آج کی تاریخ

طاقت، انصاف، سیاست

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جمعرات کو جاری کیے گئے نئے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وہ افراد جو امریکی شہریوں یا اتحادیوں، بالخصوص اسرائیل، کے خلاف آئی سی سی کی تحقیقات میں شامل ہوں گے، اقتصادی و سفری پابندیوں کا سامنا کریں گے۔ اس اقدام نے ایک بار پھر عالمی انصاف کے نظام اور طاقتور ممالک کے مفادات کے درمیان جاری کشمکش کو نمایاں کر دیا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت دنیا بھر میں جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی تھی۔ اس عدالت کے 125 رکن ممالک ہیں، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ، روس، چین اور اسرائیل جیسے طاقتور ممالک اس عدالت کا حصہ نہیں ہیں۔ جب بھی کوئی تحقیقات ان ممالک یا ان کے اتحادیوں کے خلاف کی جاتی ہیں، وہ اسے مسترد کر دیتے ہیں۔ٹرمپ کی جانب سے آئی سی سی پر یہ حملہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ان کے پہلے دورِ صدارت میں بھی، 2020 میں، انہوں نے اس وقت کی پراسیکیوٹر فاتو بنسودا اور ان کے ایک اعلیٰ معاون پر پابندیاں عائد کی تھیں کیونکہ وہ افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم میں امریکی افواج کے کردار کی تحقیقات کر رہی تھیں۔ اب، تاریخ ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو واشنگٹن کے دورے پر ہیں۔ نیتن یاہو، ان کے سابق وزیرِ دفاع، اور فلسطینی گروہ حماس کے ایک رہنما کے خلاف آئی سی سی میں کیسز درج ہیں، جن میں غزہ جنگ کے دوران ممکنہ جنگی جرائم شامل ہیں۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے، یا امریکہ اسرائیل کو عالمی عدالت سے بچانے کی ایک اور کوشش کر رہا ہے؟بین الاقوامی قانون کا مقصد سب کے لیے مساوی انصاف فراہم کرنا ہے، لیکن عملی طور پر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جب تک عدالت کمزور ممالک کے خلاف فیصلے دیتی ہے، اسے قبول کرتے ہیں، مگر جب سوال طاقتور ممالک کے کردار پر اٹھتا ہے تو وہ فوراً اسے مسترد کر دیتے ہیں۔امریکہ نے اس عدالت کو نہ صرف مسترد کیا، بلکہ اسے روکنے کے لیے سخت اقتصادی اقدامات بھی کر لیے۔ جس کسی کا بھی آئی سی سی سے تعلق ہوگا، اس کے امریکہ میں موجود اثاثے منجمد کیے جائیں گے اور وہ اور اس کے اہلِ خانہ امریکہ کا سفر نہیں کر سکیں گے۔ یہ ایک ایسا حربہ ہے جو ترقی پذیر ممالک کو دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، مگر اب امریکہ خود عالمی انصاف کو بلیک میل کر رہا ہے۔اسرائیل کے خلاف آئی سی سی کی تحقیقات کو دیکھتے ہوئے، امریکہ کا ردِعمل حیران کن نہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملے میں 47,000 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل پر جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات لگا رہی ہیں۔آئی سی سی کے صدر، جج توکوما اکانے، پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ ایسی پابندیاں عدالت کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ عدالت نے پہلے ہی اپنے عملے کی تنخواہیں تین ماہ پہلے ہی ادا کر دی ہیں، تاکہ کسی ممکنہ مالی بحران کی صورت میں وہ کام جاری رکھ سکیں۔یہ صورتحال ایک اور اہم سوال کو جنم دیتی ہے: کیا انصاف واقعی سب کے لیے ہے، یا صرف ان کے لیے جو طاقتور ممالک کی راہ میں نہ آئیں؟ٹرمپ کا یہ فیصلہ ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ عالمی انصاف کے ادارے کمزور ممالک کے لیے ہیں، جبکہ طاقتور ممالک کے لیے سیاسی سودے بازی اور دباؤ کے حربے زیادہ اہم ہیں۔یہاں یہ بھی قابل غور ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی عدالت سے باہر اپنے معاملات خود طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سینئر امریکی حکام کے مطابق، سابق صدر ٹرمپ اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو ایک ایسا حل تلاش کر رہے ہیں جو فلسطینیوں کو غزہ سے مستقل طور پر بےدخل کرنے کے منصوبے سے مشروط ہے۔ عرب ممالک اور فلسطینی رہنماؤں نے اس تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا ہے، مگر اس کے باوجود امریکہ اپنے فیصلے پر قائم دکھائی دیتا ہے۔امریکہ کے اس قدم کے بعد عالمی برادری کا ردِعمل کیا ہوگا؟ حقوق کی تنظیمیں پہلے ہی سخت احتجاج کر رہی ہیں، جبکہ کچھ ممالک اس اقدام کو بین الاقوامی انصاف پر براہِ راست حملہ قرار دے رہے ہیں۔دوسری جانب، روس نے بھی آئی سی سی کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔ جب 2023 میں آئی سی سی نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خلاف یوکرین میں مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں وارنٹ جاری کیے، تو روس نے آئی سی سی کے چیف پراسیکیوٹر اور دو ججوں کے خلاف وارنٹ نکال دیے۔اگر بڑے اور طاقتور ممالک آئی سی سی کو نظرانداز کرنا جاری رکھتے ہیں، تو اس کے اختیارات آہستہ آہستہ ختم ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی انصاف کا مستقبل محفوظ ہے؟بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، نہ کہ کمزور کرنے کی۔ اگر ہر ملک صرف اپنے مفادات کے تحت عدالت کو قبول یا مسترد کرے گا، تو پھر عالمی انصاف کا تصور بے معنی ہو جائے گا۔ٹرمپ کی جانب سے آئی سی سی پر دباؤ ڈالنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب انصاف طاقتوروں کے خلاف بولتا ہے تو اسے خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر کیا انصاف خاموش ہو جائے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تاریخ ہی دے گی۔

جنسی ہراسانی: خاموشی کا بوجھ اور انصاف کی امید

پاکستان میں خواتین کو ہر میدان میں آگے بڑھنے کے لیے بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن شاید سب سے خطرناک اور تکلیف دہ رکاوٹ جنسی ہراسانی ہے۔ دفاتر میں، تعلیمی اداروں میں، سڑکوں پر، اور یہاں تک کہ آن لائن، خواتین کو مسلسل ایک ایسے خوفناک ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں ان کی عزت، وقار اور ذہنی سکون پر حملہ کیا جاتا ہے۔ تازہ ترین واقعہ پنجاب کی عدلیہ میں پیش آیا، جہاں ایک ضلعی عدالتی اہلکار کو اپنی خواتین ساتھیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہراساں کرنے پر نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس برطرفی کے خلاف اپیل مسترد کر دی، یہ فیصلہ نہ صرف ایک شخص کے لیے بلکہ معاشرے میں پائے جانے والے اس زہر کے خلاف ایک واضح پیغام ہے کہ ہراسانی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب قصور کی ضلعی عدلیہ میں کام کرنے والی نو خواتین نے اپنے ساتھی رانا ندیم اختر کے خلاف شکایت درج کرائی۔ ان کے مطابق، وہ انہیں واٹس ایپ پر نازیبا پیغامات بھیج کر ہراساں کر رہا تھا۔ اندرونی تحقیقات کے بعد، عدالت نے اسے ملازمت سے برخاست کر دیا۔ تاہم، ملزم نے یہ کہہ کر اپنی برطرفی کو چیلنج کیا کہ اس کے خلاف کارروائی اسے سرکاری رہائش دینے سے انکار کے ردعمل میں کی گئی تھی۔یہ دلیل مضحکہ خیز اور افسوسناک تھی، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ عدالت نے نہ صرف اسے مسترد کیا بلکہ ہراسانی کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ایک تاریخی فیصلہ دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے اپنے فیصلے میں ایک اہم نکتہ اٹھایا: ہراسانی کے خلاف شکایت درج کرانے کے لیے خواتین کو زبردست ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمارا معاشرہ ہمیشہ نظر انداز کرتا ہے۔ اکثر خواتین ہراسانی کے خلاف آواز بلند نہیں کرتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان پر ہی الزام لگایا جائے گا، ان کے کردار پر سوال اٹھایا جائے گا، اور انہیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی ادارے میں خواتین کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہو، اور نہ ہی یہ آخری ہوگا۔ پاکستان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، ہراسانی اور جنسی استحصال کے واقعات عام ہیں، لیکن زیادہ تر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ وجہ؟ معاشرتی دباؤ، بدنامی کا خوف، اور انصاف کے نظام پر عدم اعتماد۔ ہمارا معاشرہ ہراسانی کے متاثرین کو تحفظ دینے کے بجائے انہیں مورد الزام ٹھہرانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ اگر کوئی عورت ہراسانی کے خلاف شکایت درج کراتی ہے، تو فوراً سوال اٹھایا جاتا ہے: “یہ شکایت اب کیوں کی؟” “پہلے کیوں نہیں بولی؟” “ضرور اس کی بھی کوئی غلطی ہو گی!” یہی رویہ خواتین کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیتا ہے، اور یہی خاموشی ہراسان کرنے والوں کے حوصلے بڑھاتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ ہراسانی کی شکایت میں تاخیر کا مطلب یہ نہیں کہ الزام جھوٹا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ متاثرہ خاتون کو بولنے میں وقت لگا کیونکہ اسے خوف تھا کہ شاید اسے سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔دفاتر میں خواتین کو صرف اپنی نوکری پر ہی نہیں، بلکہ اپنی عزت، وقار اور ذہنی سکون پر بھی سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ کئی خواتین روزانہ ایسے جملے، اشارے اور حرکات کا سامنا کرتی ہیں جو انہیں شدید ذہنی دباؤ میں ڈال دیتے ہیں۔ اور بدترین بات یہ ہے کہ زیادہ تر دفاتر میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ جنسی ہراسانی صرف جسمانی حملے تک محدود نہیں ہوتی۔ نازیبا پیغامات، نامناسب تبصرے، اور پیشہ ورانہ معاملات میں ذاتی مفادات کے لیے خواتین کو بلیک میل کرنا بھی ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔ قصور کے عدالتی اہلکار کے خلاف الزامات بھی اسی نوعیت کے تھے۔ وہ اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف خواتین کو ہراساں کر رہا تھا بلکہ عدالتی معاملات میں اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ عدالت نے بجا طور پر قرار دیا کہ ایسے افراد کو سخت سزا دی جانی چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف خواتین کے لیے زہر قاتل ہیں بلکہ پورے عدالتی نظام کو بھی بدنام کرتے ہیں۔پاکستان میں جنسی ہراسانی کے خلاف قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد کمزور ہے۔ “تحفظِ خواتین ایکٹ 2010کے تحت خواتین کو دفاتر میں ہراسانی سے بچانے کے لیے قواعد و ضوابط موجود ہیں، لیکن مسئلہ ان قوانین کے مؤثر نفاذ کا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ بیشتر اداروں میں “اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں” صرف نام کی بنی ہوتی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہراسانی کی شکایات کرنے والی خواتین کو خود ہی نوکری چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، جبکہ مجرم باعزت عہدوں پر برقرار رہتے ہیں؟ اس کا سبب وہی معاشرتی سوچ ہے جو ہمیشہ مظلوم کو خاموش کرانے کی کوشش کرتی ہے اور ظالم کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔یہ خیال کہ جنسی ہراسانی صرف خواتین کا مسئلہ ہے، بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ایک خاتون کو ہراساں کیا جاتا ہے، تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑتے ہیں۔ خواتین کسی بھی ملک کی معیشت اور سماجی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر انہیں دفاتر میں محفوظ ماحول فراہم نہ کیا جائے، تو وہ معاشی ترقی میں اپنا حصہ کیسے ڈالیں گی؟ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے بالکل درست کہا کہ اگر خواتین کو محفوظ ماحول دیا جائے تو ان کی خود اعتمادی اور عملی شمولیت میں اضافہ ہوگا، جو مجموعی طور پر ملک کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں خواتین کو خوف کے بغیر کام کرنے کا موقع نہ ملے، وہ کبھی بھی ترقی کی راہ پر نہیں جا سکتا۔جنسی ہراسانی کے خاتمے کے لیے محض قوانین کافی نہیں، بلکہ ایک سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں وہ سوچ بدلنی ہوگی جو ہراسانی کو “معمولی بات” سمجھتی ہے۔ ہمیں دفاتر، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر خواتین کے لیے ایسے نظام بنانے ہوں گے جہاں وہ بلا خوف و خطر اپنی شکایات درج کرا سکیں۔ دفاتر میں سخت اینٹی ہراسمنٹ پالیسیوں کا نفاذ ہونا چاہیے، متاثرہ خواتین کو تحفظ دیا جانا چاہیے، معاشرتی سوچ میں تبدیلی آنی چاہیے، آن لائن ہراسانی کے خلاف سخت قوانین بننے چاہییں، اور ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیے۔قصور کے عدالتی اہلکار کے خلاف کارروائی ایک مثبت پیش رفت ہے، مگر یہ تبھی مؤثر ہوگی جب ایسے فیصلے تسلسل سے آتے رہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں، اور معاشرے کو چاہیے کہ وہ ان کی حمایت کرے، نہ کہ انہیں خاموش کرانے کی کوشش کرے۔ جنسی ہراسانی ایک حقیقت ہے، مگر خاموشی اس کا حل نہیں۔ اگر ہمیں ایک محفوظ اور مہذب معاشرہ چاہیے، تو ہمیں ہر سطح پر اس برائی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ ورنہ، ہر دفتر، ہر گلی، اور ہر سڑک ایک ایسا میدان بن جائے گا جہاں خواتین کے لیے عزت سے کام کرنا اور جینا محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

معاشی استحکام یا قرضوں کا جال؟

پاکستان کی معیشت ایک بار پھر عالمی مالیاتی اداروں اور درجہ بندی کرنے والی ایجنسیوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ تازہ ترین رپورٹ میں فِچ ریٹنگز نے تسلیم کیا ہے کہ ملک نے معاشی استحکام کی بحالی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کی سمت میں پیش رفت کی ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی کے مطابق، رواں مالی سال 2024-25 میں پاکستان کی معیشت میں 3 فیصد ترقی متوقع ہے، جو گزشتہ سالوں کے مقابلے میں کسی حد تک بہتر اشارہ ہے۔ تاہم، اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ بہتری حقیقی معاشی ترقی کی علامت ہے، یا پھر یہ صرف قرضوں اور بیرونی امداد کی بیساکھیوں پر کھڑی ایک عارضی خوش فہمی ہے؟پاکستان کی معاشی بہتری کو فِچ ریٹنگز نے “ساختی اصلاحات” کے ساتھ مشروط قرار دیا ہے۔ یعنی اگر حکومت مشکل مگر ضروری اصلاحات نہیں کرتی، تو یہ معاشی استحکام زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس نے پاکستانی معیشت کو عشروں سے ایک دائرے میں قید کر رکھا ہے— جب بھی حالات بگڑتے ہیں، حکومت آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی طرف دیکھنے لگتی ہے، وقتی بیل آؤٹ پیکج آتے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر کچھ عرصے کے لیے سنبھل جاتے ہیں، اور پھر وہی پرانی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں، جو ملک کو دوبارہ بحران میں دھکیل دیتی ہیں۔فِچ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کو “خارجی مالی وسائل کا حصول” ایک مسلسل چیلنج رہے گا، کیونکہ ملک کے قرضوں کی بڑی اقساط جلد ہی میچور ہونے والی ہیں، اور قرض دینے والے ممالک پہلے ہی بھاری رقم فراہم کر چکے ہیں۔ پاکستان نے مالی سال 2024-25 میں عالمی مالیاتی اداروں سے تقریباً 6 ارب ڈالر کی فنانسنگ کا تخمینہ لگایا ہے، مگر اس میں سے 4 ارب ڈالر پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص ہوں گے۔ یعنی، جو رقم آئی بھی تو وہ قرض اتارنے میں چلی جائے گی، نہ کہ کسی ترقیاتی منصوبے میں۔اس کے ساتھ ساتھ، حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تانبے کی کانوں میں حکومتی حصہ فروخت کرنے اور موخر ادائیگیوں پر تیل کی خریداری جیسے معاہدوں پر بات چیت کی ہے۔ یہ تمام اقدامات بظاہر معاشی بہتری کے لیے کیے جا رہے ہیں، مگر درحقیقت یہ ملک کو مزید معاشی انحصار کی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہیں۔ ہر بار جب حکومت کسی سرمایہ کاری یا بیل آؤٹ پیکج کی خبر دیتی ہے، تو عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ معیشت مضبوط ہو رہی ہے، حالانکہ اصل میں یہ کسی اور قرضے کا جال بن رہا ہوتا ہے، جس کی قیمت عام شہریوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔فِچ کے مطابق، پاکستان میں سخت مالیاتی پالیسیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئی ہے، اور جنوری 2025 میں افراطِ زر صرف 2 فیصد تک رہ گیا ہے، جو گزشتہ مالی سال میں 24 فیصد کے قریب تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ کو کم کر کے 12 فیصد کر دیا ہے، جو کہ سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا عام شہری کو اس کمی کا کوئی فائدہ پہنچا؟ملک میں خوراک، بجلی، گیس، اور روزمرہ ضروریات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ لوگ افراطِ زر کے گراف” میں کمی کے بجائے دکانوں پر اشیاء کی قیمتوں کو دیکھ رہے ہیں، جہاں صورتِ حال اب بھی جوں کی توں ہے۔ فِچ کہتا ہے کہ پاکستان میں بیرونی استحکام بہتر ہوا ہے، ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہوا ہے، اور زرعی برآمدات نے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس “بہتری” سے کوئی مقامی صنعت یا عام مزدور مستفید ہوا؟زرمبادلہ کے ذخائر کی بات کی جائے تو فِچ نے بتایا ہے کہ پاکستان کے سرکاری ذخائر 2024 کے آخر تک 18.3 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، جو تین ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی رپورٹ یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ پاکستان کے 22 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے مالی سال 2025 میں میچور ہو رہے ہیں، جن میں سے 13 ارب ڈالر دوطرفہ قرضوں پر مشتمل ہیں، جنہیں رول اوور کرنے کے لیے پاکستان کو ان ممالک کے رحم و کرم پر رہنا ہوگا۔سعودی عرب نے 3 ارب ڈالر کا قرض دسمبر میں دوبارہ دیا، اور متحدہ عرب امارات نے 2 ارب ڈالر کا قرض جنوری میں ری شیڈول کر دیا۔ یہ سن کر شاید حکومتی وزراء اور مشیر جشن منائیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک خطرناک معاشی رویہ ہے، جہاں ہر قرض کو اگلے قرض سے پورا کرنے کی عادت پختہ ہو چکی ہے۔ یہ نہ تو معاشی استحکام ہے اور نہ ہی ترقی، بلکہ ایک مسلسل قرضوں کی معیشت ہے، جس میں اصل معیشت کی بہتری کہیں نظر نہیں آتی۔حکومت نے ورلڈ بینک کے ساتھ 10 سالہ 20 ارب ڈالر کے منصوبے کا معاہدہ کیا ہے، مگر اس میں بھی زیادہ تر رقم پہلے سے موجود قرضوں کی تجدید اور جاری منصوبوں کے لیے مختص ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی نئی ترقیاتی حکمت عملی نظر نہیں آتی، بلکہ پرانے قرضوں کو ایک نئے پیکج میں لپیٹ کر عوام کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔یہ تمام عوامل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت ابھی تک بیرونی امداد کے سہارے کھڑی ہے۔ اگر آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے نئی شرائط عائد کریں تو پاکستان کو ان پر عمل کرنا ہی ہوگا، کیونکہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ان قرضوں کے بغیر ترقی کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے؟ کب تک ہم اپنی معیشت کو بین الاقوامی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑیں گے؟ کب تک ہم ہر بحران کے بعد ایک نیا بیل آؤٹ پیکج مانگیں گے؟ کیا کبھی کوئی حکومت طویل مدتی پالیسی بنا سکے گی جو برآمدات، مقامی صنعتوں اور حقیقی اقتصادی ترقی پر مبنی ہو؟معاشی ماہرین بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو اپنے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت بڑھانے کے لیے اندرونی وسائل پر توجہ دینا ہوگی۔ صنعتکاری، زراعت میں جدت، برآمدات میں تنوع، اور سرمایہ کار دوست پالیسیاں ہی وہ عوامل ہیں جو کسی بھی ملک کو معاشی طور پر خودمختار بنا سکتے ہیں۔ مگر افسوس، ہماری حکومتیں ہمیشہ “آسان راستہ” چنتی ہیں— قرض لیں، شرائط مانیں، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالیں، اور جب نیا بحران آئے، تو ایک اور قرض لے کر خوشیاں منائیں!فِچ کی رپورٹ میں کچھ مثبت پہلو ضرور ہیں، مگر یہ سب بیرونی مدد کی بنیاد پر قائم ہیں۔ جب تک پاکستان اپنی اصل معیشت کو مضبوط نہیں کرتا اور قرضوں پر انحصار کم نہیں کرتا، یہ “استحکام” عارضی اور دھوکہ دینے والا ہی رہے گا۔ عوام کو گراف اور درجہ بندیوں کی نہیں، بلکہ حقیقی ریلیف، بہتر ملازمتوں، کم مہنگائی، اور مستحکم معیشت کی ضرورت ہے۔اگر یہی روش برقرار رہی، تو اگلے سال ہم پھر کسی نئی فِچ رپورٹ میں دیکھیں گے کہ “پاکستان نے معاشی استحکام کی سمت میں پیش رفت کی ہے، مگر چیلنجز برقرار ہیں— اور پھر ایک اور قرض، ایک اور بیل آؤٹ، اور ایک اور سرکاری دعویٰ۔ یہی وہ دائرہ ہے جس سے نکلنا پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے!

شیئر کریں

:مزید خبریں