آج کی تاریخ

سیاسی عدم استحکام کا خطرہ کیسے ٹلے گا؟

سیاسی عدم استحکام کا خطرہ کیسے ٹلے گا؟

وفاق پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ نواز اور اتحادی جماعتوں کے مشترکہ نامزد امیدوار ایاز صادق کو اپنا اسپیکر منتخب کرلیا جنھیں 199 ووٹ ملے- ان کا مقابلہ سنّی اتحاد کونسل کے نامزد امیدوار عامر ڈوگر سے تھا جنہیں 90 ووٹ ملے۔ اگرچہ پارلیمانی جمہوریت کے تناظر میں یہ مثبت پیش قدمی ہے لیکن پھر بھی جمہوریت پسند حلقوں میں سے کئی ایک حلقوں نے خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے بارے میں الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے فیصلہ نہ کیے جانے پر قومی اسمبلی کے نامکمل ہونے کا سوال اٹھایا ہے اور اسے جمہوریت کی کمزوری قرار دیا ہے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں اس معاملے پر کہتی ہیں کہ اس کی ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف ہے۔
نومنتخب اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کہنہ مشق پارلیمانی سیاست دان ہیں اور وہ اس سے پہلے بھی قومی اسمبلی کے ایوان کو بطور اسپیکر(جون 2013-آگست2015) چلا چکے ہیں اور اس دوران ان کی کارکردگی اس اعتبار سے شاندار تھی کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کو دھرنے کے بعد واپس ایوان میں لانے کا انتظام اچھے طریقے سے کیا اور کئی ایک اراکین قومی اسمبلی کے پروڈکشن آڈرز بھی جاری کیے جبکہ ان پر غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ کی طرف سے زبردست دباؤ تھا- انھوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی اسپیکر قومی اسمبلی کی سیٹ سنبھالی تو سب کو ساتھ لیکر چلنے اور پورے ایوان کا اسپیکر ہونے کی بات کی- انہوں نے پاکستان اور عوام کی بھلائی میں ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کی دعوت دی- ان کی طرف سے خیر سگالی کا یہ مظاہرہ مثبت چیز ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے لیکن ہمیں افسوس سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے ، دوران اور بعد میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس نے پاکستان کی سیاست میں تلخی اور کڑواہٹ اسقدر گھول دی ہے کہ اب ایسے بیانات کی شیرینی سے اس کا مدوا ہونا ممکن نہیں لگ رہا- اگر سنّی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دے دیں جاتیں تو شاید معاملہ کسی طرح افہام و تفہیم کی طرف جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوسکا- ہم نے پی ٹی آئی کے دور میں بھی لکھا تھا کہ جب تک سیاسی بنیادوں پر ریاستی مشینری کا جانبدارانہ استعمال بند نہیں ہوگا اور سیاسی قیدی جیلوں میں پڑے رہیں گے اس وقت تک سیاسی مفاہمت کی نہیں ہوسکے گی- اس وقت بھی یہ حقیقت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سابق جیئرمین عمران خان، ان کی اہلیہ اور پی ٹی آئی سے وابستہ کارکنان کی اسیری اور ان پر مبینہ ناجائز مقدمات وہ بنیادی وجہ ہے جس سے سیاسی افہام و تفہیم کا عمل بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخابات میں جمعیتالعمائے اسلام-فضل الرحمان گروپ نے حصّہ نہیں لیا- جے یو ائی ایف، عوامی نیشنل پارٹی ، نیشنل پارٹی اور پشتون خواملی عوامی پارٹی نے بھی ساری انتخابی مشق پر ہی سوالیہ نشان کھڑے کیے ہیں- اس سے پہلے یورپی یونین، امریکی حکام ، عالمی ریٹنگز ایجنسیاں انتخابات کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں- ابھی حال ہی میں امریکی میں حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے 33 ڈیموکریٹس ممبران کانگریس نے امریکی صدر جوئے بائیڈن اور سیکرٹری اسٹیٹ ٹونی بلنکن کو اپنے دستخطوں سے ایک یاد داشت بھیجی ہے جس میں انھوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں نئی حکومت کو انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کی مکمل تفتیش ہونے تک تسلیم نہ کرے۔ امریکی طاقتور ایوان کانگریس میں حکمران پارٹی کے 33 اراکین کے دستخطوں سے جاری ہونے والی یاد داشت میں پاکستان کے اندر سیاسی اسیران کی بھی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سارے پس منظر سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف سمیت سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور ان کی تلخی کی بنیاد عالمی سطح پر بھی تسلیم کی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان سمیت پاکستان کے منتخب و غیر منتخب ہئیت حاکمہ /اسٹبلشمنٹ کو اس حوالے سے ایسے اقدامات اٹھانا ہوں گے جس سے اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے کا راستا ہموار ہوسکے۔

عام آدمی کے حال پہ رحم کب ہوگا؟

جس وقت پاکستان کی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پاکستان کی سیاسی اشرافیہ ایک دوسرے پر ملکی دولت کی لوٹ مار کے الزامات عائد کررہی تھی اور ایوان ایکدوسرے کے خلاف نعروں کے شور سے مچھلی بازار بنے ہوئے تھے ٹھیک اسی وقت وفاقی وزرات خزانہ نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر پاکستان کی ماہانہ معاشی رپورٹ جاری کی – اور اس سے اگلے دن حکومت پاکستان نے پٹرول کی قیمت میں 4 روپے 13 پیسہ اضافہ کرنے کا اعلان کردیا- ان دونوں اقدامات کے سب سے بڑے متاثرہ اس ملک کے عام آدمی بنے ہیں جن کی آمدن سے اب یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی غیرممکن ہوچکی ہے۔ اور ایک خبر یہ آرہی ہے کہ پنجاب میں کئی ایک گیس کے صارفین نے اپنے گھریلو گیس کنکنکش کٹوادیے ہیں-
وفاقی وزرات حزانہ نے جمعرات کو اپنی آفیشل ویب سائٹ پر ماہانہ معاشی رپورٹ اپ لوڈ کی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ پاکستان کی معاشی گروتھ میں سب سے بڑی روکاوٹ بلند ترین شرح سود اور حکومتی بجٹ میں گنجائش نہ ہونا ہے۔ وزرات خزانہ نے اس رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ایک طرف تو سرکاری بینک کی قائم کردہ بلند ترین شرح سود نے بینکوں سے پرائیویٹ بزنس سیکٹر کی طرف سے قرضے لیکر کاروبار کو بڑھانے کی شرح منفی اور صفر کردی ہے تو دوسری جانب سرکاری سطح پر قرضوں کے بڑھتے بوجھ نے سرکاری مالیاتی صحت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ حکومت نے آئی ایم ایف سے بھی مدد لی اور چین نے بھی 6 ارب ڈالر کا قرض رول اور کردیا ہے۔ ماہانہ اکنامک رپورٹ نے یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ جب تک شرح سود میں کمی نہیں ائے گی تب تک نجی کاروباری شعبہ کمرشل قرضے نہی؛ں لے گا اور نہ ہی وہ معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کرے گا- یہاں یہ سوال بھی اکنامک رپورٹ اٹھاتی ہے کہ اگر قرضوں کا بوجھ کم نہ کیا گیا اور شرح سود گرآئی نہ گئی تو ایکسپورٹ سے جڑی صنعت کی حالیہ ترقی پھر سے منفی ہوسکتی ہے۔ رپورٹ ان چیلنچز کے باوجود سست رفتار ہی سہی پھر بھی معشیت کی نمو بارے پرامید ہے۔
وفاقی وزرات حزانہ کی جانب سے پاکستان کی معشیت پر ماہانہ رپورٹ ہمیں باور کراتی ہے کہ پاکستان کی معشیت خراب حالات کے تھیپڑے کھا رہی ہے اور مشکلات کی منجدھار میں گھری ہوئی ہے۔ اور اس کا سب سے بڑا سبب انتہائی بڑھی ہوئی مانٹیری پالیسی اور سکڑاؤ پر مبنی مالیاتی پالیسی ہے۔ معشیت کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مانٹیری اور مالیاتی پالیسیوں کو کاروبار دوست بنانے کی ضرورت ہے جبکہ اس سے گروتھ کو بھی نقصان نہ پہنچے۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آئی ایم ایف سے کیا جانے والا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ، دوست ممالک کی طرف سے قرضوں کو رول اوور کرنے اور قریب قریب 6 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی سسہولت فراہم کرنے کے باوجود حکومت کی مانٹیری اور مالیاتی پالیسیاں مطلوبہ نہج پر گامزن کیوں نہ ہوسکیں؟ اور بیروی و مقامی قرضوں کا خوفناک حجم کم کیوں نہ کیا جاسکا؟ بلند شرح سود انتہائی بڑھے ہوئے افراط زر کا شاخسانہ ہے لیکن اس رجحان نے معشیت کو سکڑنے اور پھیلاؤ سے روک دیا ہے، اس کا کیا حل نکلے گا؟ کیا عنقریب مانیٹری کمیٹی کے اجلاس میں شرح سود کو نیچے لانے کا کوئی قدم اٹھائے گی؟ کیونکہ اس سے معشیت کو سانس لینے کا موقعہ ملے گا جب سرمایہ کاری بڑھے گی ، کاروبار اور صارفین پر بوجھ بھی کم ہوگا-
اس وقت سٹیٹ بنک کے مقرر کردہ 22 فیصد شرح سود نے سرمایہ کاری اور قرض کی دستیابی پر روک لگا کر رکھی ہوئی ہے اور اس سے مڈل کلاس میں بینکسے لیزنگ اور کنزیومر سروس حاصل کرنے کا رجحان بھی صفر ہوچکا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کے ایکسپورٹ سیکٹر میں کچھ بہتری دکھائی گئی ہے جو پاکستان کی معشیت کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔ حکومت کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ ایکسپورٹ انڈسٹریز کی بحالی اور نئی کے قیام میں مدد دے جس سے معاشی ترقی تو ہوگی اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زرمبادلہ میں بھی اضافہ ہوگا اور اس سے ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی –
اس رپورٹ میں افراط زر کے مسلسل ڈبل ڈیجٹ پر رہنے کی نشاندہی کی گئی ہے اور اسے پاکستانی معشیت کا کافی عرصے سے برقرار رہنے والا پریشان کن رجحان مانا گیا ہے۔ کیا اس پر قابو پانے کا کوئی منصوبہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی ایڈمنسٹریشن کے پاس ہے؟ کیا نئی حکومتیں اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی فول پروف حکمت عملی تیار کرپائیں گی؟ یہ اپنے تئیں بہت بڑے سوالات ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں مل جائیں گے۔
ماہانہ معاشی رپورٹ میں بیان کردہ حقائق سے ہٹ کر بھی پاکستان کی معشیت بارے کئی ایسے متقل پہلو ہیں جن پر نظر ڈالے بغیر پوری تصویر سامنے نہیں ائے گی:
معشیت کے لیے سیاسی استحکام اشد ضروری ہے جو کہیں سے قائم ہوتا نظر نہیں آرہا- اس وقت جو پی ڈی ایم ٹو ہے وہ حکومت بنانے جارہا ہے اور اس حکومتی تشکیل کے پراسس کو سنّی اتحاد کونسل عرف پی ٹی ائی شدیید تورین چیلنج دے رکھا ہے اور یہ بات ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اس وقت ملک میں عام تاثر اور رائے یہی ہے کہ نئی حکومت عوام کے ووٹوں سے کہیں زیادہ سول اور فوجی بابوؤں کی انجنئرنگ کا نتیجہ ہے اور اس نے حکومت کی باقاعدہ تشکیل سے پہلے ہی اس کے ‘جواز کو چیلنج کردیا ہے۔ لیکن کمزور سیاسی حکومت کی تشکیل سے پہلے پی ڈی ایم کی سولہ ماہی حکومت اور اس کے بعد نگران حکومت کے دور میں تو نظام کے سب اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر تھے اور پالیسی ساز فیصلوں میں کہیں کوئی روکاوٹ موجود نہیں تھی تب بھی یہ سارے اسٹیک ہولڈر مل کر توانائی کے شعبے میں بھاری گردؤی قرضوں کے کمر توڑ بوجھ کو یہ ہلکا نہ کرسکے، کیوں؟ اور گردشی قڑضوں کے بوجھ سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لیے بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں ‘وحشیانہ اضافے کیے گئے۔
دوسری طرف ‘ہائبرڈ سسٹم طاقتور عناصر نے پاکستان کے موجودہ ٹیکس ڈھانچے کی اصلاح کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھایا اور یہ ٹیکس سسٹم ‘مہا امیروں کے حق میں تھا اور ابھی تک ہے۔ اور ابھی تک غریب اور متوسط طبقات پر سارا بوجھ ڈالنے واے بالواسطہ ٹیکسز ہی نافذ کیے جارہے ہیں اور یہی حکومتی آمدنی کا بڑا زریعہ ہیں- بجٹ کا زیادہ حصّہ اب بھی اشرافیہ پر حرچ ہورہا ہے۔ اور آئی ایم ایف کے دو ّروگرام جو 2019-2023 کے درمیان تھے وعدہ کے باوجود 99 فیصد سبسڈیز اشرافیہ کو ہی دی جاتی رہیں- ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ امید کی جاسکے گی کہ نئی منتخب اور غیر منتخب اسٹبلشمنٹ مل کر توانائی سیکٹر اور ٹیکس سسٹم میں درکار ضروری اور اشد اصلاحات کو بروئے کا لائی جاسکیں گی؟

شیئر کریں

:مزید خبریں