سورہ الم نشرح قرآن پاک کی 94 ویں سورہ ہے۔اس سورہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے پیارے محبوب حضرت محمدؐ سے مخاطب ہے جب آپؐ مشکل حالات سے گزررہے تھے۔ اس سورہ کی آیت نمبر 5 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’بیشک مشکل کےساتھ آسانی ہے‘‘۔اگلی آیت نمبر 6 میں اللہ تعالیٰ اپنی بات کی پھر تکرار کرتاہے کہ ’’بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔اللہ چاہتاتوایک بارہی کہہ دیتا تو لوح محفوظ پرلکھی جاتی اور اس سےتاقیامت مفریاانکار ممکن نہ تھا۔لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ رحمان ورحیم نے اپنےبندوں کو حوصلہ دینے اور استقامت کیلئے کائنات کی سب سے بڑی موٹیویشن کی اوراس ایک جملے کودوہرایا۔ہم اپنی زندگیوں پرنظرڈالیں تو یہ آیت زندگی کے ہرموڑ پرنظرآتی ہے۔وقت کادھاراکبھی ایک سانہیں رہتا۔مشکل کے بعد آسانی ضرور آتی ہے اورپھر انسان اللہ کی تدبیر جان کر سجدہ شکربجالاتاہے کہ میں جلدبازتھا،اللہ نے میرے لئے بہترسوچ رکھاتھا۔
کہانیاں،کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ میٹرک تک پورے سال کیلئےملنےوالی اردو کی کتاب کو کہانیاں سمجھ کر شوق ہی شوق میں دنوں میں پڑ ھ جاتا تھا۔بچوں کی کہانیاں کرائے پر لا لا کر پڑھ کر بڑا ہوا ،اسی شوق کا نتیجہ تھا کہ ایف ایس سی میں میرے اردو میں حاصل کر دہ نمبر اس سال کے پوزیشن ہولڈر طالب علم سے بھی زیادہ تھے، یہ اور بات ہے کہ دیگر مضامین کے نمبر ناقابل بیان ہیں ۔اخبار بچپن سے ہی گھر آتا تھا۔امروز،پاکستان اور دیگر اخبارات میں ہفتہ میں ایک دن بچوں کا صفحہ چھپتا تھا اوریوں پورا ہفتہ اس کا انتظار رہتا تھا۔اخبارات میں یہ سلسلہ عرصہ سے مفقود ہو چکا ہے۔ ادب اور اخباربینی کے اسی شوق ہی میں بی اے میں صحافت کو بطور اختیاری مضمون رکھا اور پھر 2001 میں جامعہ زکریا میں ایم اے ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کر کے بالاخر صحافت کے میدان میں قدم رکھ دیا۔
شکریہ چیف ایڈیٹر روزنامہ قوم میاں غفار احمد صاحب کا جن کی زیر ادارت پہلی بار 2004 میں صحافت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اور ٹرینی سب ایڈیٹر کے طور پر خارزار صحافت کی سیاحت شروع کی اور میاں غفار احمد کی سرپرستی میں صحافت کے ’’اوصاف‘‘ سیکھے اور پھر ٹھیک 20 سال بعد انہی کی زیر ادارت روزنامہ قوم میں ایڈیٹر کی انتہائی ذمہ دارانہ سیٹ پر بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا ۔
شکریہ پاکستان کے سینئر صحافی شوکت اشفاق صاحب کا جنہوں نے 2005 میں ملتان سے شروع ہونے والے اشاعتی ادارے میں باقاعدہ نوکری دی اور ایم اے ماس کمیونیکیشن کرنے کے بعد پہلی بار جیب میں تنخواہ کی صورت میں کچھ پیسے آئے،کجا آج کے دور میں جب بچے بھی سوشل میڈیا سے ڈالر ’’چھاپ‘‘ رہے ہیں ماضی میں تعلیم کے تمام سفر مکمل کرنے کے بعد ہی نوکری کا سوچا جاتا تھا۔وقت کے ساتھ سب کچھ بدل کر رہ گیا ہے ۔’’پاکستان‘‘ میں صحافت کر کے بہت کچھ سیکھا۔
نیوز روم کسی دور میں بہت طاقتور ہوا کرتا تھا ۔کئی کئی ڈیسک بنے ہوتے تھے۔ڈاک ڈیسک پر جنوبی پنجاب کے دور دراز اضلاع کی خبریں بنتی ،سجتی اور سنورتی تھیں تو سیمی لوکل ڈیسک پر قریبی شہروں کی نمائندگی کی جاتی تھی۔لوکل ڈیسک پر مین ڈیسک ملکی و بین الاقوامی خبروں سے انصاف کر رہا ہوتا تو سٹی ڈیسک پر ملتان شہر کی خبریں، تصاویر چھانٹی اور بانٹی جا رہی ہوتی تھیں ۔سوشل میڈیا،وقت کے دھارے اور حکومتی پالیسیز کے باعث پرنٹ میڈیا اب صرف علامتی طور پر ہی زندہ رہ گیا ہے۔ نیوز روم ،کمپیوٹر سیکشن اور رپورٹنگ سیکشن کی رونقیں اور گہما گہمی ماضی کی گرد میں دب کر رہ گئی ہیں، یاد کریں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔
شکریہ سینئر صحافی اسرار احمد چشتی صاحب کا جنہوں نے مجھ ناچیز کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔صحافت کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے ہی الفاظ اور سرخیوں سے کھیلنا سکھایا ۔اسرار چشتی صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کسی بھی جونیئر یا سینئر سب ایڈیٹر کی سرخی کاٹ کر دل آزاری نہیں کرتے تھے،وہ اسی سرخی میں ایک دو الفاظ کاٹ کر کاٹ دار بنا دیتے تھے اور پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا تھا۔
شکریہ سینئر صحافی زمان نقوی صاحب کا ،جن سے کام بھی سیکھا اور سب سے بڑھ کر نیوز روم جیسے حساس شعبے میں بیٹھ کر انتہائی ٹینس ماحول میں اعتماد اور ٹینشن فری ہو کر کام کرنےکاہنرجانا۔زمان نقوی صاحب کی یہ خاصیت ہے کہ ان کی مہارت وقت کی کمی کو آڑے نہیں آنے دیتی تھی۔نیوز روم سے اخبار چھپنے کیلئے پریس جانے تک ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے مگر وہ انتہائی calm ہو کر کام کرتے اور یہی ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے سیکھا اور الحمدللہ زندگی بھر کام آیا۔
راقم جب ’’پاکستان‘‘ میں سات سال صحافت کی ’’جنگ‘‘ لڑ تے سینئر صحافی الیاس دانش صاحب کی ماتحتی میں پہنچا تو صحافت کو ایک مختلف انداز میں پایا۔ پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے کا حصہ بننے کے بعد جانا کہ الفاظ اور سرخیوں سے کیسے کھیلا جاتا ہے اور ادارہ کیسے اس مقام پر پہنچا۔نیوز ایڈیٹر الیاس دانش صاحب اتنی محنت کرتے اور کراتے کے ہیڈ آفس کراچی ملتان سٹیشن کی سرخیوں کو ہی پورے ملک کے تمام سٹیشنز کیلئے منظور کرتا۔ملتان کےنیوزروم میں ایک ہی خبر کی تین تین، چار چار سرخیاں بنائی جاتی اور اسی میں سے کوئی ایک منظورہوتی،یا پھر الیاس دانش صاحب یا ڈپٹی نیوز ایڈیٹر ملک رفیق صاحب کوئی نئی کاٹ دار سرخی دے دیتے جس سے الفاظ اور بھی قیمتی ہو جاتے۔
چار سال اس ادارےمیں صحافت کی ’’جنگ‘‘ لڑی اور پھر نئی ’’دنیا‘‘ کےسفرپرنکل گیا۔ میں نے سینئر صحافی جمشید بٹ صاحب جیسا پر تحمل شخص صحافتی دنیا میں نہیں دیکھا،ان کے ’’اوصاف‘‘ 2004 میں دیکھے تھے تو دوبارہ 2015 میں ’’دنیا‘‘ نے پھر اکٹھا کردیا اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا۔جمشید بٹ صاحب نے مجھ بندہ ناچیز کو اہم سیٹوں پر کام کرنے کا موقع دیا اور کبھی مایوس نہ ہونے دیا ۔یہ سلسلہ 2018 تک جاری رہا۔
2018 میں اپنے جذبات کا ’’ایکسپریس‘‘ کرتے ہوئے چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ تبدیلی کا سونامی آگیا۔سیٹھ میڈیا مالکان اور عمران خان کی ضد، ہٹ دھرمی اور اناکے باعث پرنٹ میڈیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔اشتہارات اور بقایا جات بند کرنے پر پرنٹ میڈیا کا زوال شروع ہو گیا۔کئی نووارد اداروںنے رخت سفر باندھا تو کئی پرانے گھاگ اداروں نے پی ٹی آئی حکومت کے پریشرائز نہ ہونے پر مختلف شہروں سے اپنے سٹیشن بند کرنا شروع کر دیئے۔ ہزاروں صحافی اور میڈیا ورکرز بے روزگار ہو گئے ۔قلم کے مزدور سڑکوں پر آگئے۔ راقم کو بھی بے روزگاری کاٹنا پڑی۔تین سال میں دنیا کے وہ رنگ دیکھے جو اللہ کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ (جاری ہے)
چند ماہ ’’جہان پاکستان‘‘ کی سیاحی بھی کی مگر آگے صحافت کا راستہ تاریک اور بے روزگاری کی دلدل پھر سے تیار کھڑی تھی۔2001 میں کورونا کے رونا کے دوران بے روزگاری بھی کاٹی اور غریب الوطنی بھی برداشت کی۔ لاہور جا کر بھی دوسری بار’’دنیا‘‘ دیکھی،تیسری بار جمشید بٹ صاحب کی ماتحتی میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے مجھے مین ڈیسک پراپنےساتھ رکھ کر حوصلہ افزائی کی اور لیڈ،سپر لیڈ سمیت اہم خبریں بننے کیلئے دیتے۔لاہورجیسے بڑے شہر،بڑے ادارے میں بڑے بڑے لوگوں کے درمیان بیٹھ کرکام کرنے کااپناہی مزا اورنیاتجربہ تھا مگر گھر سے دوری اور پردیس راس نہ آیا اور میں نے کچھ ہی عرصہ بعد رخت سفر باندھ لیا اور پھر واپس ملتان میں ’’پاکستان‘‘ آکر ’’پارلیمنٹ‘‘ کاچہرہ دیکھ کر ’’قوم‘‘ کا حصہ بن گیا۔
بطور مسلمان دوبارہ جنم یا آواگون کانظریہ ہمارے عقیدے میں شامل نہیں مگر ری بورن(Reborn) ایک اصطلاح ہے، اسے نئی زندگی کا آغاز کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ 16 دسمبر 2022 کی ایک سرد شام تھی، میں لیہ میں اپنے بھانجے کی شادی میں شرکت کیلئے گیا ہوا تھا۔بےروزگاری کا سفر بھی جاری تھا، اسی موقع پر ایک پرانے دوست کی کال آئی کہ روزنامہ قوم میں کام کرنا ہے؟اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں کے مصداق میں نے فوری حامی بھر لی اور شادی سے فارغ ہو کر ملتان آتے ہی دوست کے بتائے ہوئے پتے مہربان کالونی ملتان میں ’’قوم‘‘ کے دفتر پہنچ گیا۔مہربان کالونی میں قسمت مہربان ہوئی اور ڈپٹی ایڈیٹر سید قلب حسن صاحب کے ساتھ ابتدائی بات چیت کے بعد معاملات طے پا گئے اور انہوں نے چیف ایڈیٹر محترم جناب میاں غفار صاحب اور گروپ ایڈیٹر میاں قاسم نواز صاحب سے ملوا دیا۔
یہاں سے میری صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ،روز نامہ قوم نےاِسْمْ با مُسَمّیٰ کی طرح ہجوم سے قوم کے سلوگن پر 2022 سے اشاعت کا اغاز کیا۔ میاں غفار صاحب کی زیر ادارت اور میاں قاسم نواز صاحب کے زیر سایہ اس ادارے نے کام اور اعتماد کی مکمل آزادی دی ۔گروپ ایڈیٹر میاں قاسم نواز صاحب پاکستان کے سینئر صحافی ہیں اور اسلام آباد ،لاہور اور ملتان میں ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں اور سرخیوں کی بنت نے دماغ کے نئے دروازے وا کئے۔ وہ سیدھی سادی مردہ خبرمیں بھی اپنی سرخی سے ایسی جان ڈال دیتے کہ صبح ہنگامہ بپا ہو جاتا اورانتظامیہ کو جاگنے پر مجبور کر دیتے ۔ قاسم نواز صاحب نے صحافت کی خاطر زندگی بھر پردیس کاٹی ،ان کی صحافت اسلام آباد،لاہور اور ملتان کے گرد گھومتی رہی۔ آخر کار انہوں نے بھی اکتوبر 2023 میں ملتان سے رخصت سفر باندھا اور مجھ ناچیز کو چیف نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سونپ کر خود عازم لاہور ہوئے ۔اس کے بعد راقم نے’’ قوم‘‘ میں حتی المقدور جہاں فشانی سے کام کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیف ایڈیٹر محترم میاں غفار صاحب نے بندہ ناچیز کو ایڈیٹر کے عہدے پر تفویض کر دیا اور پرنٹ لائن پر نام شائع کرنے کے احکامات صادر کر دیئے ۔یہ اعزاز میری 20 سالہ صحافتی زندگی کا سب سے بڑا ’’قومی‘‘ اعزاز ہے۔
منیجنگ ایڈیٹر روزنامہ قوم نعیم احمد شیخ صاحب کا بھی شکریہ،جنہوں نے پرنٹ میڈیاکے انتہائی نامساعد حالات میں ملتان سے روزنامہ قوم کی اشاعت کا آغاز کیا اور یہ سفر آج بھی کامیابی سے جاری وساری ہے اور ان شااللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
رواں ماہ کے آخر روزنامہ قوم اپنی دوسری سالگرہ منانے جا رہا ہے۔ قوم کے اس خوبصورت گلدستے میں شامل ڈپٹی ایڈیٹر سید قلب حسن، جوائنٹ ایڈیٹر عامر حسینی، نیوز ایڈیٹرز زین العابدین،عباس علی ڈوگر، چیف رپورٹر رفیق احمدقریشی ،ایڈیٹررپورٹنگ جاوید اقبال عنبر، سینئرساتھی شاہد صدیق ،منصور عباس، اظہر گجر، ملک فیاض ، وجاہت بھٹی، منصور جاوید قریشی ،ریاض بھٹی ،ابوبکر، ایڈمن آفیسر محمدمصطفی،محمد سہیل ،سید نعیم الحسن شاہ،ارشد عاربی صاحب بھی شانہ بشانہ ادارے کی کامیابی کیلئے کوشاں ہیں ۔
صحافتی سفر میں مرحوم والدین،بہن بھائیوں اور قریبی دوستوں بالخصوص سینئراینکر سہیل اقبال بھٹی،عباس ڈوگر، زین العابدین، اوصاف الٰہی، سہیل رندھاوا،سیدعلی نومان، علی حسنین بھٹی،افضال شاہد، احسان علی ،حافظ عبداللہ عالم،خرم شہزاد سپل و دیگر دوستوں کی دعائیں اور تعاون بھی شامل حال رہا ۔جن دوستوں کے نام یاد آنے سے رہ گئے، ان سے معذرت،نئی ذمہ داریوں کا آغاز کر دیا ہے۔اللہ اپنی مدد شامل حال رکھے اور جرات صحافت،عزت و استقامت عطا فرمائے، خدا کرے کہ ہو زور قلم اور زیادہ۔۔۔۔آخرمیں بس اتناہی،میں اس کرم کے کہاں تھا قابل،حضورکی بندہ پروری ہے۔