پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات میں بڑھتا ہوا تناؤ کسی اچانک حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ چار دہائیوں پر محیط پالیسیوں کا شاخسانہ ہے جن کی بنیاد 1979 میں سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے بعد رکھی گئی۔ اس وقت جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت نے امریکہ اور مغربی بلاک کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کی کھلے عام پشت پناہی شروع کی۔ لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان آئے اور ان کی آبادکاری کو ریاست نے باقاعدہ نظام کا حصہ بنانے کے بجائے انہیں جہادی تنظیموں کے افرادی ذخیرے کے طور پر استعمال کیا۔ یوں پاکستان کی سرزمین پر عسکریت اور اسلحہ کلچر کے بیج بو دیے گئے جن کی کاٹ آج تک جاری ہے۔
سوویت انخلا کے بعد پاکستان نے طالبان کو اسٹریٹجک اثاثہ قرار دیا اور یہ سمجھا کہ کابل میں ایک دوستانہ حکومت بھارت کو افغانستان سے دور رکھے گی اور پاکستان کو اسٹریٹجک گہرائی فراہم کرے گی۔ لیکن یہ سوچ وقتی فائدوں کے سوا کچھ نہ تھی۔ 1990 کی دہائی کی خانہ جنگی نے نہ صرف افغانستان کو توڑ کر رکھ دیا بلکہ پاکستان کے اندر بھی انتہا پسندی کو ہوا دی۔ اس دوران منشیات، اسلحہ اور جہادی نظریات نے پاکستانی سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے بظاہر طالبان سے ہاتھ اٹھا لیا لیکن عملاً انہیں پاکستان میں پناہ اور سہولت دی جاتی رہی۔ یہی دوہری پالیسی تھی جس نے پاکستان کی عالمی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔ امریکہ کبھی مطمئن نہ ہوا اور طالبان بھی مکمل قابو میں نہ آئے۔
2007 کے بعد پاکستان دہشت گردی کی ایسی لہر کا شکار ہوا جس نے ہزاروں معصوم شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی جان لے لی۔ تحریک طالبان پاکستان انہی جہادی ڈھانچوں کی پیداوار تھی جنہیں ضیاء الحق کے دور میں پروان چڑھایا گیا تھا۔ سوات اور وزیرستان میں ریاستی رٹ ختم ہو گئی اور فوج کو بار بار آپریشن کرنے پڑے۔ پاکستان کے عوام نے پہلی بار اپنی افغان پالیسی پر کھلے عام سوالات اٹھانا شروع کیے۔ جب 2021 میں طالبان نے دوبارہ کابل پر قبضہ کیا تو پاکستان نے اسے اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ لیکن جلد ہی یہ خوش فہمی ٹوٹ گئی۔ طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے نظریاتی رشتے کو ترجیح دی اور پاکستان کے مطالبات کو مسلسل نظرانداز کیا۔
آج پاکستان ایک سنگین بحران میں ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کی نئی لہر فوج اور عوام کو نشانہ بنا رہی ہے اور دوسری طرف طالبان کے ساتھ تعلقات بگڑتے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستان زیادہ دباؤ ڈالتا ہے تو سرحدی کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور اگر دباؤ نہیں ڈالتا تو دہشت گرد گروہ مزید طاقتور ہوں گے۔ افغان پالیسی کے نقصانات واضح ہیں۔ داخلی سلامتی کمزور ہوئی، معیشت متاثر ہوئی، پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوا، لاکھوں پناہ گزینوں نے وسائل پر بوجھ ڈالا اور انتہا پسندی نے جڑیں مضبوط کر لیں۔ آج پاکستان نہ طالبان پر مکمل اعتماد کر سکتا ہے اور نہ ان سے ناطہ توڑ سکتا ہے۔ ہر بار جب ریاست طالبان پر انحصار کرتی ہے تو نتائج الٹے نکلتے ہیں اور جب ان سے فاصلہ اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو نئے مسائل سامنے آتے ہیں۔
اب ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی کی بنیادیں تبدیل کرے۔ دہشت گردی کے خلاف غیر مبہم حکمت عملی اپنائی جائے، کسی گروہ کو سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے، علاقائی ممالک خصوصاً چین، ایران اور روس کے ساتھ مل کر طالبان پر دباؤ ڈالا جائے، اندرونی طور پر معاشی اور سیاسی استحکام پیدا کیا جائے، پناہ گزین پالیسی کو نئے سرے سے تشکیل دیا جائے اور معاشرے میں انتہا پسندی کے خلاف فکری و تعلیمی جدوجہد کی جائے۔ یہ مسئلہ صرف فوجی کارروائیوں سے حل نہیں ہوگا بلکہ ایک طویل المیعاد سماجی و سیاسی حکمت عملی درکار ہے۔
افغانستان اور پاکستان کا تعلق ہمیشہ سے ایک نازک توازن پر قائم رہا ہے۔ کبھی برادری اور مذہبی رشتے کے نام پر قربتیں بڑھتی ہیں اور کبھی سرحد پار سے دہشت گردی اور پناہ گزینوں کے دباؤ کی وجہ سے یہ تعلقات کشیدگی میں ڈوب جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیرِاعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ “طالبان کو پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا”، دراصل اسی کشیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ مطالبہ محض ایک بیانیہ نہیں بلکہ ایک ایسی گہری مایوسی اور بے بسی کا اظہار ہے جس کا سامنا پاکستان برسوں سے کر رہا ہے۔
پاکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ کبھی سفارت کاری اور نرمی کے ذریعے بات کرنے کی کوشش کی گئی، کبھی معاشی مراعات اور سرحدی تعاون کے وعدے کیے گئے، تو کبھی سخت لہجہ اختیار کر کے سرحد پار کارروائیاں بھی کی گئیں۔ لیکن اس کے باوجود طالبان کی پالیسی میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آتی۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا نظریاتی رشتہ بہت گہرا ہے۔ دونوں کا فکری منبع دیوبندی جہادی بیانیہ ہے جو “جہاد” کو ریاستی سرحدوں سے بالاتر سمجھتا ہے۔ ایسے میں طالبان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے “نظریاتی بھائیوں” کے خلاف سختی سے کارروائی کریں گے، ایک مشکل اور پیچیدہ مطالبہ ہے۔ تاہم اگر طالبان واقعی عالمی سطح پر سفارتی شناخت چاہتے ہیں، اگر وہ چین، وسطی ایشیائی ریاستوں اور روس کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں، تو انہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے پشتی بان بنے رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا مخمصہ بھی شدید ہے۔ ایک طرف ہزاروں فوجی اور شہری دہشت گرد حملوں میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی 19 فوجی اہلکاروں نے اپنی جان قربان کی۔ یہ نقصان پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسری طرف افغانستان سے مکمل ناطہ توڑ لینا بھی ممکن نہیں کیونکہ اس سے طالبان مزید انتہا پسند قوتوں کی طرف مائل ہو سکتے ہیں اور خطے میں ایک نیا عدم استحکام جنم لے سکتا ہے۔
پاکستان نے چین اور افغانستان کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کا آغاز کیا ہے تاکہ طالبان کو مرکزی دھارے میں لایا جا سکے۔ چین کے ساتھ طالبان کی دلچسپی اس لیے بھی ہے کہ بیجنگ افغانستان میں معدنیات، بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے۔ لیکن چین بھی اپنے شہریوں اور مفادات کی سلامتی کے بغیر آگے نہیں بڑھے گا۔ یوں پاکستان کو یہ امید ہے کہ چین کی ثالثی اور دباؤ سے طالبان پر کچھ اثر پڑے گا۔
یہ بھی واضح ہے کہ طالبان کا یہ کہنا کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ نہیں دے رہے، محض ایک انکاری بیانیہ ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی مانیٹرنگ کمیٹی نے بارہا اپنی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹی ٹی پی سمیت کئی شدت پسند گروہ افغان سرزمین پر فعال ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ صورتِ حال دوہرا خطرہ ہے: ایک طرف اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں سے لڑنا اور دوسری طرف طالبان حکومت کے دوغلے رویے سے نمٹنا۔
مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان اس مسئلے سے نکلنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرے؟ کیا طالبان پر یکطرفہ دباؤ اور عسکری کارروائیاں کافی ہوں گی؟ یا پھر خطے کے دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر ایک مؤثر سفارتی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی؟ اس وقت بہترین راستہ یہی نظر آتا ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ محدود مگر مسلسل روابط رکھے اور چین، ایران، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر طالبان پر دباؤ بڑھائے۔ یہ دباؤ صرف عسکری یا سیاسی نہ ہو بلکہ معاشی اور سفارتی مراعات کے ساتھ مشروط ہو۔ طالبان کو باور کرانا ہوگا کہ اگر وہ دہشت گردوں کو لگام نہیں دیتے تو نہ صرف عالمی سطح پر تنہائی ان کا مقدر ہوگی بلکہ علاقائی منصوبے بھی تعطل کا شکار ہو جائیں گے۔
پاکستان کے لیے داخلی محاذ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ بارڈر مینجمنٹ، انٹیلی جنس تعاون، دہشت گردوں کے خلاف جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور مقامی سطح پر کمیونٹیز کی شمولیت کے بغیر دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں۔ ماضی میں قبائلی علاقوں میں دہشت گرد گروہوں کو جگہ اس لیے ملی کہ ریاستی ادارے وہاں سے غیر حاضر تھے اور مقامی آبادی محرومی کا شکار تھی۔ اگر اب بھی یہی روش رہی تو دہشت گرد دوبارہ جڑ پکڑ لیں گے۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ طالبان سے کسی بڑی اور فوری تبدیلی کی امید رکھنا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ طالبان کی نظریاتی جڑیں اور ان کے اندرونی تضادات انہیں کسی بڑی کارروائی سے روکتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ ہمیں ایک کثیرالجہتی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی، جس میں عسکری سختی کے ساتھ ساتھ سفارتی دباؤ، معاشی شراکت داری اور داخلی استحکام سب شامل ہوں۔
خطے کے مستقبل کا دارومدار اس سوال پر ہے کہ طالبان کب تک اپنی نظریاتی وابستگی کو ریاستی ذمہ داری پر ترجیح دیتے رہیں گے۔ پاکستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ اپنے عوام اور فوجیوں کی قربانیوں کو کس طرح محفوظ مستقبل میں بدلتا ہے۔ اگر اس موقع پر درست فیصلے نہ کیے گئے تو دہشت گردی کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ خطے کو ایک مستقل عدم استحکام کے گڑھے میں دھکیل دے گا۔
