پاکستان میں عورت کی محنت ایک ایسے دائرے میں گردش کر رہی ہے جو ریاستی پالیسی، سماجی رویوں اور معاشی اعداد و شمار کے درمیان کہیں گم ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی ادارہ محنت کی تازہ رپورٹ نے ایک بار پھر یہ تلخ حقیقت آشکار کی ہے کہ پاکستان میں گھریلو اور نگہداشت کی غیر معاوضہ محنت کا بوجھ تقریباً مکمل طور پر عورتوں کے کندھوں پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک سو سترہ اعشاریہ چار ملین پاکستانی ایسے کاموں میں مصروف ہیں جنہیں معیشت میں شمار نہیں کیا جاتا، اور ان میں سے تقریباً سڑسٹھ ملین عورتیں ہیں۔ یہ عورتیں دن رات گھروں میں کھانا پکاتی ہیں، صفائی کرتی ہیں، بچوں، بزرگوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، مویشی پالتی ہیں اور کھیتوں میں کام کرتی ہیں — مگر ان کی یہ تمام محنت معاوضے، آرام اور سماجی اعتراف سے محروم رہتی ہے۔
یہ غیر مساوی تقسیم صرف صنفی ناانصافی نہیں بلکہ ایک سنگین معاشی اندھا پن بھی ہے۔ مردوں کی نسبت عورتیں دو گنا زیادہ وقت غیر معاوضہ گھریلو کاموں میں صرف کرتی ہیں — ہفتہ وار اوسطاً پندرہ گھنٹے جبکہ مردوں کے لیے یہ دورانیہ سات گھنٹے سے بھی کم ہے۔ یہ فرق عورتوں کے لیے تعلیم، ہنرمندی، روزگار اور سماجی شرکت کے مواقع سلب کرتا ہے۔ ماہرین معاشیات اسے ’’وقت کی غربت‘‘ (ٹائم پاورٹی) قرار دیتے ہیں — وہ حالت جہاں عورت اپنی زندگی کے قیمتی گھنٹے ان کاموں میں صرف کرتی ہے جنہیں سماج ’’فرض‘‘ تو سمجھتا ہے مگر ’’کام‘‘ تسلیم نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ کہ پاکستان میں خواتین کی لیبر فورس میں شرکت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔
یہ مسئلہ صرف معیشت یا روزگار کا نہیں بلکہ سماجی انصاف اور انسانی وقار کا سوال ہے۔ ایک عورت جو دن رات گھر کے کاموں میں مصروف ہے، سماج میں اس کی پہچان ’’کام نہ کرنے والی عورت‘‘ کے طور پر کی جاتی ہے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جو عورت کے کردار کو محض گھریلو ذمہ داریوں تک محدود کر دیتی ہے اور اسے شہری و معاشی مساوات کے حق سے محروم رکھتی ہے۔ بین الاقوامی ادارہ محنت نے اپنی رپورٹ میں یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ عورتوں کی غیر معاوضہ محنت نہ صرف ’’صنفی اجرتی فرق‘‘ کو برقرار رکھتی ہے بلکہ انہیں فیصلہ سازی اور قیادت کے منصب سے بھی دور رکھتی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر ملک اپنی معیشت کو متوازن، پائیدار اور منصفانہ بنانا چاہتا ہے تو اسے عورت کی غیر مرئی محنت کو مرئی حقیقت میں بدلنا ہوگا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان ’’گلوبل ایکسیلیریٹر فار جابز اینڈ سوشل پروٹیکشن‘‘ کے تحت ایک ’’پاتھ فائنڈر‘‘ ملک کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اس حیثیت سے پاکستان کے پاس وہ عالمی فنی اور پالیسی معاونت موجود ہے جو غیر معاوضہ نگہداشت کے کاموں کو ’’باقاعدہ اور باعزت روزگار‘‘ میں بدل سکتی ہے۔
بین الاقوامی ادارہ محنت کے منصوبے ’’پرو موٹنگ رائٹس اینڈ سوشل انکلوژن‘‘ نے پنجاب میں گھریلو ملازمین کو منظم کرنے اور ان کی یونین سازی کی راہ ہموار کی۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے کیونکہ اس سے گھریلو محنت کو پہلی مرتبہ ایک اجتماعی آواز ملی۔ گھریلو ملازمین کی ایسوسی ایشنز کا اندراج اور آجران کے لیے ضابطہ اخلاق کی تیاری اس سمت میں ابتدائی مگر امید افزا اقدامات ہیں۔ اب یہی کوششیں دیگر صوبوں تک بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں لاکھوں غیر رسمی محنت کش خواتین آج بھی کسی قانونی تحفظ یا پالیسی فریم ورک کے بغیر کام کر رہی ہیں۔
اگر پاکستان واقعی اپنی ’’کئیر اکانومی‘‘ کو فعال بنانا چاہتا ہے تو اسے محض اعلانات پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔ سب سے پہلے غیر رسمی شعبے کے محنت کشوں کے لیے کم سے کم تربیتی معیارات مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد منصفانہ اجرت، زچگی کے دوران سماجی تحفظ، اور کام کے اوقات کار کے لیے ضابطے متعارف کرانے ہوں گے۔ اس سے نہ صرف عورتوں کی زندگی میں استحکام آئے گا بلکہ معیشت میں پیداواری صلاحیت بھی بڑھے گی۔
حکومت کی جانب سے صحت کے بجٹ کو آئندہ دہائی میں مجموعی قومی پیداوار کے تین فیصد تک بڑھانے کا اعلان ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کے اثرات اسی وقت ظاہر ہوں گے جب اس کے ساتھ نگہداشت کے شعبے میں طویل المدتی سرمایہ کاری کی جائے۔ اسپتالوں، نرسنگ اسکولوں، ڈے کیئر مراکز، اور بزرگوں کی نگہداشت کے اداروں میں سرکاری اور نجی شراکت داری کو فروغ دینا اس سمت میں مؤثر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ گھریلو اور نگہداشت کی محنت کرنے والی عورتوں کو قانونی طور پر تسلیم کیا جائے۔ گھریلو ملازمین کے لیے لازمی رجسٹریشن، تحریری معاہدہ، سالانہ تعطیلات، اور سماجی تحفظ کے نظام میں شمولیت وہ بنیادی عناصر ہیں جو انہیں ایک محنت کش کے طور پر باعزت مقام دیتے ہیں۔ حکومت پنجاب کے تجربے کو دیگر صوبوں تک وسعت دے کر ایک ’’قومی گھریلو محنت پالیسی‘‘ تشکیل دی جا سکتی ہے، جو عورتوں کے لیے معاشی خودمختاری کا دروازہ کھولے گی۔
عورتوں کی غیر معاوضہ محنت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ قومی معیشت کے حساب کتاب سے غائب رہتی ہے۔ اگر اس محنت کی معاشی قدر کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ کھربوں روپے پر محیط ہوگی۔ درحقیقت، عورتوں کی یہ پوشیدہ محنت ملک کی معیشت کو اندرونی طور پر سہارا دے رہی ہے۔ یہی وہ ’’خاموش سبسڈی‘‘ ہے جو عورتیں اپنے وقت، توانائی اور صحت کی صورت میں قوم کو دیتی ہیں۔
تاہم، صرف حکومتی اقدامات کافی نہیں۔ سماجی سطح پر بھی ذمہ داریوں کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔ گھریلو زندگی میں مردوں کی شرکت اب ایک اخلاقی تقاضے سے بڑھ کر ایک معاشی ضرورت بن چکی ہے۔ گھر کے کاموں اور بچوں کی پرورش میں مردوں کا حصہ بڑھانے سے عورتوں کا بوجھ کم ہوگا، اور وہ تعلیم، ہنرمندی اور روزگار کے مواقع میں بھرپور حصہ لے سکیں گی۔
یہ سوچ بدلنی ہوگی کہ گھریلو کام عورت کی ’’فطری ذمہ داری‘‘ ہیں۔ جدید دنیا میں جہاں معیشتیں علم، ٹیکنالوجی اور تخلیق پر قائم ہیں، وہاں عورت کی محنت کو محض گھریلو حدود میں قید رکھنا قومی ترقی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
بین الاقوامی ادارہ محنت کی رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ جہاں عورتوں کو نگہداشت کے شعبے میں تربیت، اجرت اور سماجی تحفظ فراہم کیا گیا، وہاں نہ صرف ان کی زندگی بہتر ہوئی بلکہ معیشت میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے۔ فلپائن، سری لنکا، اور بنگلہ دیش جیسے ممالک نے اس شعبے میں پالیسیاں لاگو کر کے اپنی خواتین لیبر فورس میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان بھی اگر اس سمت میں سنجیدگی دکھائے تو یہ ’’خواتین کی فلاح‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’معاشی استحکام‘‘ کی حکمت عملی بن سکتی ہے۔
اصل مسئلہ پالیسی سے زیادہ ترجیح کا ہے۔ ریاست نے ہمیشہ بنیادی ڈھانچے، صنعت یا دفاع کو ترجیح دی، مگر سماجی شعبہ — خاص طور پر نگہداشت اور گھریلو محنت — ہمیشہ نظر انداز رہا۔ یہ وہ شعبہ ہے جو قوم کی روزمرہ زندگی کا ستون ہے، مگر اسے کبھی معیشت کے باضابطہ حصے کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔
پاکستان میں عورت کی غیر معاوضہ محنت کو تسلیم کرنا صرف انصاف نہیں بلکہ دانش مندی ہے۔ یہ معیشت کی بحالی، غربت کے خاتمے اور سماجی مساوات کے لیے ناگزیر قدم ہے۔ اگر حکومت اس شعبے میں اصلاحات کرتی ہے، تو یہ نہ صرف عورتوں کے وقار کو تسلیم کرنے کا عمل ہوگا بلکہ قومی ترقی کے ایک نئے دور کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔
عورت کے کندھوں پر رکھا گیا یہ غیر مرئی بوجھ دراصل اس ملک کی معیشت کا غیر اعلانیہ ستون ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس ستون کو تسلیم کیا جائے، اسے سہارا دیا جائے، اور اسے اس کا جائز مقام دیا جائے۔ کیونکہ جس قوم کی معیشت عورت کی خاموش محنت پر قائم ہو، اس کے استحکام کی ضمانت تب ہی ممکن ہے جب اس محنت کو پہچان، تحفظ اور احترام دیا جائے۔ یہی انصاف ہے، یہی ترقی، اور یہی انسانی وقار کا تقاضا۔







