تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری
صوفی برکت علی مجھے اپنے گھر لے گئے جو کچی مٹی سے بنا ہوا تھا، گھر کے احاطہ میں پرانا بوہڑ کا درخت تھا۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ میں اسی جگہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہوں، درخت کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بجلی کے غالباً زیرو کے بلب بھی لگے ہوئے تھے اس کے بعد صوفی صاحب مجھے طبیہ کالج لے گئے اور وہاں طلبہ سے ملوایا جو کہ وہاں زیر تعلیم تھے اس کے بعد قرآن گھر کے نام سے ایک کشادہ حال میں لے گئے یہاں پر قرآن شریف کے لاتعداد پرانے نسخے بھی موجود تھے۔ قرآن گھر میں بہت اچھی خوشبو بھی آ رہی تھی جسے میں آج تک نہیں بھول سکا اور ایسی خوشبو پھر کبھی کہیں بھی مجھے نہیں ملی۔ وہاں دیوار پر اللہ تعالیٰ اور نبی کریمؐ کے 999 نام بھی آویزاں تھے۔ حالانکہ میں نے پڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ اور نبی پاکؐ کے 99 نام ہیں۔ یہ میرے لئے بلکل نئی بات تھی اسی دوران مغرب کا وقت ہو گیا۔ مغرب کی نماز کے بعد صوفی صاحب نے کھانا منگوایا اور میرے ساتھ بیٹھ کر تناول فرمایا۔ کھانے میں دال روٹی تھی۔ دال بھی ایسی کہ جس میں گھی کا ذرہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ جب میں نے وہ دال روٹی کھائی تو بہت ہی مزیدار تھی۔ صوفی صاحب نے چند لقمے ہی لئے تھے۔ صوفی صاحب کا جسم بالکل سمارٹ تھا جس پر چربی نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے کہیں بعد میں پڑھا کہ عبدالحکیم میں بغداد شریف میں جو ولی اللہ مدفون ہیں ان کی دوبارہ تدفین کافی عرصہ بعد یہاں کی گئی تھی۔ پہلے دریائے راوی کے پار جھنگ میں ان کا مزار تھا۔ لوگ بتاتے تھے کہ جب انہیں قبر سے نکالا گیا تو ان کی لاش بالکل ایسی حالت میں تھی جیسے ابھی ابھی دفنایا گیا ہو۔ میں نے دوران ملازمت کئی بار قبر کشائی بھی کرائی تھی۔ میگٹ کیڑے دو یا تین ماہ میں انسانی جسم کا گوشت کھا جاتے ہیں صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ بچ جاتا ہے مگر جس شخص کے جسم پر چربی ہی نہ ہو‘ میگٹ کیڑے کیا کھائیں گے۔ بحرحال میں اس کی کوئی سائنسی توجہہ نہیں کر سکتا لیکن ایک بات واضح ہے کہ جو شخص بھی کم سے کم خوراک پہ گزارہ کرے گا اس کے جسم پر چربی نہیں ہو گی۔ صوفی صاحب کی خوراک نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا کیونکہ ہمارے مولوی صاحبان‘ علماء کرام اور پیر صاحبان کی خوش خوراکی کا میں عینی شاہد ہوں جو کسی کی دعوت کے کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ پتہ نہیں پھر ملے نہ ملے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ دوست بتاتے ہیں کہ ایک مولوی صاحب نے قل خوانی پر حضور نبی کریمؐ کی سادہ خوراک کے بارے میں تقریر فرمائی تو میزبان نے سوچا کہ مولوی صاحب سنت نبوی ؐ کے بہت بڑے پیروکار ہیں اس نے گھر میں فوراً سادہ کھانا بنوایا جب وہ کھانا مولوی صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو مولوی صاحب کافی پریشان ہوئے تو میزبان نے کہا کہ مولوی صاحب آپ نے حضور پاکؐ کی سادہ غذا کے بارے میں جو تقریر فرمائی ہے اس کے بعد آپ کے لئے یہ کھانا منگوایا گیا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ کہاں اللہ کے نبیؐ اور کہاں میں۔ میرے لئے وہی کھانا لائو جو تم نے پہلے تیار کروایا تھا۔ اسی طرح میں اور بھی پیروں اور گدی نشینوں کو کھاتا دیکھ چکا تھا اس زمانے میں گوشت اور حلوہ اُن کی پسندیدہ خوراک ہوا کرتی تھی۔ صوفی برکت صاحب کی شخصیت نے مجھے صوفیاء کرام بارے اپنے ’’روشن خیالات‘‘ کے باوجود الجھا دیا اور سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ’’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘‘۔ پھر علامہ اقبال کا شعر بھی یاد آیا کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
گرگس کا جہاں اور شاہین کا جہاں اور
مجھے افتخار فخر چھاوڑی مرحوم نے این ایس ایف کی ایک میٹنگ کا واقعہ سنایا تھا کہ این ایس ایف ( نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن) کے ایک رکن جو کہ حافظ قرآن بھی تھے، نے اللہ اور اس کے رسولؐ پاک کے حوالے سے قابل اعتراض گفتگو شروع کی تو دوسرے ممبران نے اسے سختی منع کی۔ اس نے کہا کہ میں مدرسوں میں پڑھا ہوں میرا باپ ایک غریب آدمی تھا میرے ساتھ جو کچھ مدرسہ کے مولوی صاحبان نے کیا ہے آپ کے ساتھ ہوتا تو میں دیکھتا کہ تم کیسے اللہ کے دین بارے آجکل کے حالات میں میرے خیالات سے اختلاف کرتے۔ خیر میں نے یہ واقعہ سن کر ایک مولوی صاحب جو کہ میرے ماموں کے جاننے والے تھے، سے ملاقات کی اور اس بارے دریافت کیا اور اس سے استفسار کیا کہ آپ سچ سچ بتائیں تو جو اس شخص کے بتائے واقعات کی مذکورہ مولوی صاحب نے نہ صرف تصدیق کی بلکہ جو اذیت ناک تصویر کشی کی وہ تو ضبط تحریر میں بھی لانے کے قابل نہیں۔
نماز عشاء کے بعد صوفی صاحب نے چائے منگوائی اور میرے ساتھ ہی نوش فرمائی۔ چائے میں دودھ بالکل تھوڑا سا تھا اس کے باوجود چائے بھی اپنی خوشبو اور ذائقے کے لحاظ سے منفرد تھی۔ چائے کے بعد صوفی صاحب نے فرمایا صبح ملاقات ہو گی اگر تم چاہو تو یا حی یا قیوم کا ورد کر سکتے ہو۔ میرے لئے یہ سب کچھ ایک خواب کی طرح تھا ۔ میں تو اپنے مقصد کیلئے یہاں آیا تھا مگر صوفی صاحب کے طرز عمل‘ شفقت اور محبت نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ملا ازم اور خانقاہی نظام کے بارے میں جو کچھ بھی میں جانتا تھا اس حوالے سے یہ میرے لئے یہ سب کچھ حیران کن ہی نہ تھا بلکہ پریشان کن بھی تھا۔ خیر میں رات کو سونے سے پہلے اپنے آپ سے الجھ رہا تھا کہ اب تک جو میرے مشاہدہ میں آیا تھا او جو ترقی پسندی کی وجہ سے مذہب کے بارے میں میرے ذہن میں تھا وہ درست ہے یا جو کچھ آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا، وہ درست ہے؟ اسی کشمکش میں تھا کہ میں تو ایک غرض مند کی طرح محض میڈیکل کالج میں داخلے کیلئے صوفی صاحب کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھانے آیا تھا مگر یہاں تو ایک نئی دنیا سے آشنا ہو گیا۔ پھر مجھے یاد آیا مسلمانوں میں کئی فرقے صوفی ازم کو نہیں مانتے بلکہ ان کا استدلال ہے کہ اس کا کوئی طریقہ بتائو کہ صوفی کیسے بنا جا سکتا ہے۔ اسی طرح لبرل‘ روشن خیال اور ترقی پسند صوفی ازم کو نہیں مانتے مگر میں جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اس سے کیسے انکار کرتا۔ خیر میں نے یاحی یا قیوم کا ورد شروع کیا اور مجھے نیند آ گئی اور صبح فجر سے پہلے میری آنکھ کھل گئی تو صوفی صاحب مسجد میں موجود تھے اور پوچھا ظفر تمہاری رات کیسے گزری میں نے صرف اتنا کہا جی اچھی نیند آئی تو صوفی صاحب مسکرا دیئے۔ ( جاری ہے )