پاکستان میں حالیہ سیلابی صورتحال نے ایک بار پھر یہ کڑوا سچ آشکار کر دیا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما قومی سانحات کو بھی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، ہزاروں گھر اجڑ گئے، کھڑی فصلیں برباد ہوگئیں اور مال مویشی بہہ گئے۔ ایسے میں متاثرہ عوام کو فوری ریلیف اور بحالی کی ضرورت ہے، مگر ہمارے حکمران امدادی پیکجوں کے اعلان کے بجائے سیاسی نکتہ چینی میں مصروف ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت ریلیف کی رقوم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے تقسیم کرے کیونکہ اس کا نادرا کے ساتھ مربوط ڈیٹا بیس اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک موجود ہے۔ یہ طریقہ 2022ء کے تباہ کن سیلاب اور کووڈ 19 وبا کے دوران بھی کامیاب ثابت ہوا۔ ان کے خیال میں یہی سب سے تیز اور شفاف ذریعہ ہے کہ متاثرین تک کم از کم ابتدائی مالی امداد جلد پہنچ سکے۔
اس کے برعکس پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کا کہنا ہے کہ صرف 10 ہزار روپے یا چھوٹی رقم کی ادائیگی متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ وہ ایک لاکھ روپے فی خاندان یا اس سے زیادہ معاوضے کے پیکجز کی بات کر رہی ہیں تاکہ اجڑے ہوئے لوگ دوبارہ اپنے گھر اور کھیت سنبھال سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کو بیرونی امداد کے لیے دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی روایت ترک کرنی چاہیے اور خود انحصاری کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔
دونوں رہنماؤں کے مؤقف میں کچھ حقیقت ضرور ہے مگر دونوں اپنی اپنی سیاسی پوزیشن کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو فوری طور پر چھت، خوراک، ادویات اور نقل و حمل کے لیے نقد رقم درکار ہے۔ یہ ضرورت فوری بنیادوں پر بی آئی ایس پی کے ذریعے پوری ہو سکتی ہے کیونکہ اس کا نظام پہلے سے موجود ہے۔ دوسری طرف، بڑے پیکجز اور صوبائی حکومتوں کے منصوبے دیرپا بحالی اور تعمیر نو کے لیے اہم ہیں مگر ان پر عمل درآمد میں وقت لگتا ہے۔
ایک منطقی حل یہ ہو سکتا ہے کہ حکومتیں مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ پہلے مرحلے میں بی آئی ایس پی کے ذریعے ہنگامی بنیادوں پر فوری رقوم کی تقسیم کی جائے تاکہ متاثرین اپنی فوری ضروریات پوری کر سکیں۔ اس کے بعد صوبائی حکومتوں کے اعلانات جیسے ہاری کارڈ، کھاد پر سبسڈی اور بڑے معاوضے شفاف اور منظم طریقے سے تقسیم کیے جائیں۔ اس پورے عمل کی نگرانی کے لیے آزاد آڈٹ، عوامی ڈیش بورڈ اور تیسرے فریق کی تصدیق لازمی قرار دی جائے تاکہ شفافیت اور اعتماد قائم رہ سکے۔
جہاں تک بیرونی امداد کی بات ہے تو یہ بحث غیر ضروری ہے کہ اسے “بھیک” کہا جائے یا “بین الاقوامی تعاون”۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک قدرتی آفات میں عالمی برادری کی مدد قبول کرتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہر آنے والا ڈالر اور روپے کا حساب عوام تک پہنچتا ہے یا نہیں۔ اگر شفافیت برقرار رکھی جائے اور مقامی وسائل بھی بروئے کار لائے جائیں تو بیرونی امداد کو قومی خودداری کے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے۔
سیلاب متاثرین کے لیے یہ بحث بے معنی ہے کہ امدادی کارڈ پر بے نظیر کا نام ہو یا مریم نواز کے دستخط۔ ان کے نزدیک اصل سوال یہ ہے کہ کون سب سے پہلے ان تک پہنچتا ہے، کس نے ان کی تکلیف کا مداوا کیا اور کس نے شفاف طریقے سے مدد فراہم کی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت اپنی توانائی پوائنٹ اسکورنگ پر ضائع نہ کرے بلکہ متحد ہو کر ایک مربوط اور مؤثر ریلیف اسٹریٹجی اپنائے۔ کیونکہ بارشوں اور سیلاب کو سیاست سے کوئی غرض نہیں۔ عوام صرف یہ یاد رکھیں گے کہ مشکل وقت میں کون ان کے ساتھ کھڑا ہوا۔
سیلابی آفات کے تناظر میں ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان اب موسمیاتی تبدیلیوں کے دور میں داخل ہو چکا ہے، جہاں بارشوں اور دریاؤں کی بے قابو روانی کے سبب ہر سال ہزاروں خاندان اجڑتے ہیں۔ 2010ء کے سیلاب نے ایک کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ 2022ء میں آنے والا سیلاب بھی اسی شدت کا سانحہ ثابت ہوا، جس میں 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور نقصانات کا تخمینہ 34 ارب ڈالر سے زیادہ لگایا گیا۔ یہ دونوں بڑے سانحات ہمیں یہ سکھا گئے تھے کہ فوری ریلیف اور طویل مدتی پالیسی سازی لازم و ملزوم ہیں، لیکن افسوس کہ سیاسی جماعتوں نے ان واقعات سے وہ سبق نہیں سیکھا جو سیکھنا چاہیے تھا۔
آج جب 2025ء میں ایک بار پھر جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع زیرِ آب آئے ہیں تو حالات پھر ویسے ہی ہیں۔ متاثرہ کسانوں کے کھیت ڈوب گئے ہیں، گھروں کی چھتیں گر گئیں اور مویشی بہہ گئے۔ یہ لوگ اب بھی سرکاری امداد کے منتظر ہیں، لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام فوری امداد کی فراہمی کا ایک کارگر ذریعہ ہے۔ یہ پروگرام پہلے ہی ملک کے کونے کونے میں مستحق خاندانوں کو شناختی کارڈ اور نادرا کے ریکارڈ کی بنیاد پر امداد فراہم کرتا رہا ہے۔ لہٰذا اگر اسی نظام کے ذریعے متاثرہ خاندانوں کو ابتدائی رقم دی جاتی تو نہ صرف وقت بچتا بلکہ شفافیت بھی یقینی ہوتی۔ دوسری جانب مریم نواز کا بڑا معاوضہ دینے کا دعویٰ بھی متاثرین کے لیے امید افزا ہے، لیکن اس کے لیے کاغذی کارروائی، سروے اور فائلوں کا مرحلہ درکار ہوگا جو فوری ریلیف میں تاخیر کا سبب بنے گا۔
