آج کی تاریخ

طبقاتی تقسیم۔۔ انسانوں سے گھوڑوں تک

افتخار فخر چھاوڑی سے میرا تعارف 1968ء میںاُس وقت ہوا جب میں گورنمنٹ ہائی سکول روہیلانوالی میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا اور ان کے والد مرحوم روہیلانوالی میں ایس ایچ او تعینات ہوئے تو وہ میری کلاس میں آئے۔ اس دور میں ایس ایچ او کا علاقہ میں بڑا رعب اور دبدبہ ہوتا تھا اور اسی نسبت سے اساتذہ بھی افتخار کوبہت ہی خاص اہمیت دیتے تھے۔ میرے والد صاحب بھی ریٹائرڈ صوبیدار تھے اسی لیے مجھے بھی اس دور میں تھوڑی بہت توجہ مل ہی جاتی تھی۔ اس زمانے میں ہم نئے نئے آزاد ہوئے تھے مگر انگریز نے غلاموں کیلئے جو نظام نافذ کیا تھا اس میں سرکاری ملازمین خاص طور پر پولیس انتظامیہ اور فوج کے ملازمین کو خصوصی مقام اور احترام حاصل ہوتا تھا، ایس ایچ او اورپٹواری دیہی علاقوں میں سرکار کے خاص نمائندے ہوا کرتے تھے۔ نمبردار، ذیل دار، لوکل باڈی کے نمائندے،چیئرمین یونین کونسل اور کونسلرز ان تھانیداروں کے خاص ’’مددگار‘‘ ہوتے تھے۔ ضلعی سطح پر ایس پی اور ڈی سی کا راج ہوتا تھا۔ مگر ایس ایچ او کے پاس لا محدود اختیارات ہوتے تھے اور کہا جاتا تھا تھانہ حدود کا مالک ایس ایچ او جبکہ ڈپٹی کمشنر کو ضلع کا مالک کہا جاتا تھا۔ان دنوں سب انسپکٹر ہی ایس ایچ او ہوتا تھااور اکثرSHO ترقی میںسرے سے دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ انسپکٹر کے پاس کوئی زیادہ اختیارات تو ہوتے نہیں تھے۔ انہیں انسپکٹر C.I.A سپیشل برانچ یا کسی ایسی ہی پوسٹ پر تعینات کر دیا جاتا جو کھڈے لائن پوسٹ سمجھی جایا کرتی تھی۔ اسی طرح ڈپٹی کمشنر صاحبان ترقی کر کے کمشنر اور سیکرٹری وغیرہ بھی بن جاتے مگر وہ بھی ساری عمراپنے ڈپٹی کمشنر والے دور کویاد کرتے اور اِسی دور کے قصے سناتے رہے تھے۔ اب بھی ایسا ہی ہے آج بھی اکثر ریٹائرڈ بیورو کریٹ ۔ When I Was D.C کے جملے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
اس زمانے میں رشوت بہت کم تھی۔ زمیندار سرکاری ملازمین کی ضروریات کا خیال رکھاکرتے تھے۔ انہیں گندم، بھینس اور گھی چارہ وغیرہ بھی دیتے تھے۔ خاص طور پر ایس ایچ او اور پٹواری صاحبان ان مراعات سے لازمی مستفید ہوتے۔ مزے کی بات ہے کیونکہ پٹواری تھانہ حدود کے ایک سے زائد بلکہ کئی ہوا کرتےتھے مگرSHO ایک ہی ہوتا تھا۔ اس لیے گندم جب تھانہ جاتی تھی کہتے تھے تھانیدارکے لئے ان کی گندم جا رہی ہے۔ اب ایسی باتوں پر ہنسی آتی ہے جبکہ اس دور میں ڈسپنسری ڈاکٹر کو بھی اکثر یہ سہولت میسر ہوا کرتی تھی۔ اس وقت ہر پولیس سٹیشن پر ایک بڑا تھانیدار یعنی SHO اور چھوٹا تھانیدار یعنی ASI (اسسٹنٹ سب انسپکٹر) ہوتا تھااور ایک منشی جسے حوالدار کہتے تھے۔ SHO کا مطلب سٹیشن ہاؤس آفیسر ہے۔ SHO کو تھانے کا باپ اور منشی کو تھانے کی ماں کہا جاتا تھا اور اس کی خاص اہمیت ہوتی تھی، تاہم ان ماں باپ کے بچے کون ہوا کرتے تھے اس بارےراوی خاموش ہے، ایسے مخبروںسے سلوک بچوں والا ہی ہوتا تھا۔ اے ایس آئی اور حوالدار بہت کم ہی براہ راست بھرتی ہوتے تھے۔ اکثر کانسٹیبل سے ترقی کر کے حوالدار، ASI اور SHO بنتے تھے۔ اسی طرح اس وقت پٹواری صاحبان بھی ترقی میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ کانوگو کے پاس وہ اختیارات نہیں ہوتے جو کہ پٹواری کے پاس ہوتے ہیں اور آج بھی اُسی طرح سے ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انگریز نے پٹواری، نمبردار اور چوکیدار کے ذریعہ جاسوسی کا مکمل نظام بنایا ہا تھا۔ جو SHO کی سربراہی میں کام کرتا تھا۔ آبادی بھی کم تھی کسی کے گھر کوئی مہمان آتا کبھی کبھار خانہ بدوش یا افغانستان سے سردیوں میں پاوندے آتے تو ان سب کا ریکارڈ چوکیدار نمبردار اورپٹواری کے ذریعہ SHO کے پاس پہنچایا جاتا تھا جو کہ جرائم کو کنٹرول کرنے میں بڑا مدد گار ہوتا تھا۔
اکثر افسران کی تعیناتی 3 سال کیلئے ہوتی تھی اسی طرح ایس ایچ او بھی اکثر 3 سال تک تعینات رہتا تھا اور جب تک کوئی بڑی شکایت نہیں ہوتی تھی، تبادلے نہیں ہوا کرتے تھے۔ سرکاری ملازمین کے بچے سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ مجھے اُس وقت بڑی حیرت ہوتی جب مجھے پتہ چلا کہ ایس ایچ او اور اے ایس آئی کے پاس سرکاری گھوڑیوں کا چارہ الائونس بھی مختلف ہوتا ہے ایس ایچ او کی گھوڑی کا زیادہ نکے تھانیدار کی گھوڑی کا کم ،اس وقت بھی طبقاتی نظام تو تھا اور مگر یہ نظام جانوروں پر بھی لاگو تھا۔ وہ دور کوئی آئیڈیل تو نہیں مگر بارکھان کے واقعہ اور دوسرے واقعات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود آج ہم جس طرح کے سیاسی سماجی، معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا شکار ہیں وہ گذرا زمانہ ہی بہت اچھا تھا۔ آئندہ بھی اِن مسائل بارے بات ہوتے رہے گی۔ بات افتخار چھاوڑی مرحوم سے شروع ہوئی مگر ان کے والد صاحب کے ذکر کی وجہ سے کہاں پہنچ گئی۔ جیسا کہ کہا ہےافتخار فخر چھاوڑی جو اب مرحوم ہو چکے ہیں ان سے 54 سال تعلق رہا۔ اب ان کی یادیں میری تحریر میں میرے ہم رقاب رہیں گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں