موجودہ برساتی سیلاب نے وسطی پنجاب کی وسیع و عریض زرعی زمینوں کو نگل لیا ہے۔ لاکھوں چھوٹے کسان اپنے کھیت، گھر اور مال مویشی چھوڑ کر بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے آ گئے ہیں۔ دریائے ستلج، راوی اور چناب کے کناروں پر بسنے والے دو ہزار سے زائد دیہات اجڑ گئے ہیں۔ چاول، مکئی، سبزیاں اور دیگر فصلیں جو کسانوں کی سال بھر کی محنت کا حاصل تھیں، لمحوں میں پانی کی نذر ہو گئیں۔ اب جب یہ پانی جنوب کی جانب بڑھ رہا ہے تو خدشہ ہے کہ کپاس کی کاشت والے جنوبی اضلاع بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے اور یوں سندھ تک تباہی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ محض قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک بڑی معاشی ہلاکت خیزی ہے جس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس ہوں گے۔زرعی پیداوار کی اس تباہی نے نہ صرف کسانوں کو برباد کیا ہے بلکہ ملک کے معاشی ڈھانچے کو بھی لرزا دیا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی فراہمی میں خلل پڑنے کے باعث قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو گا، اور خوراک کی مہنگائی نئے ریکارڈ قائم کرے گی۔ ہمیں 2022 کے ہولناک سیلاب یاد ہیں جب مہینوں تک غذائی اشیا کی قیمتیں قابو میں نہ آ سکیں۔ اب ایک بار پھر وہی منظر دہرایا جا رہا ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف مہنگائی تک محدود نہیں۔چھوٹے کسانوں کی اکثریت کے لیے یہ تباہی کل کی محنت اور آج کی روزی روٹی کا خاتمہ ہے۔ ان کے پاس نہ اگلی فصل بونے کے لیے بیج بچے ہیں اور نہ ہی مویشی باقی رہے ہیں۔ گھر اجڑ گئے ہیں، روزگار ختم ہو گیا ہے اور غربت کی دلدل مزید گہری ہو گئی ہے۔ جب خوراک کی بنیادی اشیاء مہنگی ہوں گی تو اس کا بوجھ بھی انہی غریب طبقات پر پڑے گا جو پہلے ہی زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں۔زرعی معیشت کی تباہی کے اثرات صنعت تک بھی پہنچیں گے۔ کھاد، زرعی مشینری، اور حتیٰ کہ آٹوموبائل کی فروخت میں کمی آئے گی۔ زرعی اجناس کی پیداوار کم ہونے سے برآمدات متاثر ہوں گی، خاص طور پر چاول اور کپاس جیسے بڑے زرعی برآمدی شعبے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھے گا اور پہلے ہی کمزور ادائیگیوں کے توازن کو مزید خطرات لاحق ہوں گے۔ دوسری طرف، خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے درآمدات میں اضافہ کرنا پڑے گا جو تجارتی خسارے کو بڑھا دے گا۔زرعی پیداوار میں یہ کمی براہ راست قومی معیشت پر اثر انداز ہو گی۔ زرعی شعبہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا قریب ایک چوتھائی حصہ ہے اور 40 فیصد سے زیادہ افرادی قوت اسی پر انحصار کرتی ہے۔ گزشتہ برس یہ شعبہ محض 0.56 فیصد کی شرح نمو دکھا سکا جو پچھلی دہائی میں سب سے کم تھی۔ اب اس سال کے سیلاب نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ اس سے مجموعی شرح نمو دباؤ میں آئے گی اور پہلے سے رینگتی ہوئی معیشت مزید زمین بوس ہونے لگے گی۔یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان کو ایسے تباہ کن سیلاب کا سامنا ہے۔ 1950 سے اب تک بیس بڑے سیلاب آ چکے ہیں، جن میں سے نصف پچھلے بیس برسوں میں آئے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے نہ صرف ان آفات کی شدت بڑھا دی ہے بلکہ ان کے آنے کے وقفے کو بھی کم کر دیا ہے۔ لیکن اس بڑھتے ہوئے خطرے کے مقابلے میں ہماری قومی تیاری بدستور ناقص اور ناکافی ہے۔ سیلاب کو اب حادثاتی یا اچانک آنے والا واقعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک مستقل معاشی دھچکا ہے جو بار بار آتا ہے، ہماری ترقی کو پیچھے دھکیل دیتا ہے، لاکھوں لوگوں کو غربت کی طرف لے جاتا ہے اور قومی معیشت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔اگر ہم نے اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا اور اپنی ترجیحات کو ازسرنو مرتب نہ کیا تو ہر نیا سیلاب نئی بستیاں ڈبوئے گا، نئی زندگیاں برباد کرے گا اور نئی معیشتی تنزلی کا باعث بنے گا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ قدرتی آفات اب محض قدرت کی آزمائش نہیں بلکہ ہماری بدانتظامی اور بے حسی کا بھی شاخسانہ ہیں۔ ہم نے دریاؤں کے کناروں پر کچی آبادیوں کو پھلنے پھولنے دیا، نکاسی آب کا کوئی مؤثر نظام قائم نہ کیا، بند اور حفاظتی پشتوں کو مضبوط نہ کیا اور سب سے بڑھ کر موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے میں اپنی پالیسیوں کو جدید خطوط پر استوار نہ کیا۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آفات سے بچاؤ کو وقتی ہنگامی ردعمل کے بجائے طویل المدتی منصوبہ بندی کا حصہ بنائیں۔ ہمیں زرعی لچکدار نظام قائم کرنا ہو گا جس میں فصلوں کی بیمہ کاری، بیجوں کی اقسام کی تبدیلی، اور پانی کے مؤثر انتظام جیسے اقدامات شامل ہوں۔ ہمیں اپنے دیہات اور شہروں کے درمیان بہتر رابطے پیدا کرنے ہوں گے تاکہ کسی ہنگامی صورت حال میں بروقت امداد پہنچ سکے۔ ہمیں سیلاب کے خطرات سے بچنے کے لیے دریائی نظام کو ازسرنو منظم کرنا ہوگا اور ان جگہوں پر تعمیرات روکنی ہوں گی جہاں قدرتی آفات کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو ہر آنے والا سیلاب ہماری تعمیر کو برباد کرتا رہے گا۔ زرعی زمینیں، بستیاں اور زندگیاں بار بار پانی میں بہتی رہیں گی اور ہم صرف گنتی کرتے رہ جائیں گے کہ کتنے دیہات اجڑ گئے اور کتنے ارب روپے کے نقصانات ہوئے۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کب اپنے عوام کو یہ اعتماد دیں گے کہ وہ قدرتی آفات سے مکمل طور پر بے یار و مددگار نہیں بلکہ ایک ذمہ دار ریاست کے شہری ہیں؟اس سیلاب نے ایک بار پھر ہمیں یاد دلایا ہے کہ پاکستان کی معیشت اور معاشرہ پانی کے رحم و کرم پر ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان اپنی عقل، سائنسی علم اور اجتماعی عزم سے قدرتی آفات کے اثرات کو کم کر سکتا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی ترجیحات درست نہ کیں تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہماری ادارہ جاتی نا اہلی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے اور ہر نیا سیلاب اس خرابی کو اور نمایاں کرتا جائے گا۔
