آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

صوفی برکت علی کی برکات

(روداد زندگی)تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری

میں جب سلار والا دارالاحسان پہنچا تو ظہر اور عصر کے درمیان وقت تھا۔ صوفی برکت علی صاحب اس وقت مسجد کے صحن میں تشریف فرما تھے۔ تقریباً دو یا اڑھائی سو کے قریب افراد بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی صوفی صاحب نے فرمایا کہ 5666 دا پتر آ گیا جے ( 5666 کا بیٹا آ گیا ہے )۔ مجھے صوفی صاحب نے گلے سے لگایا تو میں نے کہا کہ میں صوبیدار اسلم صاحب کا بیٹا ہوں تو انہوں نے فرمایا بیٹا 5666 تمہارے والد صاحب ہی کا پیٹی نمبر ہے۔ تو مجھے بات سمجھ آ گئی۔ دوسرے شرکائے محفل کے ساتھ میں بھی بیٹھ گیا۔ اس وقت دوسرے لوگوں کے علاوہ افضل چیمہ ( جو کہ اس وقت بھٹو صاحب کی کابینہ میں وزیر صحت اور لیبر تھے ) میاں شاہ محمد جو کہ وزیر مملکت برائے ریلوے تھے‘ موجود تھے۔ صوفی صاحب کے قریب ٹیلی فون اور ٹائپ رائٹر بھی رکھا ہوا تھا ۔ لوگ اپنا مسئلہ بتاتے تھے صوفی صاحب انہیں سفارشی رقعہ یا ہدایت فرما دیتے تھے۔ کسی شخص نے جب قتل کے الزام میں اپنے کسی عزیز کی سفارش کیلئے عرض کی تو صوفی صاحب نے فرمایا کہ میں کسی قاتل کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کرتا۔ پھر نماز عصر کا وقت ہو گیا اور صوفی صاحب کی امامت میں وہاں موجود لوگوں نے نماز ادا کی جن میں میں بھی شامل تھا۔ مسجد بہت خوبصورت تھی بڑی آرام دہ صفیں بچھی ہوئی تھیں مگر صوفی صاحب نے بغیر کسی صف کے زمین پر امامت کی‘ انہوں نے ایک کھدر کی چادر سے پورا جسم ڈھانپا ہوا تھا۔ یہ میرے لئے نیا تجربہ تھا ہمارا تو چھوٹی سی مسجد کا امام بھی اپنے لئے اچھے جائے نماز کا انتخاب کرتا ہے۔ چار فرض صوفی صاحب نے چند منٹوں میں پڑھا دیئے اور مختصر دعا کی‘ مجھے اقبال کے شعر کا مصرع یاد آیا
کہا مجاہد ترکی نے مجھ سے بعد نماز
طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمہارے امام
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ صوفی صاحب نے پہچان لیا تھا کہ میں صوبیدار اسلم کا بیٹا ہوں تو میری ’’روشن خیالی‘‘ نے مجھے سمجھایا کہ میری شکل والد صاحب سے ملتی ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں مگر نماز عصر کی ادائیگی میں جو تجربہ ہوا اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کیونکہ میرا واسطہ اس وقت تک جعلی پیروں یا زعم عظمت کا شکار اماموں سے پڑا تھا۔ ایک اور واقعہ مجھے یاد آ گیا میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا کہ میرے ایک جاننے والے نے بتایا کہ ایک بڑی گدی کے گدی نشین کے فرزند ہمارے قصبہ روہیلانوالی میں آئے ہوئے ہیں تم بھی میرے ساتھ چلو۔ جب میں وہاں پہنچا تو ایک نوجوان لوگوں کے مسائل اور بیماریوں کے تعویذ لکھ کر دے رہا تھا۔ جب وہ جانے لگا تو مریدوں نے درخواست کی‘ شام کا کھانا کھانے کے بعد تشریف لے جائیں تو اس نوجوان نے ہا کہ میری والدہ نشتر ہسپتال میں داخل ہے۔ مجھے والدہ صاحب سے ملنے جانا ہے تو میں نے عرض کیا کہ جناب آپ تو اپنے مریدوں کی بیماریوں کے علاج کیلئے تعویز دے رہے ہیں آپ کی اپنی والدہ نشتر ہسپتال میں زیر علاج ہیں تو اس پر گدی نشین کے فرزند ارجمند نے فرمایا کہ بیماریاں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک روحانی اور وسری جسمانی‘ ہم روحانی بیماریوں کیلئے تعویز دیتے ہیں جسمانی بیماریوں کا علاج حکیم یا ڈاکٹر ہی کرتے ہیں۔ میرے سوال پر ظاہر ہے موصوف کو ناراضگی ہونی چاہیے تھی تاہم اس نے بڑے تحمل سے جواب دیا مگر وہاں موجود مریدین کو میرا سوال بڑا ناگوار گزرا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کہا کہ زیادہ تر مریدین غریب اور ان پڑھ طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس زمانے میں جعلی پیر یا گدی نشین اور ان کی اولادیں بھی اپنا حلیہ اور وضع قطعہ پیروں جیسا بنا کر رکھتی ہیں۔ جب سے شاہ محمود قریشی بہاء الدین زکریا کے گدی نشین ہوئے ہیں اب اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں رہے گی اور خانقاہت کی دکانداری بھی چلتی رہے گی۔ میں پھر بھٹک جاتا ہوں۔ نماز عصر کے بعد صوفی برکت صاحب نے مجھے دارالاحسان کو دکھایا جس میں طبیہ کالج‘ قرآن گھر اور رہائش گاہ شامل تھی جس میں ایک پرانا بوہڑ کا درخت بھی تھا جس کے نیچے صوفی صاحب عبادت کیا کرتے تھے۔ اس وقت صوفی صاحب کے ساتھ صوفی صاحب کا بیٹا تھا۔ وہاں پر موجود دوسرے صوفی صاحب منعقدین مجھے حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ صوفی صاحب کی محبت اور شفقت پر شرمندہ ہونے کے علاوہ مجھ پر عجیب کیفیت طارق تھی جس کا میں لفظوں میں اظہار نہیں کر سکتا۔ ( جاری ہے )

شیئر کریں

:مزید خبریں