سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف بدسلوکی یا بدعنوانی کے الزامات کی جانچ کر سکتی ہے، نہ صرف آئینی و قانونی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس نے عدلیہ کے داخلی نظم، ججوں کی آزادی اور ادارہ جاتی وقار پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کا عدالتی منظرنامہ سخت تنازعات، داخلی تقسیم اور عوامی اعتماد کے بحران سے دوچار ہے۔ اس پس منظر میں یہ فیصلہ عدلیہ کی بقا اور خودمختاری کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔فیصلے میں جس بنیادی اصول پر زور دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کسی دوسرے جج کو جواب دہ نہیں ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 199(5) کے مطابق ججوں کو ان کے عدالتی اور انتظامی افعال پر استثنیٰ حاصل ہے تاکہ وہ کسی خوف یا دباؤ کے بغیر انصاف کر سکیں۔ اس تحفظ کا مقصد عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔ اگر جج ایک دوسرے پر حکم چلانے لگیں تو عدلیہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو جائے گی اور انصاف کی فراہمی متاثر ہوگی۔ یہ اصول صرف پاکستان کے آئین تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کے عدالتی نظام میں تسلیم شدہ ہے کہ ججوں کی احتسابی کارروائی ایک مخصوص اور خودمختار فورم پر ہونی چاہیے۔ پاکستان میں یہ فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے، جسے آرٹیکل 209 کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی جج کے خلاف بدعنوانی یا بدسلوکی کی شکایات کی سماعت کرے۔فیصلے نے یہ واضح کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج ایک دوسرے پر توہین عدالت یا کسی اور قانونی چارہ جوئی کا اختیار استعمال کرنے لگیں تو اس سے ادارے کی وحدت اور ساکھ بکھر جائے گی۔ یہ عمل نہ صرف ادارے کو کمزور کرے گا بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کرے گا۔ عوام یہ دیکھیں گے کہ جج آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں تو عدلیہ کی غیر جانبداری اور وقار کہاں باقی رہے گا؟ انصاف کے پورے نظام پر سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کئی مواقع پر یہ سوال اٹھا کہ ججوں کا احتساب کس طرح کیا جائے۔ ماضی میں، خصوصاً جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس اور بعد ازاں پی سی او ججوں کے معاملے نے واضح کیا کہ احتساب کے بغیر عدلیہ اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ احتساب کسی دوسرے جج یا بینچ کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ آئینی طریقہ کار کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ فیصلے نے اس نکتے کو بھی تقویت دی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 209(7) میں صاف لکھا ہے کہ کوئی دوسرا فورم اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف بدسلوکی کے معاملے میں کارروائی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک بنیادی آئینی ضمانت ہے، اور اسے ختم کرنا دراصل عدلیہ کی آزادی پر کاری ضرب ہوگی۔فیصلے میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر جج ایک دوسرے پر توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں تو اس سے عدلیہ میں باہمی دشمنیاں، شکایات اور کدورتیں پیدا ہوں گی۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے۔ عدلیہ کے ادارے کی طاقت اس کے داخلی اتحاد اور ہم آہنگی میں ہے۔ جج اگر ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو جائیں تو ادارہ عوامی اعتماد سے محروم ہو جائے گا اور انصاف کی فراہمی بری طرح متاثر ہوگی۔ یہ فیصلہ یاد دلاتا ہے کہ عدلیہ کا مقصد باہمی انتقام یا طاقت کی رسہ کشی نہیں بلکہ آئین کے مطابق انصاف کی فراہمی ہے۔ اگر جج ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل جائیں تو یہ نظام صرف کمزور عوام کو مزید مایوسی کی طرف دھکیل دے گا۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ عدلیہ کی اندرونی تقسیم انصاف کے نظام کو تباہ کر دے گی اور عوامی اعتماد ختم ہو جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج عوام پہلے ہی عدلیہ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ بڑے مقدمات میں تاخیر، طاقتور طبقات کے لیے الگ انصاف، اور عام شہری کے لیے مشکلات نے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس فیصلے سے امید کی جا سکتی ہے کہ عدلیہ اپنی اصلاح کرے اور ادارہ جاتی نظم کو مستحکم کرے۔ یہ فیصلہ محض ایک عدالتی حکم نہیں بلکہ عدلیہ کے لیے آئندہ کے لائحہ عمل کی وضاحت بھی ہے۔ اس نے واضح کر دیا کہ عدلیہ کے اندر احتساب کا عمل صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے ممکن ہے۔پاکستان کے عوام عدلیہ کو ایک مقدس اور غیر جانبدار ادارہ سمجھنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب جج اپنی ذاتی انا اور گروہی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آئین و قانون کے مطابق کام کریں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اسی سمت میں ایک قدم ہے، لیکن اصل امتحان عدلیہ کے رویے اور اس کی ادارہ جاتی شفافیت میں بہتری سے ہوگا۔ اس فیصلے نے عدلیہ کو باہمی کشمکش سے بچانے کی راہ دکھائی ہے اور یاد دلایا ہے کہ ججوں کا احتساب ایک منظم آئینی فورم پر ہی ہو سکتا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال، شفاف اور غیر جانبدار بنایا جائے تاکہ یہ فیصلے محض کاغذی نہ رہیں بلکہ انصاف کے نظام میں حقیقی اعتماد پیدا ہو۔
