ملتان(قوم ریسرچ سیل) ملتان کے ایک بااثر سیاسی ڈیرے کے حمایت یافتہ ریلوے ڈویژنل ایگزیکٹو انجینئر ناصر حنیف نے کاریگر اور مال بنانے کے ماہر آئی او ڈبلیو افسران کے ساتھ مل کر ڈی ایس آفس ملتان میں ایک ایسی مضبوط لابی قائم کر رکھی ہے جس نے پورے دفتر پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے میں ڈی ایس ریلوے ملتان اور سی ای او ریلوے لاہور بھی بے بس، لاچار اور مجبور کر د یئے گئے ہیں۔ناصر حنیف کی سرپرستی میں کام کرنے والے آئی او ڈبلیو افسران دفتر میں ہر سطح پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور “سیاہ و سفید کے مالک” سمجھے جاتے ہیں۔ ڈی ایس آفس ملتان سے ایک معتبر ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ ناصر حنیف نے اپنے قریبی عزیزوں آصف اور محمد حسین کے نام پر ریلوے ہی میں مختلف نوعیت کے ٹھیکے لے رکھے ہیںجن کی نگرانی بھی سرکاری طور کرنا صاحب موصوف ہی کی ذمہ داری ہے۔ ان ٹھیکوں میں قواعد و ضوابط پر عمل ہو یا نہ ہو مگر ٹھیکیداروں کے بل اعلیٰ افسران پر دباؤ ڈال کر منظور کرائے جاتے ہیں، علاوہ ازیں ناصر حنیف نے اپنے قریبی عزیزوں کو مختلف سیکشنز میں تعینات کروا رکھا ہے، جو گھروں میں بیٹھ کر بغیر ڈیوٹی کے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال محمد کاشف ہے جو ڈی ای این تھری ناصر حنیف کا قریبی عزیز ہے اور گیٹ کیپر تعینات ہے، مگر اس کی ڈیوٹی ایک ایسے بند ٹریک پر لگا دی گئی ہے جہاں عرصے سے کوئی ٹرین نہیں گزری اور ریکارڈ کے مطابق وہ بند ہے۔ نتیجتاً وہ گھر بیٹھے باقاعدگی سے تنخواہ لے رہا ہےاور نشاندہی کے باوجود ناصر حنیف نے رشتہ داری نبھاتے ہوئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دی۔ ناصر حنیف کے”کماؤ پوت” ملازمین جنہیں وہ تحفظ فراہم کرتے ہیں، ان میں محمد اظہر (آئی او ڈبلیو، بہاول نگر) منیر جوئیہ (ریلوے ملازم، بہاول نگر) محمد اختر (ہیمر مین، بہاولپور) عثمان اعجاز (سابق آئی او ڈبلیو، شیخوان) شامل ہیں۔ عثمان اعجاز، جو ناصر حنیف کی سرپرستی میں کام کرتا تھا، نے موضع غنی پور، چک 38 بی سی، اور بغداد اسٹیشن سے چشتیاں تک بند ٹریک پر اربوں روپے مالیت کی کمرشل و زرعی ریلوے اراضی پر ناجائز قبضے کروا رکھے ہیں اور پختہ تعمیرات کروا کر بھاری رقوم وصول کیں۔ ان تمام معاملات کی نشاندہی روزنامہ قوم نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کی، جس پر وزیر ریلوے حنیف عباسی کے حکم پر انکوائری شروع ہوئی۔ مگر اطلاعات کے مطابق ریلوے اراضی کا ریکارڈ غائب ہونے کا بہانہ بنا کر انکوائری کو “مینج” کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اسی طرح، محمد اظہر نے چک مدرسہ سے تخت محل، بہاول نگر میں ریلوے کوارٹرز پر ناجائز قبضے کروائے اور بھاری رقوم وصول کر کے اپنے گروپ کے ساتھ بندر بانٹ کی۔ منیر جوئیہ، چشتیاں سے منڈی صادق گنج تک ریلوے اراضی پر قابض افراد سے ماہانہ بھتہ وصول کرتا ہے اور اس کا کچھ حصہ سرکاری خزانے میں جمع کروا کر باقی اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ اختر ہیمر مین، لال سوہانرا، خیرپور، اور ڈیرہ بکھا جیسے علاقوں سے رقوم وصول کرتا ہے۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ ان تمام کرپٹ اہلکاروں کے خلاف متعدد شکایات اور محکمانہ شوکاز نوٹسز زیرِ التوا ہیں، مگر ناصر حنیف کی پشت پناہی کے باعث آج تک کسی کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی عمل میں نہیں آ سکی۔ ان الزامات پر میں ناصر حنیف نے اپنے موقف میں بتایا کہ ٹھیکے دینا کمیٹی کا کام ہے قبضوں کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں زیر سماعت انکوائریوں پر ڈی ایس اور سی او ریلوے ہی ملازمین کو سزا دے سکتے ہیں میرے اختیار میں یہ معاملات نہیں ہیں۔
