شادی والے دن غیرت کے نام پر قتل، سلمیٰ ڈبل ایم اے، انتباہ کے باوجود پولیس تماشائی

بہاولپور(قوم نیوز) بہاولپور کے احمدپورشرقیہ میں شادی کے روزباپ اوربھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونےوالی سلمیٰ کے حوالے سے مزید تفصیلات سامنےآئی ہیں۔ لڑکی کی سہیلیوں نے گھرآکرقتل کے خطرے سے آگاہ کیاتھامگراطلاع کے باوجود پولیس حرکت میں نہ آئی اورسلمیٰ کوسگے رشتوں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔واضح رہےکہ 28/29 سالہ سلمیٰ بی بی کا تعلق موضع سکھیل، تھانہ ڈیرہ نواب، احمدپور شرقیہ سے تھا۔ وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ڈبل ایم اے کی طالبہ رہ چکی تھی۔ تعلیم یافتہ ہونا، شعور رکھنا اور اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی خواہش رکھنا شاید ہمارے سماج میں اب بھی ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔سلمیٰ کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے ایک نوجوان قاسم سے محبت کی اور اپنی پسند کی شادی والدین کی رضامندی سے کرنا چاہی۔ وہ بھاگ سکتی تھی مگر نہیں بھاگی۔ اس نے خاندان کی عزت، باپ کے وقار اور سماجی حدود کا خیال رکھا۔ یہی اس کا سب سے بڑا قصور بن گیا۔افسوسناک واقعہ سکھیل میں پیش آیا جہاں مقتولہ کے والد طالب حسین نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کرشادی کےروز اپنی ہی بیٹی کا گلا دبا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔پولیس کا کہنا ہےکہ مقتولہ کو اس کی پھوپھی نے بچپن سے گود لیا ہوا تھا، مقتولہ کا باپ شادی والےروزاسے اپنے گھر لےگیا تھا اور باپ بیٹا اس شادی سے خوش نہیں تھے۔ لاش قریبی کھیتوں سے برآمد ہوئی۔ پولیس نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ٹی ایچ کیو ہسپتال احمدپور شرقیہ منتقل کیا۔مقدمے کے متن کے مطابق قتل کی وجہ صرف یہ درج کی گئی کہ مقتولہ پسند کی شادی کرنا چاہتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ وجہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قتل کا جواز بن سکتی ہے؟یہ سانحہ محض ایک قتل نہیں بلکہ نظام کی ناکامی کا ثبوت بھی ہے۔ اطلاعات تھیں کہ سلمیٰ کو قتل کیا جا سکتا ہے۔ بہاولپور سے اس کی دو سہیلیاں سکھیل آئیں، خطرے کی نشاندہی کی، مگر انہیں دھکے دے کر گھر سے نکال دیا گیا۔ یہ معلومات پولیس تک بھی پہنچیں۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق پولیس تقریباً بارہ گھنٹے تک سلمیٰ کو تلاش کرتی رہی۔ بارہ گھنٹے بعد سلمیٰ مل تو گئی مگر زندگی ہار چکی تھی۔یہاں سوال پولیس کی کارکردگی پر بھی اٹھتا ہے۔ اگر اطلاع ملنے کے بعد بروقت اور سنجیدہ کارروائی کی جاتی تو شاید ایک قیمتی جان بچائی جا سکتی تھی۔ کہیں چند گھنٹوں میں مغوی بچے بازیاب ہو جاتے ہیں اور کہیں پیشگی اطلاع کے باوجود ایک بیٹی قتل ہو جاتی ہے۔غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کی نام نہاد غیرت کا معیار پورا گاؤں جانتا ہے۔ غیرت کا تعلق کردار، برداشت اور انصاف سے ہوتا ہے، نہ کہ قتل سے۔ محبت جرم نہیں، پسند کی شادی غیر اسلامی نہیںاور بیٹی کا اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنا بغاوت نہیں۔سلمیٰ کا قصور یہی تھا کہ وہ عزت کے ساتھ رخصتی چاہتی تھی۔ وہ گھر سے نہ بھاگی۔ شاید بھاگ جاتی تو آج زندہ ہوتی مگر اس نے باپ کی عزت بچانے کی کوشش کی اور جان گنوا دی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں