روداد زندگی: تحریر ڈاکٹر ظفر چوہدری
مجھے صوفی صاحب نے اپنے پاس بلا لیا اور بھی چند لوگ ہی مجلس میں موجود تھے۔ ظہر کا بھی وقت نہیں ہوا تھا۔ میں اپنا مدعا بیان کیا کہ اگر آپ گورنر پنجاب کو میری سفارش فرما دیں تو مجھے گورنر کے مخصوص کوٹے پر میڈیکل کالج میں داخلہ مل جائے گا۔ میری بات سن کر صوفی صاحب خاموش ہوگئے میں بے چینی سے جواب کا انتظار کرنے لگا مگر پھر کسی اور بندے نے کوئی بات کی تو صوفی صاحب ان کی طر ف متوجہ ہوگئے مجھے میرے ایک جاننے والے نے بتایا تھا کہ ہائی کورٹ کے جسٹس چوہدری صدیق صاحب صوفی صاحب کا خاص مرید ہیں۔ بعد میں میرے جماعت اول سے لیکر دسویں جماعت تک ہم جماعت رانا اکرم صاحب نے بتایا کہ چوہدری صدیق صاحب ان کی والدہ کے قریبی عزیز تھے۔ جسٹس چوہدری صدیق صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ اپنی وکالت کے ابتدائی زمانہ میں بے ترقی پسند لبرل بلکہ مارکسٹ تھے۔ کچھ لوگوں انہیں بتایا کہ وہ لادینی کے قریب ہو گئے تھے مگر صوفی برکت صاحب کی صحبت نے انہیں پکا اور سچا مومن بنا دیا۔ اس بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے خیر کچھ دیر بعد افضل چیمہ صاحب اور میاں شاہ محمد بھی آ گئے جو گزشتہ روز مجھے وہیں پر ملے تھے ۔ افضل چیمہ صاحب کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ صوفی صاحب کے بڑے عقیدت تمند تھے۔ چیمہ صاحب سرگودھا کی درمیانہ درجے کی زمیندار فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ 1970 کے الیکشن سے پہلے صوفی صاحب نے چیمہ صاحب کو کہا کہ تم ایم این اے بنو ہوگے وہ پیپلز پارٹی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو گئے جس کا چیمہ صاحب کو بھی یقین نہیں تھا۔پھر صوفی صاحب نے فرمایا کہ تم وزیر بنو گئے اور خلاف توقع وہ وزیر بن گئے یہ باتیں مجھے وہاں پر لوگوں سے معلوم ہوئیں۔ صوفی صاحب نے افضل چیمہ صاحب سے کہا کہ ظفر میرے بھائی جیسے دوست صوبیدار اسلم صاحب کا بیٹا ہے۔ آپ صوبیدار صاحب کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔ افضل چیمہ صاحب نے عرض کی صوفی صاحب میرے پاس لیبر کی وزارت ہے میں انہیں لیبر انسپکٹر بھرتی کر سکتا ہوں اور انہوں نے لیٹر بھی بنا کر دے دیا۔ نماز ظہر کے بعد مجھے صوفی صاحب نے کہا کہ یہ خط اپنے والد صاحب کو دے دینا۔ وہ چاہیں تو ملازمت کرلیں اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تم اللہ کے فضل سے ضرور ڈاکٹر بنو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے میرے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا ابھی تک تو ٹھیک ہو اور اپنےآپ کو مزید ٹھیک کرو میں نے صوفی صاحب سے اجازت لیکر واپس روانہ ہو گیا ۔ صوفی صاحب کے جواب سےمجھے ظاہر مایوسی ہوئی اور میری مراد پوری نہ ہوسکی تھی اور روشن خیالی میں میرے دل میں مختلف خیالات آنے لگے مگر پھر مجھے والد صاحب کی ایک پنچابی کہاوت یاد آئی۔ پیر پتر نہیں دے گا نے بیوی نے نہیں کھو لئے گا( یعنی پیر اگر بیٹا نہیں دے گا تو بیوی تو نہیں چھین لے گا) صوفی صاحب کی صحبت میں جس قلبی واردات سے میں گزرا تھا اور اپنی ’’روشن خیالی‘‘ کے درمیان عجیب کشمش محسوس کر رہا تھا اور پھر میں واپس لاہو ر پہنچ گیا چند دن بعد میں اپنے گائوں گیا تو والد صاحب کو صوفی کا بھیجا ہوا خط جو افضل چیمہ صاحب نے لکھا تھا دیا اور صوفی صاحب سے ملاقات کی روداد سنائی۔ والد صاحب مسکرا کر رہے گے میں نے پوچھا آپ ملازمت کریں گے تو انہوں نے کہا بیٹا بہت کر لی ہے ۔ آپ ملازمت کرنےکو دل نہیں کرتا مجھے ریٹائرمنٹ پر عراق کی کمپنی نے بھی ملازمت کی آفر کی تھی مگر میں نہیں گیا اچھی ملازمت تھی والد صاحب انجینئرنگ کور سے ریٹائر ہوئے تھے۔ان کی تعلیم ڈپلومہ کے برابر سمجھی جاتی تھی میں نے والد صاحب سے کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا جب میں نے کہا آبا جی اگر صوفی سفارش کردیتے تو میرا کام ہو جاتا۔ والد صاحب بھی درویش منش انسان تھے انہوں نے صرف اتنا ہی کہا تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ جو بہتر سمجھتا ہے وہی ہوتا ہے۔ میرے لیے حیران کن تھا کہ والد صاحب بالکل بھی پریشان نہیں تھے ایسے لگتا تھا کہ بالکل مطمئن ہیں۔ میں واپس سائنس کالج لاہور چلا گیا۔ پنجاب میں میڈیکل کے داخلے ہو چکے تھے۔ میں بی ایس سی کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ تقریباً داخلے ہونے کے 6 ماہ بعد مجھے والد صاحب کا خط ملا تو تمہارا سندھ میں چانڈ کا میڈیکل مید داخلہ ہوگیا۔ فوراً گھر پہنچو ۔ میں سائنس کالج سے فارغ ہو کر گھر پہنچا تو والد صاحب نے بتایا کہ مجھے تمہارے داخلے کا پورا یقین تھا اسی لیے میں تمہارے داخلہ کیلئے 4 ہزار روپے علیحدہ رکھے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا آپ کو اس قدر کیوں یقین تھا والد صاحب نے کہا بیٹا ایک تو میرا یقین ہے کہ صوفی برکت صاحب کبھی غلط بات نہیں کرتے ۔ دوسری بات یہ ہے وہ جو خط فضل چیمہ صاحب والد نے دیا تھا میں نے متعلقہ افسر سے بات کی تھی تو اس نے کہا جب آپ چاہیں ملازمت شروع کر سکتے ہیں اور وہ آفسر حیران تھا کہ اس ملازمت کیلئے بڑے لوگ کوشش کرتے ہیں مگر آپ واحد شخص ہیں جس کیلئے وزیر صاحب نے براہ راست حکم دیا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ صوفی صاحب اتنی اہم ملازمت مجھے دلا سکتے ہیں تو تیری سفارش بھی کرسکتے تھے مگر انہوں نے اللہ سے تیری سفارش کی بجائے گورنر سے سفارش کروانے کہ میرے والد صاحب بہت کم پڑھے ہوئے تھے مگر ان کی باتوں نے میری ’’روشن خیالی” پے کئی سوال اٹھا دئیے تھے۔ میرا صوفی ازم کے بارے میں واجبی سا علم ہے مگر صوفی برکت صاحب کے ساتھ گزرے وقت کی بنیاد پر اتنا ہی سمجھ سکا ہوں کہ ایک صوفی اپنی ذات کی نفی، رواداری ، حسن اخلاقی اور انسان دوستی کا دوسرا نام ہے۔ میں ایک اچھا مسلمان تو نہ بن سکا مگر میں جو کچھ اپنے عزیز اقارب اور دوستوں اور جاننے والوں کیلئے کر سکتا تھا۔ بغیر کسی لالچ کے کیا ۔ ایک بات کا افسوس زندگی بھر رہے گا کہ صوفی صاحب سے دوبارہ ملاقات نہ کرسکا۔ 3سال پہلے اعجاز شفیع ڈوگر صاحب کے ہمراہ صوفی برکت صاحب کے مزار پر حاضری دی تھی۔ صوفی صاحب نے دارلسلام سے سمندری روڈ پر ہجرت کی تھی وہاں پر آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔