میں گزشتہ تین روز سے لاہور میں ہوں اور بدھ کے روز مجھے لاہور کے علاقے کریم پارک و شفیق آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ کبھی یہ بہت پرامن علاقے تھے مگر گزشتہ تین دہائیوں سے ان علاقوں میں غنڈہ گردی عروج پر پہنچی ہوئی تھی، لوگ کھلے عام اسلحہ لئے پھرتے تھے اور اسلحہ کلچر اتنا عام تھا کہ عیدین کے مواقع پر بچوں کے کھلونے بھی پلاسٹک کی کلاشنکوف اور پسٹل ہوتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے گریبان کھول کر گلیوں میں ایک دوسرے سے لڑتے اور دست و گریباں ہونے کی اداکاری کرتے نظر آتے تھے۔ چند بدنام غنڈوں نے ان پرامن علاقوں کو برباد کرکے رکھ دیا تھا مگر میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب گزشتہ روز مجھے بتایا گیا کہ تمام بدمعاش، غنڈے اور سٹریٹ کریمنلز مکمل طور پر غائب ہیں اور بعض تو اپنے گھروں سے ہی نہیں نکلتے، جو چند ہفتے پہلے تک کئی کئی دن اپنے گھروں میں جاتے ہی نہ تھے۔
گزشتہ روز میں نے ملتان سے معلومات حاصل کی تو حیران کن انکشاف یہ ہوا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملتان کے کسی بھی تھانے کی حدود میں ایک بھی ڈکیتی کی واردات نہیں ہوئی۔ چند روز قبل ملتان کے علاقے کوٹ رب نواز کے ایک دکاندار نے بتایا کہ وہ نماز مغرب سے قبل ہی دکان بند کرنے پر مجبور تھا کیونکہ پیسے لے کر گھر جاتے ہوئے راستے میں لٹنا معمول بن چکا تھا اب میں 12 بجے تک دکان کھول کر بھی بیٹھا رہوں اور جتنے مرضی پیسے لے کے گھر جاؤں مجھے کوئی راستے میں لوٹتا نہیں، روکنے والا نہیں اب مجھے ویران سڑک پر بھی کوئی خوف نہیں آتا۔
سی سی ڈی ملتان کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھ رہے تھے مگر دو روز قبل علی الصبح نشتر ہسپتال میں اس وقت حیران کن منظر تھا جب سینکڑوں مرد اور خواتین اس مکروہ کردار کو دیکھنے کیلئے جمع تھے جس کی مردانہ صفات مبینہ طور پر گولی لگنے سے ختم ہو چکی تھیں۔ اس مکروہ کردار نے کسی بچی پر ظلم ڈھایا تھا۔ یہ ایک ایسی سزا ہے کہ وہ اپنی طبعی عمر زندہ بھی رہے گا، تڑپتا بھی رہے گا، ذلت کی زندگی گزارے گا اور لوگوں کی نظروں میں بھی تامرگ گرا ہی رہے گا۔ اتنے بڑے انفراسٹرکچر کے ساتھ جو کام پنجاب پولیس سالہا سال میں بھی نہ کر سکی وہ محض چند ہفتوں میں ہو گیا۔ نہ کوئی ڈکیت نظر آ رہا ہے نہ کوئی قبضہ کرنے والااور نہ کوئی سٹریٹ کریمنل۔ کہاں گئے وہ جو بازاروں میں جتھوں کی صورت میں موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکال کر پھرتے تھے، کہاں گئے وہ جو پرس چھینتے اور خواتین پر آوازے کستےتھے، کہاں گئے جو عورتوں سے سرعام بدتمیزی کرتے تھے اچانک ہر کوئی’’ایمان‘‘کیسے لے آیا۔ اللہ کی شان ہے کہ تین ماہ پہلے تک جن سے لوگ معافیاں اور پناہ مانگتے تھے آج وہ لوگوں سے معافیاں مانگتے پھر رہے ہیں اور اپنے معافی ناموں کے گارنٹر ڈھونڈ رہے ہیں، تو اس سے بڑی اور تبدیلی کیا ہو گی۔ کم از کم میں نے تو اپنی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی دیکھی نہ سوچی اور نہ ہی اس کا تصور کیا تھا۔ سی سی ڈی ملتان کے افسران خاصے ذمہ دار ہیں اور کسی ایسے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے جس میں رتی برابر بھی شک یا کنفیوژن ہو۔ سی سی ڈی ملتان کا انفارمیشن نیٹ ورک شوکت کمانڈو نامی ایک انتہائی متحرک اور محتاط شخص چلا رہا ہے جس کے اخبارات کے کرائم رپورٹر سے بھی گہرے روابط ہیں۔
میرے دوست نے بتایا لاہور کے علاقے بیگم کوٹ میں گزشتہ سات سال سے ایک اوباش گروہ ایک مقامی بیوہ عورت کو اس کے اپنے ہی گھر کی چار دیواری تعمیر نہیں کرنے دیتا تھا جبکہ ان دنوں وہ خاتون چار دیواری تعمیر کر رہی ہے اور کوئی روکنے والا ہی نہیں حتیٰ کہ اس نے متعلقہ تھانے میں مدد کے لئے درخواست بھی نہیں دائر کی۔
اپنے طویل صحافتی تجربے کے بعد میں یہ بات لکھ کر دیتا ہوں کہ پاکستان کے ہر شہر اور قصبے میں دس پندرہ چور ،بدمعاش، غنڈے، قابضین، ڈاکو اور سماج دشمن عناصر کا ایک ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے اور اپنی باقی زندگی یہ دس پندرہ ٹنڈے دیدہ عبرت کے طور پر شہر میں پھرتے ہوئے نظر آتے رہیں تو گلی میں لاوارث پڑا ہوا سونا بھی کوئی نہیں اٹھائے گا، ڈکیتی تو دور کی بات، کیونکہ ہمارے نظام عدل کا تو بیڑا ہی غرق ہے اور انصاف دور دور تک نظر نہیں آتا۔ لوگ چاہتے ہیں کہ فیصلے ہوں، خواہ خلاف ہی ہو جائیں مگر فیصلے ہی نہیں ہوتے۔ جس کسی کو میری بات سے عدم اتفاق ہے وہ اپنی زندگی کے صرف چار دن چند گھنٹے پاکستان کی کسی بھی لوئر کورٹ میں بیٹھ کر عدالتی کارروائی سن لے اور مقدمات کی فائلوں کا حشر دیکھے کہ اہم ثبوتوں پر مشتمل فائلیں کیسے اٹھا کر پھینکی جاتی ہیں۔ اپنی آنکھوں سے نظام انصاف کیلئے موجود مقدمات کے کاغذات اور ریکارڈ کا مشاہدہ کر لے تو اسے کباڑ خانے میں پڑی ہوئی ردی بھی ترتیب سے نظر آئے گی۔ چھ چھ کلو کے مقدمات پر مشتمل کاغذات ان سے متعلقہ تمام تر کارروائیاں پتلی سی ڈوری سے بندھی ہوئی ہوتی ہیں اور انہیں ایک اچھی نسل کا فائل کور تک بھی میسر نہیں ہوتا کہ کاغذ ہی ترتیب سے سنبھالے جا سکتے ہوں تو انصاف ان عدالتوں سے خاک ملے گا؟ انصاف تو دور کی بات ان لوئر کورٹس سے تو سالہا سال تک فیصلے ہی نہیں ہو پاتے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جن مقدمات کے فیصلوں کیلئےتین سے چھ ماہ کا ٹائم مختص ہے وہ بھی کئی سال لٹکے رہتے ہیں۔ مجھے ایک مرتبہ ایک اہم شہر کی ایک سول کورٹ میں جانے کا اتفاق ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سینئر سول جج کی عدالت کے داخلی دروازے کو روکنے کیلئےڈور سٹاپر کی جگہ پر پلاسٹک کی ڈیڑھ لٹر کی بوتل میں پانی بھرکر رسی کے ساتھ لٹکایا گیا تھا اور رسی کو دروازے کے اوپر کیل کے ساتھ باندھا گیا تھا تاکہ جب کوئی دروازہ کھولے تو پانی کی بوتل کے زور سے دروازہ خود بخود بند ہو جائے۔ مذکورہ عدالت کے دروازے کا ڈور لاک ٹوٹا ہوا تھا۔ جب دروازہ ہی محفوظ نہیں ریکارڈ کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
پنجاب بھر کے مختلف اضلاع اور تحصیلوں میں موجود اپنے نمائندگان سے مکمل معلومات لینے کے بعد میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جعل سازی، فراڈ اور قبضے کے معاملات بھی سی سی ڈی کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے انہیں سونپے جائیں۔ سال چھ مہینے تو کام ٹھیک چلے گا اور آہستہ آہستہ خرابی آنا بھی شروع ہوئی تو اس وقت تک لاکھوں لوگوں کی داد رسی ہو چکی ہو گی۔
اب چاہے مجھے کوئی توہین عدالت میں طلب کرے یا مجھ سے یہ سوال کرے کہ میں غیر آئینی بات کر رہا ہوں مگر میں اپنے تجربات اور معلومات کی روشنی میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ سی سی ڈی کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ یہ پنجاب پولیس کو ہضم نہیں ہو رہا اور پنجاب پولیس کے تمام اضلاع میں بیٹھے ہوئے افسران اور ڈویژنل افسران اپنے تمام تر تعلقات استعمال کر رہے ہیں وہ اسلئےکہ اس کا دائرہ کار محدود کر سکیں یا پھر اسے مکمل طور پر ختم کروا سکیں تاہم اب تک انہیں کامیابی نہیں مل رہی اور اس کامیاب ترین ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے میں وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کو سلام پیش کرتے ہوئے یہ اپیل کرتا ہوں کہ خدارا اس سلسلے کو جاری رہنے دیجئے گا، کسی کی باتوں میں آ کر سی سی ڈی کے اختیارات کو محدود نہ کیجئے گا۔ میں وقتا ًفوقتاً اپنی معلومات سے قارئین کرام کو آگاہ کرتا رہوں گا۔
