فنانس ڈویژن میں بیٹھے سرکاری بابوؤں نے پاکستان کی عوام کو شاید بیوقوف سمجھ رکھا ہے۔ وہ ہمیشہ عوام کو ‘گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ذمہ دار صحافت کرنے والے اپنی تحقیقات سے ان کی کوشش ناکام بناتے رہتے ہیں- نگران حکومت کے اخری دنوں میں بھی فنانس ڈویژن کے سرکاری بابوؤں نے اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ نگران حکومت نے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی بھرپور کوشش کی ہے۔ فروری کے اخری دن ‘اکنامک اپ ڈیٹ اینڈ آؤٹ لک’ فنانس ڈویژن کی سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی اور نگران حکومت کی جانب سے سرکاری اخراجات میں فرضی کمی دکھانے کی کوشش کی گئی-
حالانکہ اس رپورٹ کے آخر میں موجود ڈیٹا ہی سرکاری بابوؤں کے اس دعوے کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ ڈیٹا کزشتہ سال کے مقابلے میں رواں مالیاتی سال کے پہلے چھے ماہ میں سرکاری ترقیاتی پروگرام میں 3ء5 فیصد گراوٹ دکھاتا ہے لیکن مالیاتی خسارے میں 4ء3 فیصد اضافہ بھی دکھاتا ہے۔ مالیاتی خسارے میں یہ اضافہ بجٹ میں موجودہ اخراجات میں اضافے کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا-
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نگران حکومت نے ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی میں اضافے کے لیے اقدامات اٹھائے- ثبوت میں کہا گیا ہے کہ روآں مالیاتی سال کے پہلے چھے مہینوں میں میں ٹیکس کی مد میں آمدنی 28ء8 فیصد اور نان ٹیکسکی مد میں آمدنی میں 116ء5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کو بہتر کارکردگی کہا جاسکتا ہے لیکن یہاں بھی فنانس ڈویژن کے بابوؤں نے یہ حقیقت چھپائی کہ رواں سال میں افراط زر کا بجٹ میں ہدف 21 فیصد تھا جبکہ رواں مالیاتی سال کی پہلی ششماہی میں افراط زر 28 فیصد رہا اور اس اعتبار سے ریونیو خودبخود بڑھنا تھا اس میں ایف بی آر کا کوئی کارنامہ نظر نہیں آتا-
نگران حکام کے پاس اضافی ٹیکسز کے نفاذ کا منیڈیٹ نہیں تھا کیونکہ اس کے لیے پارلیمانی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے – اس کے باوجود انھوں نے ایف بی آر کے لیے اصلاحات کا ایک مسودہ تیار کیا جسے ایکشن کمیشن نے منتخب حکومت آنے تک روک دیا تھا- لیکن جو درافٹ نگران حکام نے بنایا تھا ان میں انتظامی اصلاحات تھیں جبکہ ٹیکس سٹرکچر میں اضلاحات کا کوئی ذکر نہ تھا- اور ہم نے بار ہا اپنے اداریوں میں زکر کیا ہے کہ موجودہ ٹیکس سٹرکچر کا 76 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکسز پر مشتمل ہے جس کا بوجھ امیروں سے کہیں زیادہ غریبوں پر پڑتا ہے۔
رپورٹ میں رواں مایاتی سال کی پہلی ششماہی میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ صنعت میں گروتھ کا زکر کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ صنعتوں کا یہ شعبہ اب بھی منفی گروتھ میں اگرچہ یہ منفی صفر اعشاریہ 40 فیصد ہے جوکہ گزشتہ سال کے اسی دورانیہ میں منفی دو اعشاریہ 10 فیصد تھا-
رپورٹ میں ایکسپورٹ کی گروتھ کا زکر بھی ہے حالانکہ ایکسپورٹ حجم کی بجائے بین الاقوامی منڈی میں ایکسپورٹ آئٹم کی قیمتیں بڑھنے کے اعتبار سے گروتھ ہے۔ اور ایکسپورٹ کی گروتھ کے گھٹنے اور حجم میں اضافہ نہ ہونے کا سبب اسحاق ڈار کی پالیسیوں کے نقصانات میں سے ایک ہے۔
اس رپورٹ میں دو بڑے معاشی اشاریے ایسے ہیں جو براہ راست عوام کے لیے بدترین حالات پیدا کررہے ہیں- ان میں سب سے بڑا اشاریہ تو افراط زر کا ہے جو اب بھی 25ء4 سے بڑھ کر 28ء7 فیصد ہوگیا ہے- یعنی نگران حکومت کے دور میں افراط زر میں مزید تین فیصد کا اضافہ ہوگیا- نگران حکومت اس کا الزام آئی ایم ایف سے عارضی معاہدے کی شرائط کو دیتی ہے۔ لیکن وہ یہ بتانے سے نجانے کیوں شرماتی رہی کہ اس نے کرنٹ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مقامی بینکوں سے بے تحاشا قرضہ آٹھایا اور اس نے بجٹ میں جس ہدف تک بجٹ خسارے کو رکھا جانا تھا اس سے بڑھا کر 4ء3فیصد کر ڈالا-اور اس نے افراط زر کو بڑھا دیا-
حکومت کرنٹ مالیاتی خسارےمیں 71ۂ2 فیصد کمی کو اپنا بڑا کارنامہ بتاتی ہے۔ حالانکہ یہ کمی برآمدات پر پابندی کا نتیجہ ہے جبکہ اس کمی میں ایکسپورٹ میں بہتری کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ جبکہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں کمی کا جو رجحان پی ڈی ایم کی سولہ ماہی حکومت کا خاصا تھا وہ نگران حکومت میں بھی جاری رہا-یہ گزشتہ مالیاتی سال کی پہلی ششماہی میں 16 ارب 30 کروڑ ڈالر تھیں جو اس سال کی ششماہی میں 15 ارب 80 کروڑ ڈالر رہیں-
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 27 فروری تک 7 ارب 90 کروڑ ڈالر تھے اور کزشتہ مالی سال کے آخری دن بھی اتنے ہی تھے۔ جبکہ ان ذخائر میں آئی ایم ایف، چین ، یو اے ای اور سعودی عرب سے لیا گیا قرض بھی شامل ہے جبکہ اس میں پاکستان کی اپنی کمائی گئی آمدنی کے ڈالر بہت کم ہیں-
اگر ہم نگران حکومت کے کے اس دعوس کو لیں کہ انہوں نے اپنی مدت حکومت کے دوران معشیت کو استحکام کے راستے پر گامزن کردیا ہے تو یہ دعوا اس حد تک ٹھیک ہے کہ آئی ایم ایف سے کیے گئے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے- ایس بی اے کے پہلا جآغزہ کامیاب ٹھہرا ہے۔ لیکن میکرو اکنامک اشاریوں کو دیکھیں تو نہ تو 16 ماہی پی ڈی ایم ون کی کارکردگی تسلی بخش تھی اور نہ ہی نگران حکومت کی-
اب موجودہ منتخب حکومت کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔ اسے ایس بی اے کے تحت آخری قسط کے جاری ہونے کی شرائط سے پہلے ہی انتہائی سخت مراحل سے کزرنا ہے۔ خاص طور پر پنجاب حکومت جس نے رمضان پیکج کا سائز بڑھا دیا ہے جس کا جواب وفاقی حکومت کو دینا ہوگا- لگتا ہے کہ پنجاب کی نئی حکومت اس بات سے بے خبر ہے کہ پنجاب کے نگران حاکموں نے اس میں 115 ارب روپے کی کمی کرنے کا وعدہ کیا تھا جوکہ وہ اس سال زیادہ خرچ کرچکے تھے اور وہ بجٹ کو کم کرنے کے لیے یہ کمی کرنے کا وعدہ کیے ہوئے تھے۔ اب یہ پتا نہیں ہے کہ وہ 115 ارب روپے کیسے کم ہوں گے؟ اس وقت جو معاشی بحران ہے اسے ختم کرنے کا ایک ہی راستا ہے اور وہ ہے سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ ریفارمز جس سے ہر منتخب اور غیر منتخب حکومت فرار اختیار کرتی رہی ہے۔
ساہیوال کول پاور پلانٹ: مہنگے کوئلے کی خریداری کا اسکینڈل
پاکستان میں توانائی کے بحران نے جہاں بڑے پیمانے پر توانائی کے نئے منصوبوں کی تشکیل کے عمل کو جنم دیا تھا تو ساتھ ہی اس عمل کے دوران مالیاتی بے ضابطگیوں کے امکانات بھی پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے ڈھونڈ نکالے تھے۔ اس کا ایک تازہ ترین ثبوت سی پیک کے تحت 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے ساہیوال کول پاور پلانٹ کے لیے کوئلے کی خریداری کے پروسس میں ہوئی بے ضابطگی کا انکشاف ہے جس سے اصل قیمت سے کہیں زیادا قیمت پر کوئلہ خرید کرنے کی بدعنوانی کا اندیشہ سامنے آیا ہے۔
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بطور چیف منسٹر پنجاب قادر آباد کے نزدیک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے اس منصوبے کا جب انکشاف ہی کیا تھا تو تب ہی ماہرین نے درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے اس منصوبے کے دیرپا ہونے پر سوالات اٹھائے تھے۔ اس وقت ہی ماہرین کا خیال تھا کہ پاکستان کی کرنسی کی گرتی قدر اور افراط زر کے بڑھنے سے اور انتہائی کم زر مبادلہ کے ذخائر کے سبب درآمدی کوئلہ سے اس پاور پلانٹ کو چلانا بجلی کے صارفین پر ناقابل برداشت بوجھ بن جآئے گا- اس وقت دبے دبے لفظوں میں درآمدی کوئلہ کی پرکیورمنٹ کے کرپشن کا مستقل ذریعہ بن جانے کے خطرات کی نشاندہی بھی کی گئی تھی- اور اب یہ خطرات سچ ثابت ہورہے ہیں-
وفاقی پاور ڈویژن کے سرکاری بابو اس وقت سے سخت مشکل کا شکار ہیں جب سے انہیں سابق نگران وزیر برائے توانائی و پٹرولیم محمد علی نے ایک خط لکھا اور اس خط میں انھوں نے ساہیوال کول پاور پلانٹ کے لیے کوئلے کی خریداری کی تفصیلی جانچ کرنے کو کہا اور ان سے اس جانچ کی رپورٹ طلب کی- کوئلے کی حریداری کے سارے پراسس کی جانچ اس لکیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس منصوبے سے بجلی کے صارفین پر ناقابل برداشت مالیاتی بوچھ پڑ رہا ہے اور اس خریداری کے دوران جو بدعنوانی ہوئی اس کا سارا بوجھ بجلی کا عام صارف اٹھا رہا ہے۔
ساہیوال کول پاور پلانٹ کے لیے کوئلے کی خریداری کے پروسس میں ہونے والی بڑی مالیاتی گڑبڑ ایسے بڑے اور صویل مدت چلنے والے ٹھیکوں میں شفافیت کے نہ ہونے کی نشاندہی کرتی ہے جس میں نہ صرف قیمتوں کے تعین میں گھپلے معمول ہیں بلکہ ناجائز ہتھکنڈے بھی عام ہیں- اس اسکینڈل کی بنیاد اس وقت پڑی جب اس پراجیکٹ کے اسٹیک ہولڈرز نے نگران وزیر توانائی کو تحریری شکایت کی اور بتایا کہ اس حوالے سے پرپوزل ریکوئسٹ – آر آیف پی کو ایسے بنایا گیا کہ اس سے خاص من پسند فریق کو فائدہ پہنچے۔ اور آزاد اورصاف مقابلے اور شفافیت کے اصولوں کو نظر انداز کردیا گیا جس سے عوام کے اعتماد اور معاشی بہتری دونوں کو ہی نقصان پہنچا-
نیشنل پاورریگولیٹری اتھارٹی -نیپرا پہلے ہی ساہیوال کول پاور پلانٹ کے لیے درآمدی کوئلے کے استعمال کو صارفین پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالنے کے متردارف قرار دے چکی ہے۔ وفاقی وزیر توانائی اور نیپرا کے یہ دونوں مراسلے انرجی سیکٹر میں احتساب کے میکنزم کے انتہائی کمزور ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں- اس کمزوری کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔