آج کی تاریخ

Imran Khan, PTI, Adiala Jail, Judicial Commission, May 9, November 26, Negotiation, Establishment, Court Cases, Toshakhana Case, Al-Qadir University Case, Aliema Khan, Missing Persons, Judicial System, Political Statements, Pakistan Politics

عمران خان کی دو سالہ قید، نااہلیوں کا طوفان اور پاکستان کی جمہوریت کا نازک موڑ

پانچ اگست 2023 کو سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو تحائفِ ریاست (توشہ خانہ) کیس میں گرفتار کیا گیا، اور آج ان کی قید کو دو برس مکمل ہو چکے ہیں۔ ان دو برسوں میں پاکستان کی سیاست ایک مسلسل کشمکش، عدم استحکام اور شدید تقسیم کا شکار رہی ہے، جس کے حالیہ مظاہر تحریک انصاف کی ملک گیر احتجاجی تحریک اور الیکشن کمیشن کی جانب سے پارٹی کے متعدد اہم رہنماؤں کی نااہلی کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور ان پر نہ صرف کرپشن بلکہ دہشت گردی سے متعلق متعدد مقدمات زیرِ سماعت ہیں، خاص طور پر 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد، جب ان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں شدید مظاہرے ہوئے، جن میں سرکاری اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان پرتشدد مظاہروں نے پاکستان کی سیاسی فضا کو شدید دھچکا پہنچایا اور اس کے بعد سے تحریک انصاف کی سیاسی قیادت، تنظیمی ڈھانچے، اور ساکھ پر ریاستی دباؤ واضح طور پر بڑھتا گیا۔
فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے حالیہ دنوں میں 100 سے زائد پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کو 10، 10 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں، جن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر، عمر ایوب خان اور شبلی فراز سمیت کئی اہم چہرے شامل ہیں۔ ان فیصلوں کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 63 (1)(h) کے تحت انہیں عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے۔ یہ سلسلہ صرف یہی تک محدود نہیں رہا، بلکہ یکے بعد دیگرے کئی دنوں میں متعدد ارکانِ اسمبلی اور سینیٹرز کو نااہل قرار دیا جا چکا ہے، جس سے ایک خاص سیاسی رجحان کی جھلک ملتی ہے۔
یہ صورتحال محض عدالتی فیصلوں یا آئینی تقاضوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک واضح سیاسی رجحان کی عکاسی کرتی ہے، جہاں ایک مخصوص جماعت اور اس کی قیادت کو محدود کرنے کی کوشش بار بار ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ اس عمل کا سب سے بڑا نقصان سیاسی مکالمے اور جمہوری عمل کو پہنچ رہا ہے، اور عوام کے ایک بڑے طبقے میں یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ سیاسی اختلاف کو دبانے کے لیے ریاستی ادارے استعمال ہو رہے ہیں۔
ان فیصلوں کے خلاف تحریک انصاف نے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی ہے، جسے پارٹی کی قیادت “جمہوریت کی بحالی” کی تحریک قرار دے رہی ہے۔ تاہم، ریاستی ردِعمل اس احتجاج کو بھی محدود کرنے کی کوششوں پر مبنی رہا۔ لاہور میں متعدد کارکن گرفتار کیے گئے، راولپنڈی میں دفعہ 144 نافذ کی گئی، اور رہنماؤں کو اڈیالہ جیل جانے سے روکا گیا۔ ریحانہ در جیسے سینئر رہنما کے ساتھ روا رکھا گیا ناروا سلوک عوامی جذبات کو مزید مشتعل کر رہا ہے، جب کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں بھی مظاہروں اور گرفتاریوں کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
یہ احتجاج محض پارٹی کا اندرونی معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک بڑے قومی سوال کا پیش خیمہ بن چکا ہے: کیا پاکستان میں جمہوری حقِ اختلاف کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے؟ کیا سیاست کو صرف وفاداری اور فرمانبرداری کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟
مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ماضی میں پی ٹی آئی سے علیحدہ ہونے والے رہنما، جیسے اسد عمر اور فواد چوہدری، بھی عمران خان کی دو سالہ قید کو غیر منصفانہ قرار دے رہے ہیں۔ اسد عمر نے اعتراف کیا کہ “دو سال بعد بھی عمران خان کے خلاف بیانیہ فروخت نہیں ہو سکا۔” یہ بیان اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ عمران خان کی سیاسی قوت اور عوامی مقبولیت بدستور قائم ہے۔
ایسے میں ریاستی پالیسی کا موجودہ رجحان — جو کہ تحریک انصاف کو قانونی، انتظامی اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے محدود کرنے پر مرکوز ہے — دیرپا نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت کی بنیاد شمولیت، مکالمہ اور آئینی عمل پر ہوتی ہے، نہ کہ بیانیے کی جنگ یا طاقت کے استعمال پر۔ اگر ایک بڑی سیاسی جماعت کو مسلسل دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو اس سے نہ صرف جمہوریت کمزور ہو گی بلکہ ریاست کا سیاسی توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔
ان حالات میں یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ کیا موجودہ حکمران اتحاد یا ریاستی ادارے تحریک انصاف کے ساتھ کسی سیاسی مفاہمت کی طرف بڑھنے کو تیار ہیں؟ یا پھر محاذ آرائی ہی واحد راستہ سمجھا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ ملک کو کسی بہتر مستقبل کی طرف نہیں، بلکہ ایک بند گلی کی طرف لے جا رہا ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ سیاسی قوتیں سنجیدگی سے بیٹھ کر ایک نیا قومی معاہدہ کریں، جس میں تمام جماعتوں کو مساوی موقع ملے، اور عوام کو یہ اعتماد ہو کہ ان کے ووٹ اور رائے کی اہمیت برقرار ہے۔ اگر سیاسی اختلاف کو دشمنی میں تبدیل کیا جاتا رہا، تو نقصان صرف تحریک انصاف یا عمران خان کا نہیں ہوگا — یہ پوری جمہوری فضا کا نقصان ہو گا۔
جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ سیاست کو سیاست کے ذریعے حل کیا جائے، اور قوتِ بازو کے بجائے قوتِ دلیل سے فیصلے کیے جائیں۔ یہی پاکستان کے سیاسی مستقبل کا واحد قابلِ عمل راستہ ہے۔
عمران خان کی دو سالہ قید اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی متواتر نااہلیوں کے تناظر میں اگر پاکستان کے سیاسی نظام کا بغور جائزہ لیا جائے، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم اس وقت ایک “غیر فعال جمہوریت” کی جانب بڑھ رہے ہیں— جہاں منتخب نمائندوں کی جگہ بیانیہ سازی، ادارہ جاتی طاقت اور انتقامی قانون سازی لے چکی ہے۔ جمہوریت کے اصل ستون — عوامی مینڈیٹ، شفاف انتخاب، اور سیاسی اظہار کی آزادی — بتدریج کمزور ہو چکے ہیں۔
اس صورتحال کا ایک المیہ یہ ہے کہ ادارے اپنی غیر جانبداری کھو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن، عدلیہ، اور انتظامیہ — جنہیں آئینی دائرے میں رہتے ہوئے منصفانہ کردار ادا کرنا چاہیے — ان پر جانبداری کے الزامات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس عدم توازن نے عوام کے اعتماد کو سخت متاثر کیا ہے، اور ریاست و سیاست کے درمیان ایک واضح خلیج پیدا کر دی ہے۔
اسی دوران، پاکستان معاشی بحران کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، روپے کی گراوٹ، اور صنعتی جمود نے عوام کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایسے میں سیاسی محاذ آرائی، احتجاج، گرفتاریاں، اور سزائیں — یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو پہلے ہی شدید داخلی انتشار اور عالمی تنہائی کا شکار ہے۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ نوجوان نسل — جو پاکستان کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہے — اس وقت شدید مایوسی اور بے یقینی کا شکار ہے۔ عمران خان کی حمایت کرنے والے لاکھوں نوجوان، جو تبدیلی، احتساب اور شفافیت کے خواب دیکھتے تھے، آج ریاست کے رویے سے بدظن ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے سیاست اب امید کا نہیں بلکہ انتقام، جبر اور دھوکہ دہی کا کھیل بن چکی ہے۔
اسی تناظر میں یہ سوال بار بار ابھرتا ہے:
کیا پاکستان سیاسی انتقام کے دائرے سے نکل کر کسی قومی مفاہمت کی طرف جا سکتا ہے؟ کیا ہم ایک ایسا فریم ورک تشکیل دے سکتے ہیں جس میں تمام سیاسی قوتوں کو برابری کا موقع دیا جائے، اور کوئی بھی جماعت یا رہنما “ناقابلِ قبول” نہ سمجھا جائے؟
اس کا ایک ہی راستہ ہے:
سیاسی مکالمہ: تمام جماعتوں کو بغیر کسی پیشگی شرط کے مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔عدالتی اصلاحات: انصاف کا عمل تیز، شفاف اور غیر جانبدار ہو۔انتخابی اصلاحات: آئندہ انتخابات کو اس قدر آزاد اور شفاف بنایا جائے کہ شکست تسلیم کرنا بھی ایک مہذب روایت بن جائے۔آئینی بالادستی: ریاستی ادارے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں اور سیاسی انجینئرنگ سے باز رہیں۔
میڈیا کی آزادی: اطلاعات کی ترسیل میں پابندیاں ہٹا کر آزاد صحافت کو بحال کیا جائے۔
یہ تمام نکات محض نظریاتی باتیں نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام، ترقی اور جمہوری بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔ تاریخ یہ ثابت کر چکی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے سے نظام مضبوط نہیں ہوتا، بلکہ یہ عمل ایک اور انتقامی چکر کو جنم دیتا ہے جس کا نتیجہ مزید انارکی، بداعتمادی اور جبر کی صورت میں نکلتا ہے۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کو ریاست سے شکایت ہے کہ انہیں سیاسی عمل سے باہر دھکیلا جا رہا ہے۔ ریاست کو شکایت ہے کہ پارٹی نے قانون و آئین کو چیلنج کیا۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان صرف ایک چیز کام کر سکتی ہے — سیاسی فہم و فراست۔اگر قیادت نے وقت کی پکار نہ سنی، تو نہ صرف جمہوریت کمزور ہو گی بلکہ آئندہ نسلوں کو ایک ایسا نظام ملے گا جو انتخابات سے خالی، پارلیمان سے بے روح، اور عوام سے کٹا ہوا ہو گا۔یہ وقت تنگ نظری اور انتقام کا نہیں، وسعتِ قلب اور تدبر کا ہے۔

کھیل میں سیاست کی آمیزش ،— پی سی بی کا بروقت اور درست مؤقف

کھیلوں، بالخصوص کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھنا ایک دیرینہ اصول اور عالمی روایت رہا ہے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارت اس روایت کو مسلسل پامال کرتا آ رہا ہے۔ عالمی سطح پر کرکٹ کی حرمت کو ٹھیس پہنچانے والا تازہ ترین واقعہ “ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز” (WCL) کے دوران سامنے آیا، جہاں بھارت نے نہ صرف پاکستان کے ساتھ گروپ میچ کھیلنے سے انکار کیا، بلکہ سیمی فائنل میں بھی محض سیاسی تناؤ کے بہانے میدان میں اترنے سے گریز کیا۔
یہ رویہ نا صرف کھیل کے جذبے کے خلاف ہے، بلکہ اس بات کا واضح اظہار بھی ہے کہ بھارت کھیل کو اپنی قوم پرستی پر مبنی سیاست کا آلہ کار بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے، چیئرمین محسن نقوی کی قیادت میں، بھارت کے اس جانبدارانہ رویے کے خلاف WCL میں پاکستان کی آئندہ شرکت پر پابندی لگا کر ایک مؤقف قائم کیا ہے جو بروقت، مناسب اور قومی وقار سے ہم آہنگ ہے۔
پی سی بی کا مؤقف بالکل درست ہے کہ جب بھارت نے گروپ میچ کھیلنے سے انکار کیا تھا، تو فتح یا کم از کم واک اوور پاکستان کے حصے میں آنی چاہیے تھی۔ مگر بجائے اس کے، منتظمین نے دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دے کر واضح جانبداری اور سیاسی دباؤ کے سامنے جھکاؤ کا ثبوت دیا۔ یہی جانبداری سیمی فائنل کی منسوخی میں بھی دکھائی دی، جہاں “عوامی جذبات” کو بنیاد بنا کر کھیل کو منسوخ کر دیا گیا — حالانکہ پاکستان کی ٹیم مکمل طور پر کھیلنے کے لیے تیار تھی۔
پی سی بی کا یہ بیان کہ ورلڈ کرکٹ لیگ نے ایک “مخصوص قوم پرستانہ بیانیے” کے آگے سرِ تسلیم خم کیا، نہایت اہم ہے۔ اس سے نہ صرف کھیل میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت کی نشان دہی ہوتی ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کھیل کے منتظمین کو بھی غیر جانبداری کے اصول پر سختی سے قائم رہنے کی ضرورت ہے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت کے انکار کے باوجود پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل -آئی سی سی کے فریم ورک کے تحت بھارت کے ساتھ کھیلنے میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ ایشیا کپ کے انعقاد کے حوالے سے بھی محسن نقوی نے بطور چیئرمین ایشین کرکٹ کونسل مثبت کردار ادا کیا، اور بھارت کو اس بات پر راضی کیا کہ ایشیا کپ کو متحدہ عرب امارات میں منعقد کیا جائے تاکہ کھیل جاری رہ سکے۔ مگر افسوس کہ بھارت مسلسل ان روابط کو منقطع کر رہا ہے، جو ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کے ذریعے قائم ہوئے تھے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ دیگر کھیلوں میں بھارت اور پاکستان آمنے سامنے آ چکے ہیں — جیسا کہ حالیہ انڈر-16 ایشین والی بال چیمپئن شپ، جہاں پاکستان نے بھارت کو شکست دی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دیگر کھیلوں میں تو مقابلہ ممکن ہے، لیکن جب بات کرکٹ کی آتی ہے، تو بھارت کی طرف سے سیاسی تعصب پوری شدت سے سامنے آ جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کھیل کو سیاسی مفادات سے مکمل طور پر آزاد کر پانا ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب عالمی سطح پر کھیلوں کے ادارے، خاص طور پر آئی سی سی ، اس نوعیت کی سیاسی مداخلتوں کے خلاف سخت اور غیر مبہم مؤقف اختیار کریں۔ ورنہ ایسے رویے نہ صرف کھیل کے عالمی معیار کو متاثر کریں گے بلکہ خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید ہوا دیں گے۔
پی سی بی نے اس بار جو جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا ہے، وہ محض ایک کرکٹ فیصلہ نہیں بلکہ قومی خودداری، اصول پسندی اور کھیل کی غیر سیاسی فضا کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر کرکٹ بورڈز، خاص طور پر ICC، بھی اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اور کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں — نہ کہ قومی انا اور سیاسی تنازعات کا میدان۔ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز میں بھارت کے سیاسی رویے کے خلاف پی سی بی کا احتجاج ایک منطقی اور اصولی قدم ہے۔ اب عالمی اداروں کو بھی اس روش کا نوٹس لینا ہو گا، تاکہ کھیل کو سیاست سے پاک رکھا جا سکے، ورنہ نقصان صرف میدان میں نہیں، عالمی برادری کے اعتبار میں بھی ہو گا۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی، گرتی ہوئی آمدنی — ،معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹی

ماہ جولائی میں صارف قیمت اشاریہ (کنزیومر پرائس انڈیکس) 4.1 فیصد تک پہنچ گیا، جو کہ اپریل 2025 میں صرف 0.3 فیصد کی سطح پر آ گیا تھا۔ یہ ایک بار پھر اس رجحان کی نشاندہی ہے کہ مہنگائی کا دباؤ واپس بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ یہ شرح گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں اب بھی کم ہے، مگر اس میں حالیہ اضافہ باعثِ تشویش ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب عوام پہلے ہی بدترین معاشی دباؤ میں ہیں۔
مالی سال 2025-26 کے پہلے مہینے میں مہنگائی کی یہ شرح اس ہدف کے قریب ہے جو اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے مارچ 2025 سے مقرر کر رکھا ہے: یعنی 5 سے 7 فیصد کے درمیان۔ تاہم، بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور اسٹیٹ بینک خود بھی اپنے بیانات میں تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ تخمینے غیر یقینی حالات سے متاثر ہو سکتے ہیں، جن میں خوراک کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، توانائی نرخوں میں تبدیلی، عالمی منڈی میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کی غیر یقینی صورت حال اور تجارتی تحفظ پسندی جیسے عوامل شامل ہیں۔
اسی تناظر میں اگر حالیہ مہنگائی میں اضافے کے رجحان کو مدِنظر رکھا جائے، تو امکان ہے کہ اسٹیٹ بینک آئندہ ماہ اور اکتوبر و دسمبر میں ہونے والے اپنے پالیسی اجلاسوں میں شرح سود میں مزید کمی سے گریز کرے گا۔ اس صورت میں حکومت کے وہ مالیاتی اندازے جو بجٹ میں پیش کیے گئے، خاص طور پر سود کی ادائیگیوں میں کمی کی توقعات، غیر حقیقی ثابت ہو سکتی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ اجلاسوں میں جس کمی کو قابلِ حصول” قرار دیا تھا، وہ اب شدید خدشات کی زد میں آ چکی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے اپنی رواں برس مئی میں جاری کردہ پہلی نگرانی رپورٹ میں کہا تھا کہ صارف قیمتوں میں اضافہ 7.7 فیصد رہا، جو کہ سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق 11.07 فیصد تھا۔ تاہم، بین الاقوامی ادارے نے بھی آئندہ مہینوں میں مہنگائی کے دوبارہ بڑھنے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا، اور کہا تھا کہ اگر پالیسی سخت رہی تو مالی سال 2026 میں مہنگائی ہدفی حد (5 تا 7 فیصد) میں واپس آ سکتی ہے۔ اس بیان سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ اگر حکومت نے طے شدہ معاشی اقدامات سے انحراف کیا، تو صرف مالی امداد کی قسط مؤخر نہیں ہوگی بلکہ تین دوست ممالک کی طرف سے 16 ارب ڈالر کی مالی معاونت کے التوا کا بھی خطرہ پیدا ہو جائے گا، جس سے ملک کے دیوالیہ ہونے کا اندیشہ مزید بڑھ جائے گا۔
مہنگائی میں حالیہ اضافے کی سب سے نمایاں وجہ خوراک کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے، جس میں سب سے زیادہ شرح چینی کی ہے، جو گزشتہ ماہ تقریباً 30 فیصد مہنگی ہوئی۔ یہ اضافہ کسی قدرتی قلت کا نتیجہ نہیں بلکہ حکومتی ناکامی کا ثبوت ہے، جو شوگر ملوں کے فراہم کردہ غلط اعداد و شمار پر انحصار کرتی رہی ہے۔ ان شوگر ملز کی نمائندہ تنظیم — پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن — خود حکومتی مشاورتی اداروں کا حصہ ہے اور ہمیشہ برآمدات کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، چاہے اس سے مقامی منڈی میں قلت ہو یا ٹیکس دہندگان پر سبسڈی کا بوجھ پڑے۔ بدقسمتی سے یہ طاقت ور طبقہ ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت پر بھی غالب نظر آتا ہے۔
خوراک کے علاوہ بھی کئی اشیاء و خدمات کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی فیصلوں کے تحت ہوا ہے، جن میں گیس کی قیمتوں میں 22.91 فیصد، بجلی کے نرخوں میں 14.18 فیصد، پٹرولیم لیوی کے باعث ٹرانسپورٹ خدمات میں 4.77 فیصد اور ایندھن کی قیمتوں میں 4.45 فیصد اضافہ شامل ہے۔ یہ تمام فیصلے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ طے شدہ شرائط کا حصہ تھے، لیکن ان کے اثرات عام آدمی کی زندگی پر بے حد منفی پڑے ہیں۔
اس پس منظر میں سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ مہنگائی بڑھنے کے باوجود ملک میں بیروزگاری کی شرح 22 فیصد پر برقرار ہے، اور ملک کی 93 فیصد محنت کش آبادی کی آمدن گزشتہ پانچ چھ برسوں سے تقریباً منجمد ہے۔ صرف وہ 7 فیصد افراد، جو سرکاری ملازمتوں پر فائز ہیں اور جنہیں عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں ملتی ہیں، مہنگائی سے بلند شرح سے تنخواہ میں اضافے سے مستفید ہوئے ہیں۔ اس عدم توازن کے نتیجے میں، عالمی بینک کے مطابق، پاکستان میں غربت کی شرح 44.2 فیصد تک پہنچ چکی ہے — جو کہ ایک قومی المیہ ہے۔حکومت کے لیے یہ محض معاشی اشاریوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ سماجی خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ بین الاقوامی ادارے پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر مہنگائی میں اضافہ جاری رہا اور آمدن میں بہتری نہ آئی، تو سماجی بے چینی، مظاہروں اور سیاسی عدم استحکام کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
یہ وقت اعداد و شمار کے کھیل سے نکل کر حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے کا ہے۔ عوام کو فوری ریلیف دینے کے لیے ضروری ہے کہ اشیائے خوردونوش کی ذخیرہ اندوزی پر کڑی نظر رکھی جائے، شوگر مافیا کے اثرات کو ختم کیا جائے، اور بنیادی اجرتوں میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ مالی پالیسیوں میں شفافیت، جوابدہی، اور غریب دوست نقطۂ نظر اختیار کرے۔
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو موجودہ معاشی بحران جلد ایک بے قابو سماجی بحران میں بدل سکتا ہے — اور اس کا بوجھ صرف حکومت پر نہیں، پوری ریاست پر پڑے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں