چند ماہ ’’جہان پاکستان‘‘ کی سیاحی بھی کی مگر آگے صحافت کا راستہ تاریک اور بے روزگاری کی دلدل پھر سے تیار کھڑی تھی۔2001 میں کورونا کے رونا کے دوران بے روزگاری بھی کاٹی اور غریب الوطنی بھی برداشت کی۔ لاہور جا کر بھی دوسری بار’’دنیا‘‘ دیکھی،تیسری بار جمشید بٹ صاحب کی ماتحتی میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے مجھے مین ڈیسک پراپنےساتھ رکھ کر حوصلہ افزائی کی اور لیڈ،سپر لیڈ سمیت اہم خبریں بننے کیلئے دیتے۔لاہورجیسے بڑے شہر،بڑے ادارے میں بڑے بڑے لوگوں کے درمیان بیٹھ کرکام کرنے کااپناہی مزا اورنیاتجربہ تھا مگر گھر سے دوری اور پردیس راس نہ آیا اور میں نے کچھ ہی عرصہ بعد رخت سفر باندھ لیا اور پھر واپس ملتان میں ’’پاکستان‘‘ آکر ’’پارلیمنٹ‘‘ کاچہرہ دیکھ کر ’’قوم‘‘ کا حصہ بن گیا۔
بطور مسلمان دوبارہ جنم یا آواگون کانظریہ ہمارے عقیدے میں شامل نہیں مگر ری بورن (Reborn) ایک اصطلاح ہے، اسے نئی زندگی کا آغاز کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ 16 دسمبر 2022 کی ایک سرد شام تھی، میں لیہ میں اپنے بھانجے کی شادی میں شرکت کیلئے گیا ہوا تھا۔بےروزگاری کا سفر بھی جاری تھا، اسی موقع پر ایک پرانے دوست کی کال آئی کہ روزنامہ قوم میں کام کرنا ہے؟اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں کے مصداق میں نے فوری حامی بھر لی اور شادی سے فارغ ہو کر ملتان آتے ہی دوست کے بتائے ہوئے پتے مہربان کالونی ملتان میں ’’قوم‘‘ کے دفتر پہنچ گیا۔مہربان کالونی میں قسمت مہربان ہوئی اور ڈپٹی ایڈیٹر سید قلب حسن صاحب کے ساتھ ابتدائی بات چیت کے بعد معاملات طے پا گئے اور انہوں نے چیف ایڈیٹر محترم جناب میاں غفار صاحب اور گروپ ایڈیٹر میاں قاسم نواز صاحب سے ملوا دیا۔
یہاں سے میری صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ،روز نامہ قوم نےاِسْمْ با مُسَمّیٰ کی طرح ہجوم سے قوم کے سلوگن پر 2022 سے اشاعت کا اغاز کیا۔ میاں غفار صاحب کی زیر ادارت اور میاں قاسم نواز صاحب کے زیر سایہ اس ادارے نے کام اور اعتماد کی مکمل آزادی دی ۔گروپ ایڈیٹر میاں قاسم نواز صاحب پاکستان کے سینئر صحافی ہیں اور اسلام آباد ،لاہور اور ملتان میں ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں اور سرخیوں کی بنت نے دماغ کے نئے دروازے وا کئے۔ وہ سیدھی سادی مردہ خبرمیں بھی اپنی سرخی سے ایسی جان ڈال دیتے کہ صبح ہنگامہ بپا ہو جاتا اورانتظامیہ کو جاگنے پر مجبور کر دیتے ۔ قاسم نواز صاحب نے صحافت کی خاطر زندگی بھر پردیس کاٹی ،ان کی صحافت اسلام آباد،لاہور اور ملتان کے گرد گھومتی رہی۔ آخر کار انہوں نے بھی اکتوبر 2023 میں ملتان سے رخصت سفر باندھا اور مجھ ناچیز کو چیف نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سونپ کر خود عازم لاہور ہوئے ۔اس کے بعد راقم نے’’ قوم‘‘ میں حتی المقدور جاں فشانی سے کام کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیف ایڈیٹر محترم میاں غفار صاحب نے بندہ ناچیز کو ایڈیٹر کے عہدے پر تفویض کر دیا اور پرنٹ لائن پر نام شائع کرنے کے احکامات صادر کر دیئے ۔یہ اعزاز میری 20 سالہ صحافتی زندگی کا سب سے بڑا ’’قومی‘‘ اعزاز ہے۔
منیجنگ ڈائریکٹر’’ قوم‘‘ نعیم احمد شیخ صاحب کا بھی شکریہ،جنہوں نے پرنٹ میڈیاکے انتہائی نامساعد حالات میں ملتان سے روزنامہ قوم کی اشاعت کا آغاز کیا اور یہ سفر آج بھی کامیابی سے جاری وساری ہے اور ان شااللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
رواں ماہ کے آخر روزنامہ قوم اپنی دوسری سالگرہ منانے جا رہا ہے۔ قوم کے اس خوبصورت گلدستے میں شامل ڈپٹی ایڈیٹر سید قلب حسن، جوائنٹ ایڈیٹر عامر حسینی، نیوز ایڈیٹرز زین العابدین،عباس علی ڈوگر، چیف رپورٹر رفیق احمدقریشی ،ایڈیٹررپورٹنگ جاوید اقبال عنبر،سینئرساتھی شاہد صدیق ،منصور عباس، اظہر گجر، ملک فیاض، وجاہت بھٹی، منصور جاوید قریشی،ریاض بھٹی،انچارج سوشل میڈیاابوبکر، ایڈمن آفیسر محمدمصطفی،محمد سہیل، نعیم الحسن شاہ،ارشد عاربی صاحب بھی شانہ بشانہ ادارے کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں ۔
صحافتی سفر میں سینئراینکرسہیل اقبال بھٹی کامقولہ’’لگےرہو،لگےرہو‘‘ ’’محنت اورمحبت کبھی رائیگاں نہیں جاتی‘‘ نے ہمیشہ ہمت افزائی کی۔سینئرصحافی ندیم عالم صاحب،سینئرصحافی چودھری سلیم سندھو صاحب کاتعاون بھی ہمیشہ شامل حال رہا،انہوںنے بھی ہمیشہ بھائیوں کی طرح رشتہ رکھا۔سکھایا،بتایااورسمجھایا۔مرحوم دوستوں کوبھول جانازیادتی ہوگی،سینئرصحافی فاروق عدیل،اقبال مبارک،شہزادخان ہمیشہ یادرہیں گے۔ملتان کی صحافت میں ان کانام کسی تعارف کامحتاج نہیں۔
زندگی کے ہرموڑپرمرحوم والدین،بہن بھائیوں اور قریبی دوستوں بالخصوص عباس ڈوگر، زین العابدین، اوصاف الٰہی، سہیل رندھاوا،سیدعلی نومان، علی حسنین بھٹی،افضال شاہد، احسان علی ،حافظ عبداللہ عالم،خرم شہزاد سپل و دیگر دوستوں کی دعائیں اور تعاون بھی شامل حال رہا ۔جن دوستوں کے نام یاد آنے سے رہ گئے، ان سے معذرت۔
نئی ذمہ داریوں کا آغاز کر دیا ہے۔اللہ اپنی مدد شامل حال رکھے اور جرات صحافت،عزت و استقامت عطا فرمائے، خدا کرے کہ ہو زور قلم اور زیادہ۔۔۔۔آخرمیں بس اتناہی،میں اس کرم کے کہاں تھا قابل،حضورکی بندہ پروری ہے۔
