پنجاب حکومت نے حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کے بعد ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے، جس میں ایک تباہ شدہ مکان کے لیے دس لاکھ روپے، جزوی طور پر متاثرہ مکان کے لیے پانچ لاکھ روپے، ڈوبنے والی زمین کے فی ایکڑ بیس ہزار روپے اور ہلاک ہونے والی گائے یا بھینس کے لیے پانچ لاکھ روپے شامل ہیں۔ بظاہر یہ اعلان کشادہ دلانہ معلوم ہوتا ہے اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ صوبے کے اپنے وسائل سے ادا کیا جائے گا، کسی بیرونی امداد کے بغیر۔ لیکن اس اعلان میں ایک سب سے اہم پہلو غائب ہے: یہ امداد کب اور کیسے دی جائے گی؟ متاثرہ خاندانوں کے لیے محض اعلانات اور وعدے کسی مرہم کا کام نہیں کرتے، جب تک کہ ان کے ساتھ ایک واضح اور فوری ٹائم لائن نہ جڑی ہو۔ جو لوگ آج بھی بندوں کے اوپر کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، ان کے لیے بے وقت امدادی وعدے مزید اذیت کا سبب ہیں۔
پنجاب حکومت نے ریلیف کی تقسیم کے لیے موجودہ قومی نظام، جیسے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)، کو استعمال کرنے کے بجائے نئے ’’ریلیف کارڈز‘‘ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزراء کا کہنا ہے کہ یہ نظام زیادہ مؤثر ہوگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا فیصلہ زیادہ سیاسی نظر آتا ہے بنسبت عملی۔ BISP کے پاس پہلے سے ڈیٹا بیس اور تقسیم کے ذرائع موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے بروقت اور شفاف امداد یقینی بنائی جا سکتی تھی۔ اپوزیشن نے بھی یہی تجویز دی ہے کہ آزمودہ چینلز کے ذریعے ریلیف دیا جائے تاکہ سیاسی جوڑ توڑ سے بالاتر ہو کر متاثرین تک مدد پہنچ سکے۔ لیکن حکومت نے اس تجویز کو سیاسی طعنوں سے رد کر دیا۔حکومت نے دس ہزار ملازمین کو سروے کے لیے اور دو ہزار دو سو تیرہ ٹیموں کو ریلیف آپریشنز کے لیے تعینات کیا ہے۔ بظاہر یہ ایک سنجیدہ اقدام ہے، لیکن جب تک یہ محنت متاثرین کے ہاتھوں میں براہِ راست امداد کی شکل میں منتقل نہیں ہوتی، یہ اعداد و شمار محض خانہ پری ہی رہیں گے۔ متاثرہ علاقوں کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ریاستی اداروں نے موٹروے کو بچانے پر زیادہ توجہ دی جبکہ دیہات پانی میں ڈوب گئے۔ خاص طور پر جلالپور پیروالہ اور ستلج کے کنارے ہونے والی تباہ کاریوں نے پورے گاؤں اجاڑ دیے ہیں۔ جو لوگ کمر تک پانی میں کھڑے ہو کر اپنے پیاروں کو دفن کر رہے ہیں، وہ حکومتی دعوؤں میں ’’مثالی ریلیف‘‘ کی کوئی جھلک نہیں دیکھ پا رہے۔ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ریلیف کی سیاست بھی سیلاب جتنی ہی تباہ کن ہے۔ حکومت اپنی خودمختاری دکھانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن متبادل نظام کو بہتر قرار دے رہی ہے۔ لیکن یہ سیاسی مقابلہ بازی متاثرین کے زخم نہیں بھر سکتی۔ کسانوں کی زمینیں جو بہہ گئیں، ان کی پیداوار، ان کی معیشت اور ان کے خواب محض نعرے بازی سے واپس نہیں آئیں گے۔ متاثرہ خواتین اور بچے، جو آج کھانے کے ایک نوالے اور پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں، ان کے لیے ریلیف کی تقسیم کا طریقہ کار نہیں بلکہ فوری دستیابی اہم ہے۔سیلابی آفات اب محض ایک وقتی مسئلہ نہیں رہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ان کی شدت اور تکرار میں اضافہ ہوگا۔ ایسے میں پنجاب حکومت سمیت تمام صوبائی اور وفاقی اداروں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ متاثرین کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اگر پہلے سے دستیاب ادارے اور نظام بہتر انداز میں استعمال کیے جا سکتے ہیں تو انہیں سیاسی تعصب کے بجائے بروئے کار لانا چاہیے۔ اگر نئے طریقے متعارف کرائے جائیں تو ان پر جلدی اور مؤثر عملدرآمد ضروری ہے۔ اصل کسوٹی متاثرین کے ہاتھ میں آنے والی امداد ہے، نہ کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ۔پنجاب حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ متاثرین کے سامنے اس کی اصل کارکردگی امداد کی رفتار اور شفافیت سے جانچی جائے گی۔ اگر یہ پیکیج عملی طور پر وقت پر تقسیم نہ ہوا تو یہ اعلان محض سیاسی دکھاوا سمجھا جائے گا۔ عوام کو روٹی، کپڑا اور چھت کی ضرورت ہے، نہ کہ سیاسی نعرے یا غیر حقیقی دعوے۔ جب تک حکمران طبقہ ہمدردی کو سیاست پر فوقیت نہیں دیتا، تب تک ریلیف کے نام پر کیے گئے اقدامات عوامی اعتماد کو بحال کرنے میں ناکام رہیں گے۔ سیلاب کی تباہی نے ہمارے معاشرتی اور انتظامی ڈھانچوں کی کمزوری کو واضح کر دیا ہے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ شفافیت، ایمانداری اور سرعت کے ساتھ متاثرین تک امداد پہنچائی جائے۔ یہی اصل امتحان ہے جس میں پنجاب حکومت کو کامیاب ہونا ہے۔
