاہئیے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کی ترجیحات میں پاکستان کے محنت کش طبقات کہاں پر آتے ہیں)- پنجاب میں عورتیں کل لیبر فورس کا 13ء7 فیصد ہیں- جبکہ کل باروزگار 44ء8 فیصد اور ان میں خواتین باروزگار محض 12ء6 فیصد ہیں- یعنی پنجاب میں کل لیبر فورس کا خواتین 44 فیصد کا میں سےصرف 13 فیصد سے تھوڑا زائد ہیں جبکہ ان میں ے محض 6 فیصد کے پاس روزگار ہے- اور رجسٹرڈ بے روزگار خواتین لیبر فورس کا پنجاب میں جو تعداد کل رجسٹرڈ بے روزگار لیبر فورس ہے اس کا محض ایک اعشاریہ ایک فیصد بنتا ہے۔ اس سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پورے پنجاب میں خواتین جو کل آبادی کا 50ء1 فیصد ہیں ان میں سے سویلین لیبر ورک فورس صرف 13ء7 فیصد ہے یعنی قریب قریب 37 فیصد عورتوں کی آبادی لیبر ورک فورس سے باہر ہے۔ ان میں دیہی پنجاب میں عورتوں کی آبادی 50ء 1 فیصد اور شہری آبادی 49ء9 فیصد ہےجبکہ دیہی آبادی میں 17ء54 فیصد سویلین ورک فورس اور باروزگار 16ء30 ہیں اور بے روزگار 1ء24 فیصد ہیں- اس سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں میں عورتوں کی 37 فیصد سے زاغد آبادی کی محنت ڈومیسٹک لیبر ٹائپ کی ہے جو معاوضے کے بغیر ہوتی ہے اور اسے ہمارے ہاں سرے سے محنت سمجھا نہیں جاتا اور ایک اعتبار سے پنجاب میں عورتوں کی 37 فیصد آبادی فارمل لیبر میں شامل نہیں ہے اور یقینی بات ہے کہ جنوبی پنجاب میں کل خواتین کی آبادی اس سے بھی کہیں زیادہ فارمل اور رجسٹرڈ ورکنگ ویمن میں شامل نہیں ہوں گی کیونکہ جنوبی پنجاب میں ملازمت پیشہ خواتین لیبر فورس کل لیبر فورس کا بہت کم حصّہ ہے اور یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ جنوبی پنجاب کے گیارہ اضلاع میں بے روزگاری کی عمومی شرح باقی ماندہ پنجاب سے کہیں زیادہ ہے۔ اوور سیز ایمپلائنٹ بیورو پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ورکرز کی تعداد 2022ء تک 8 لاکھ 29 ہزار 5سو 49 تھی –ان میں 4 لاکھ 58 ہزار 2 سو 41 کا تعلق پنجاب سے ہے اور ہمیں یہ پتا نہیں ہے کہ ان میں کتنے ورکرز کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور ان میں کتنی عورتیں ہیں- ابھی چند روز پہلے ایک این جی او کا پاکستان میں کاشتکار عورتوں کے بارے میں سروے آیا تھا جس کے مطابق پاکستان کے اندر دیہی آبادی میں کاشتکاری کے اندر ورک فورس میں 75 فیصد خواتین ہیں اور ان میں سے اکثر یا تو ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جن کے پاس ملکیتی زرعی رقبہ بہت تھوڑا ہے اور ان کے مرد و خواتین بٹائی، ٹھیکے یا بڑے زمیندار کی زمینوں پر بطور مزدور کام کرتے ہیں- پنجاب میں گزشتہ جنتی حکومتیں آئیں انھوں نے نہ تو جنوبی پنجاب کی دیہی محنت کش خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنانے اور نہ ہی ان کو زرعی قابل کاشت رقبوں کا مالک بنانے کے لیے کوئی قابل زکر منصوبہ شروع کیا- نہ ہی دیہی آبادی میں خواتین کو لیکر کاٹیج انڈسٹری کے فروغ کی منصوبہ بندی ہوئی – گرین پاکستان انشی ایٹو کے طور پر جنوبی پنجاب کے اضلاع کی لاکھوں ایکٹر سرکاری زمینوں کو ‘کارپوریٹ ایگری کلچر کمپنیوں کے سپرد کیا جا رہا ہے لیکن اس انشی ایٹو میں بے زمین خواتین دیہی ورک فورس کے لیے کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ کیا ہم جیف منسٹر مریم نواز شریف سے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ گرین انشی ایٹو میں خواتین فارمرز کو شامل کریں گی؟ کیا سندھ حکومت کی طرز پر پنجاب حکومت بھی دیہی علاقوں میں خواتین کو پانچ ایکٹر زرعی رقبے کی مالک بنائے گی اور کیا لائیو اسٹاک میں خواتین ورکنگ فورس کے لیے کوئی منصوبہ بنایا جائے گا؟ عورتوں کے عالمی دن کی مناسبت سے پنجاب حکومت کو آج ہی سے یہ کام شروع کردینا چاہئے۔
ملتان شہر کے لئے تباہ کن کمرشل تعمیرات
میڈیا رپورٹس کے مطابق ادارہ ترقیات ملتان / ایم ڈی اے نےخانیوال روڈ پر معروف شاپنگ سنٹر برانڈ ‘چیز اپ کی ایک شاخ خانیوال روڈ رشید آباد اور ہیڈ برج کے قریب کھولنے کی اجازت دے دی- شاپنگ سنٹر کے لیے نقشے کی منظوری لیے بغیر اور اس کے تباہ کن ماحولیاتی اثرات جس میں ٹریفک جیم سے لیکر شور کی آلودگی اور دیگر نقصانات شامل ہیں کو نظر انداز کرکے پلازے کی تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی – ایم ڈی اے کی انتظامیہ نے قواعد وضوابط کی دھجیاں اڑانے کے باوجود چیزاپ شپنگ سنٹر کی تعمیرات اور بعد ازآن کمرشل سرگرمیاں جاری کرنے کی اجازت دی جس کے بعد خانیوال روڈ پر ٹریفک کا اژدھام رہنے لگا ہے اور ٹریفک جیم کی وہی صورت حال بن گئی ہے جو رشید آباد اوور ہیڈ برج کی تعمیر سے پہلے ہوا کرتی تھی- خانیوال روڈ کے اردگرد نئی کمرشل تعمیرات میں قواعد و ضوابط کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کے سبب پنجاب حکومت کی جانب سے ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اربوں روپے کی لاگت سے جو سڑکیں اور اوور ہیڈ برج تعمیر کیے کئے تھے وہ اب ٹریفک کے اژدھام کا مسئلہ حل کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں- ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی عرصہ دراز سے اپنی حدود میں آنے والی اہم سڑکوں کے اردگرد ماحولیاتی تباہی، ٹریفک مسائل کے انبار کھڑی کرنے والی کمرشل تعمیرات جن میں قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اور خاص طور پر خانیوال روڈ ، بوسن روڈ کے ارد گرد کم از کم 1000 سے زائد کمرشل تعمیرات ہیں جو قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں کرکے بنائی گئی ہیں اور ان سب عمارتوں کی تعمیر کے منصوبے وقت انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی نے ای آئی اے رپورٹ بنانے اور منصوبوں کے لیے درکار این او سی جاری کرنے کے لیے جس پبلک ہئیرنگ (کھلی کہچری) کی ضرورت تھی اس پر کاغذی کاروائی کی اور اس پر الزام ہے کہ اس کے اکثر جاری کردہ این او سی جعل سازی سے جاری ہوئے ہیں- ان سب نے مل کر ملتان شہر کی ترقی کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ ملتان شہر کی ترقی کے لیے ایم ڈی اے کا جو کردار ہونا چاہئیے تھا وہ کردار کہیں بھی نظر نہیں آتا- ایم ڈی اے میں تعینات ہونے والے اکثر ڈائریکٹر جنرل تنازعوں اور انتہائی بدترین الزامات میں گھرے رہے ہیں- جبکہ ایم ڈی اے کا فنانس ڈیپارٹمنٹ، دیزائن اینڈ پلاننگ ڈیپارٹمنٹ اور انجنئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داران کے خلاف اینٹی کرپشن نیب میں درجنوں انکوآئریاں، مقدمات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں- جبکہ اس ادارے کی ںگرانی کا ذمہ دار ادارہ ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ بھی مسلسل اسکینڈل کی زد میں ہے۔ موجودہ ڈی جی ایم ڈی اے زاہد اکرام اس سے قبل فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں اپنی تعیناتی کے دوران ایک بڑے میگا کرپشن کیس کے اینٹی کرپشن میں ملزم ہیں اور اس کے علاوہ بھی ان کے خلاف اینٹی کرپشن میں درجنوں انکوائریاں زیرسماعت ہیں- اتنے تنازعات اور الزامات میں گھرے افسر کو ایم ڈی اے ملتان میں دی جی کے عہدے پر برقرار رکھنا بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ ڈپٹی کمشنر ملتان رانا رضوان قدیر نے جس طرح سے چیز اپ شاپنگ سنٹر خانیوال روڈ کو سیل کیا تھا، انھوں نے جتنی تیزی سے اسے کھولنے کا حکم دیا اس سے شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے، میڈیا نپورٹس ڈی سیل کرنے کے اس حکم کے پیچھے مبینہ ساز باز، کمیشن خوری اور رشوت ستانی کا زکر کررہے ہیں- یہ الزامات اس لیے اور سنگین ہوجاتے ہیں جب موجودہ ڈپٹی کمشنر ملتان خود ایم ڈی اے ملتان میں تعیناتی کے دوران بہت سارے الزامات کی زد میں رہے ہوں اور ان پر اپنے چھوٹے بھائی کو ایم ڈی اے میں قواعد و ضوابط سے ہٹ کر بھرتی کرانے کا الزام ہو جو آج کل وہاں ڈپٹی دائریکٹر فنانس کے عہدے پر ہیں اور کئی طرح کی مالی و انتظامی بے ضابطگیوں کے ارتکاب پر مبنی الزامات کی زد میں ہیں جن میں کزشتہ سال سستا آٹا اسکیم میں دس کروڑ روپے کی مبینہ کمیشن اسکینڈل بھی شامل ہے۔ ملتان کے شہری خاص طور پر اور جنوبی پنجاب کے عوام عام طور پر جاننے کے حقدار ہیں کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری برائے جنوبی پنجاب، ایڈیشنل سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ برائے جنوبی پنجاب ، سیکرٹری کیمنیکشن اینڈ ورکس ، اینٹی کرپشن اسٹبلشمنٹ پنجاب اور نیب جنوبی پنجاب ریجن نے اتنی سنگین قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں، مبینہ کمیشن خوری اور ماحولیاتی تباہی ، ٹریفک پلان کو تباہ کرنے والے معاملات پر کیا نوٹس لیا ہے۔ ہم اس سے پہلے بھی اداریوں میں زکر کرچکے ہیں کہ پنجاب کی نئی حکومت کی سربراہ خاتون چیف منسٹر مریم نواز شریف اگر کوئی چیز ناکام بنائے گی تو وہ پنجاب بیوروکریسی کے اندر بیٹھی کالی بھیڑیں اور کمیشن خور مافیا میں شامل سرکاری بابو بنائیں گے جن کے نزدیک ناجائز اثاثے بنانا اور رشوت خوری کرنے کی عادت عوامی اور قومی مفادات پر فوقیت رکھتی ہے۔