آج کی تاریخ

سید یوسف رضا گیلانی : نیا منصب، نیا امتحان

سید یوسف رضا گیلانی : نیا منصب، نیا امتحان

گزشتہ روز پاکستان کے ایوان بالا میں ایک اور اہم دن تھا جب سینٹ آف پاکستان کے اراکین کے اکثریتی ووٹ سے سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کو چئیرمین سینٹ آف پاکستان بن گئے۔ ملتان کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس کی دھتی پر جنم لینے والا ایک سیاستدان پہلے وزیراعظم پاکستان بنا اور اب وہ پاکستان کے ایوان بالا کا چیئرمین بن چکا ہے۔ وہ ایک سینئر اور منجھے ہوئے تجربہ کار سیاست دان ہیں جنہیں پارلیمانی امور کا خاصا تجربہ ہے اور یہ ایوان کے لیے ایک نیک ؤکون سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم یہاں پر یہ ضرور کہیں گے کہ الیکشن کمیشن پاکستان کو سینٹ کے لیے خیبر پختون خوا سے اراکین کے انتخاب کا انتظار کرلینا چاہئیے تھا جس سے ان میں سے اگر کوئی چیئرمین اور ڈپٹی چیئیرمین کا امیدوار بننا چاہتا تو ان کا یہ حق متاثر نہ ہوتا اور پھر ایوان بالا بھی مکمل ہوتا اور ایسے میں جو عددی پوزیشن ہے اس کے اعتبار سے حکمران اتحاد کے حمایت یافتہ امیدواروں کے علاوہ کسی ار جیتنے کے امکانات ہی نہ ہوتے۔ اس صورت میں سید یوسف رضا گیلانی کا بطور چیئرمین سینٹ انتخاب اور معتبر ہو جاتا اور یہ زرد نشان اس کامیابی کے چہرے پر واضح نظر نہ آتا- پاکستان اور پاکستان سے باہر یہ جو بار بار ہائبرڈ سسٹم کی گونج سنائی دیتی ہے کے پی کے میں سینٹ آف پاکستان کے انتخابات نہ ہونے کے پیچھے بھی یہی گونج سنائی دی ہے اور یہ اس سسٹم کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ بطور چیئرمین سینٹ آف پاکستان سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اعلی روایات قائم گریں گے – ان کا یہ امتحان ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب کی پیٹی پالیٹکس سے خودکو کیسے اٹھاتے ہیں اور لوگ ان کے بطور چیئرمین سینٹ دور کو ویسے ہی اچھے الفاظ میں یاد کریں جیسے بطور اسپیکر قومی اسمبلی پاکستان ان کا کردار یاد رکھا جاتا ہے۔

پاکستانی معیشت: غربت کی پیداوار کا کارخانہ

جب مہنگائی کی شرح دو گنا اور معاشی ترقی کی شرح بہت سست ہو تو عوام کا چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیسا جانا یقینی ہوجات ہے کیونکہ حکمران طبقات سارا بوجھ عام جنتا کو منتقل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ تمام عالمی مالیاتی اداروں نے اس وقت تک پاکستان کے بارے میں رپورٹس شائع کی ہیں ان سے پاکستان میں ترقی کے سب اشاریے ہی تباہ و برباد نظر آتے ہیں۔ عالمی بینک نے اپنی حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں مزید ایک کروڑ لوگوں کے غریب ہوجانے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔اس وقت پاکستان میں مہنگائی کی شرح 25-30 فیصد کے درمیان چل رہی ہے جبکہ پاکستان کی معشیت کی نمو صرف اور صرف ایک اعشاریہ آٹھ فیصد ہے تو ایسے میں حکومت کے لیے لوگوں کی سفید پوشی کا بھرم کھل جانا کون سی بڑی بات ہوگی؟ کیونکہ جو تلخ اور ہلا دینے والے غربت میں اضافے کے عنصر بارے حقائق ہمیں عالمی مالیاتی اداروں نے بتائے وہ حقائق تو سٹیٹ بینک پاکستان ، وفاقی بورڈ آف ریونیو- ایف بی آر، محکمہ شماریات پاکستان اور وزرات خزانہ کو بہت پہلے بتانے چاہئے تھے اور اس پر شور مچانا چاہئیے تھا تاکہ حکومت اپنی مالیاتی پالیسیوں کو وہ رخ دے پاتی جس سے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو غربت کے سیاہ دریا میں غرق ہونے سے بچایا جا سکتا- عالمی بینک کی پاکستان کی دو سالہ ترقی بارے رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کی حکومتوں ( پی ڈی ایم، نگران اور اب منتخب حکومتیں) نے اس سال سارے کے سارے میکرو اکنامک اشاریوں (پاکستان کی معیشت کے تمام اہم اور بڑے شعبوں) کے لیے مقرر کردا اہداف ضایع کردیئے۔ کیا یہ کوئی حیران کردینے والا انکشاف ہے؟ نہیں، کیونکہ آپ کو مشکل سے پاکستان کے خزانے کی ٹیم کے منیجروں کی کوئی ایسی ملاقات ملے گی جس میں انہوں نے اپنے پیش کردہ بجٹ میں دیے کئے اہداف کو پورا کرنے کے لیے بہت زور لگایا ہو، جان ماری کی ہو یا ان میں سے کسی ایک نے ہدف پورا نہ ہونے پر ضمیر کی حلش پر استعفا دے ڈالا ہو۔ ایسے ہی اس سال بھی اکر کوئی معجزہ نہ ہوا تو رواں مالیاتی سال کے بجٹ کے اہداف بھی پورے نہیں ہوں گے اور یہ تیسرا سال ہوگا جب بجٹ خسارے میں جائے گا اور کرنٹ اکاؤنٹ کی مد میں حکومت نے 26 فیصد زیادہ اخراجات کر ڈالے ہیں جبکہ آئی ایم ایف ہر حکومت سے بجٹ کو سر پلس میں لیجانے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ صاف بات ہے پاکستان کے وزیر حزانہ محمد اورنگ زیب کی قیادت میں جب پاکستان کی معاشی ٹیم ائی ایم ایف سے ‘توسیعی فنڈ سہولت – ای ایف ایف کے لیے بات کرنے پہنچے گی اور بات چیت کے دوران لازمی آئی ایم ایف بجٹ کے خسارے کے تیسرے سال بارے اپنے تحفظات رکھے گا تو پاکستان کی نمائندہ ٹیم کے لیے یہ بڑا خجالت کا وقت ہوگا- پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو جمو خجالت عوام کے سامنے اٹھانی بنتی ہے وہ عالمی مالیاتی اداروں کے در پر جاکر اٹھاتے ہیں لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب اس خسارے والے بجٹ کے ساتھ ہوئے مذاکرات کے دوران ائی ایم ایف قرض دینے کے لیے جو پیشگی اور دوران اقساط شرائط رکھے گا وہ کسی بھی طرح سے نرم شرائط نہیں ہوں گی جن کے سب سے بڑے متاثرہ ایک بار پھر پاکستان کے عام آدمی ہوں گے اور مزید لوگ غربت کے خط سے نیچے گریں گے۔پاکستان کے ماہرین شماریات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غربت کی شرح کم ازکم 40 فیصد تو ضرور ہے اور جبکہ اس سے اختلاف کرنے والے اسے 60 سے 70 فیصد تک لیکر چلے جاتے ہیں۔ اب عالمی بینک کا یہ بتانا کہ ایک کروڑ مزید لوگ غریب ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں یہ بتاتا ہے کہ حالات جلد ٹھیک ہونے والے نہیں ہیں ۔اس وقت پاکستان کی جو مالیاتی پوزیشن ہے اسے دیکھتے ہوئے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس نہ تو کسی قسم کے غریب نواز رعایتی اسکیم کی گنجائش ہے اور نہ ہی یہ اپنے اللّے تللوں پر فضول خرج بند کرنے پر آمادہ ہے۔ جب تک پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچنے اور اپنے آپ کو عالمی اور مقامی سطح کے قڑضوں پر سود کی ادآئيگی اور اقساط قرضہ ادا کرنے کے قابل بنانے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت چلتا رہے گا اس صورت میں تو یہ ممکن ںظر نہیں آتا۔پاکستان کے معاشی نظام کے اندر جو امدن کا ٹیکس ریونیو سسٹم ہے وہ اس قدر ناقص اور خامیوں سے بھرا ہوا ہے کہ وہ اشرافیہ کو ٹیکسوں سے بالکل ہی چھوٹ دے ڈالتا ہے اور وہ عملی طور پر پاکستان کے خزانے پر بوجھ بن کر رہ گئے ہیں- ٹیکس سسٹم کی بنیاد ان دائریکٹ ٹیکسوں پر ہے جس نے غریبوں کا خون نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اور یہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے امیر کو کم اور غریب پر زیادہ بوجھ ڈالنے کا فلسفہ رکھتا ہے۔ اس کا کیا مطلب بنتا ہے؟ یہی نا کہ جیسے کزشتہ سال پاکستان کا ٹیکس سسٹم ژوید غربت بنا رہا تھا ، اب کے سال بھی یہ یہی پیداوار دیتا رہے گا- پاکستان کی معشیت غریبت کی پیداوار ميں خود کفیل ہونے کے درجے تک بس پہنچنے ہی والی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے پاکستان بارے معاشی تناظر صاف بتاتے ہیں کہ پاکستان کی معشیت میں ترقی اور نمو کی رفتار کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوگی، اشیائے ضرورت کی قیمتیں جڑھاؤ کا شکار رہی گی اور ایسے ہی افراط زر میں کسی طرح کی ماڈریٹ کمی بھی ان کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں لائے گی جیسا کہ ہم حالیہ مہینوں میں افراط زر میں معمولی کمی کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی نہ آنے سے دیکھ چکے ہیں۔اس سے صاف ںظر آتا ہے کہ غربت کے خاتمے کے لیے کچھ بھی عملی طور پر کرنے کو نہیں ہے اور حکومت کے پاس سوائے خاموش تماشائی بن کر غربت کے ثائم بم کی ٹک ٹک سنتے رہنے کے سوا کوئی اور راستا نہیں ہے کیونکہ اس حکومت میں اشرافیہ پر ٹیکس ریونیو کا 75 فیصد وصولی ممکن بنانے والے ٹیکس لگانے کے لیے دم خم ہی نہیں ہے۔عید سے محض 3 روز پہلے وزیراعظم پاکستان نے ٹاپ بیوروکریٹس میں بہترین کارکردگی بونس کے تقسیم کرنے کی منظوری دی جبکہ شہباز شریف نے سابقہ پی ڈی ایم حکومت دور میں ان ٹاپ بیوروکریٹس کی بنیادی تنخواہوں اور مراعات میں 45 فیصد اضافے کی منظوری دی تھی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں