پنجاب میں سورج چمک رہا ہے، درختوں پر ہلکی ہلکی بہار آ رہی ہے، اور لاہور میں حکومت کے اشتہارات پھر سے فضا میں اُڑ رہے ہیں کہ “صاف اور سبز پنجاب” کا مشن کامیاب ہو چکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر اشتہارات میں ترقی سے ناپا جائے، تو لاہور واقعی پیرس بن چکا ہوتا۔ مگر افسوس! حقیقت میں لاہور کو پیرس کی گندگی اور آلودگی تو دے دی گئی، لیکن وہاں جیسی ترقی دینے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی گئی۔
پنجاب کی “ماحولیاتی کامیابیوں” پر روشنی ڈالنے کے لیے حکومت کے پاس بڑے بڑے اعداد و شمار ہیں: “اتنی انڈسٹریز بند کر دیں، اتنے جرمانے لگا دیے، اتنے لوگ پکڑ لیے!” لیکن مجال ہے جو کبھی یہ بتایا جائے کہ یہ زہریلی فیکٹریاں لگانے کی اجازت کس نے دی؟ یہ دھواں چھوڑنے والے کارخانے اتنے طاقتور کیوں ہیں؟ اور وہ کون ہے جو ان آلودگی پھیلانے والے ساہوکاروں کو حکومتی گود میں بٹھا کر مراعات دیتا رہا؟
یہ سب کہانی آج کی نہیں، بلکہ جنرل ضیاءالحق کے دور سے شروع ہوئی تھی، جب پنجاب کو ایک ماحولیاتی بم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اُس وقت ملک کو “ترقی” کی راہ پر ڈالنے کے نام پر بغیر کسی منصوبہ بندی کے ایسی صنعتیں لگائی گئیں جنہوں نے دہائیوں تک دھواں اگل کر عوام کی صحت برباد کر دی۔ زرعی زمینیں برباد کر کے فیکٹریوں کے حوالے کی گئیں، جنگلات کو جلا کر کنکریٹ کا قبرستان بنا دیا گیا، اور لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہر آلودگی کے جہنم میں دھکیل دیے گئے۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس آلودگی کے وارث کون ہیں؟ ضیاءالحق تو کب کے جا چکے، مگر ان کی دی ہوئی “صنعتی ترقی” کے جھنڈے کو سب سے زیادہ کس نے اٹھائے رکھا؟ وہی مسلم لیگ (ن)، جو تین دہائیوں سے پنجاب پر راج کر رہی ہے اور جس نے ہمیشہ ان ساہوکاروں کو گلے لگایا جنہوں نے فیکٹریوں میں مزدوروں کے پسینے کو بھی دھواں بنا کر فضا میں چھوڑ دیا۔
لاہور: پیرس کی آلودگی، مگر ترقی کہیں نہیںمسلم لیگ (ن) نے تین بار مرکز میں اور پانچ بار پنجاب میں حکومت کی، اور ہر بار نعرہ لگایا کہ لاہور کو پیرس بنا دیں گے۔ لیکن آج لاہور کو دیکھیں تو واقعی پیرس کی ایک چیز یہاں آ چکی ہے: فضائی آلودگی اور کچرے کے ڈھیر!
یہاں کی فیکٹریاں پیرس سے زیادہ دھواں چھوڑتی ہیں، سڑکیں لندن سے زیادہ ٹریفک جام کا شکار ہیں، اور صاف پانی کی حالت دہلی سے بھی بدتر ہے۔ مگر ترقی؟ وہ صرف اشتہارات میں نظر آتی ہے۔ لاہور کے لوگ دھوئیں میں سانس لیتے ہیں اور خوابوں میں “اورنج لائن” کی شان و شوکت دیکھ کر حکومت کو داد دیتے ہیں، کیونکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ترقی صرف کنکریٹ اور میٹرو بسوں کا نام ہے۔
پچھلی دہائیوں میں لاہور کو بڑے بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹس دیے گئے، مگر کیا حکومت نے کبھی سوچا کہ یہ ترقی صرف کنکریٹ کے پلوں تک محدود رہی، جبکہ شہری سانس لینے کے لیے صاف ہوا کو ترستے رہ گئے؟ آج بھی لاہور کے زیادہ تر علاقوں میں پینے کا صاف پانی ناپید ہے، اور آلودگی کی سطح دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتی ہے۔
ساہوکاروں کی چاندی، عوام کی بربادی
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب حکومت آلودگی کے خلاف اتنی سنجیدہ ہے، تو پھر یہ آلودگی پھیلانے والے کارخانے آج بھی چل کیسے رہے ہیں؟ ان دھواں چھوڑنے والی صنعتوں کو حکومت کی طرف سے اتنی مراعات کیوں دی جا رہی ہیں؟
مسئلہ یہ ہے کہ یہ فیکٹریاں صرف فیکٹریاں نہیں، بلکہ سیاستدانوں کے اے ٹی ایم ہیں۔ یہ وہ ساہوکار ہیں جو ہر الیکشن میں حکومتوں کی جھولی میں کروڑوں روپے ڈالتے ہیں، اور پھر اگلی حکومت انہیں اجازت دیتی ہے کہ وہ فضا کو جتنا چاہیں زہر آلود کریں، مزدوروں کو جتنا چاہیں نچوڑیں، اور حکومتی سبسڈی کے نام پر اربوں روپے کی لوٹ مار کریں۔پنجاب حکومت نے 2023 میں بڑے فخر سے اعلان کیا کہ انہوں نے 1,500 فیکٹریاں بند کر دی ہیں۔ لیکن کیا کسی نے یہ بھی دیکھا کہ انہی کارخانوں میں سے بیشتر چند دن بعد ہی دوبارہ کھل گئے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت نے کچھ دن کے لیے تالا لگا کر تصویریں بنوائیں، اور پھر پس پردہ سب کچھ ویسے ہی چلنے دیا؟
یہ سب مذاق عوام کے ساتھ ہوتا ہے، کیونکہ دھواں چھوڑنے والے یہی ساہوکار ہر دفعہ حکومت کے بڑے منصوبوں میں پارٹنر بن جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پنجاب کی زرعی زمینیں بھی نگل رہے ہیں، جنگلات کو کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں، اور حکومت کے ساتھ مل کر “ترقی” کے نام پر تباہی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
مہارانی کی تقریریں، عوام کا دم گھٹتا حال
اب آتے ہیں پنجاب کی مہارانی، مریم اورنگزیب، کی جانب، جو ہر دوسرے دن کسی نہ کسی پریس کانفرنس میں کھڑے ہو کر ایسے جذباتی تقریریں کرتی ہیں، جیسے ماحولیات کے مسئلے کا حل بس ان کی “چند زور دار لائنوں” میں چھپا ہو!
جب بھی ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ حکومت نے آلودگی کے خلاف کیا کیا، تو ان کا جواب ہوتا ہے:
ہم نے سخت اقدامات اٹھائے، صنعتی یونٹس سیل کیے، جرمانے لگائے، عوام کو آگاہی دی!”
واہ! یہ وہی جواب ہے جو پچھلے کئی سالوں سے دیا جا رہا ہے، مگر زمین پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔
مہارانی صاحبہ ہر بار ماحولیاتی بحران کو حل کرنے کے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں، مگر ان وعدوں کا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو ہر سرکاری اعلان کا ہوتا ہے— یعنی اخباری بیانات اور ٹویٹر پوسٹس کے بعد خاموشی۔
پنجاب کا اصل مسئلہ – نیت کا فقدان:اصل مسئلہ قوانین یا پالیسیاں نہیں، بلکہ نیت کا فقدان ہے۔ پنجاب کے ماحولیاتی بحران کا حل صرف جرمانے لگانے یا وار روم بنانے میں نہیں، بلکہ طاقتور صنعتکاروں اور پراپرٹی مافیا کے خلاف سخت کارروائی میں ہے۔ مگر جب یہی لوگ حکومت کے قریبی ساتھی ہوں، تو پھر کوئی کیسے امید کرے کہ پنجاب واقعی صاف اور سبز” بن جائے گا؟اگر حکومت واقعی ماحولیاتی تحفظ میں سنجیدہ ہوتی، تو ان فیکٹری مالکان، پراپرٹی ٹائیکونز، اور ساہوکاروں پر ہاتھ ڈالتی جو پنجاب کی زمینوں اور فضا کو برباد کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس، یہاں سب سے پہلے انہی کو نوازا جاتا ہے، اور عوام کو زہریلی ہوا میں چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی قسمت کو کوستے رہیں۔تو جب بھی کوئی حکومتی وزیر یا مہارانی صاحبہ کسی نئی مہم کا اعلان کریں، تو ایک لمحے کو سوچیں— کیا یہ واقعی عوام کے لیے ہے؟ یا پھر یہ بھی کسی نئے ساہوکار کو فائدہ پہنچانے کی ایک اور چال ہے؟پنجاب میں اسموگ وقتی طور پر ختم ہو سکتی ہے، مگر اگر حکومت کی پالیسیاں یہی رہیں، تو یقین مانیں، یہ زہریلا دھواں کبھی ختم نہیں ہو گا— نہ فضا سے، اور نہ ہی حکومتی وعدوں سے!
