عام انتخابات کے انعقاد کے چوتھے روز پاکستان کی سیاست کا آسمان ابر آلود ہی ہے۔ روشنی کی کرن تاریک ترین سرنگ کے آخری کونے سے بھی نظر نہیں آ رہی۔ پاکستان تحریک انصاف نے مرکز میں مجلس وحدت المسلمین- ایم ڈبلیو ایم اور صوبہ خیبر پختون خوا میں جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے مرکزی صدر میاں محمد شہباز شریف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آزاد امیدوار حکومت سازی کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کی جماعت مرکز میں حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھے گی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک پریس کانفرنس کے زریعے قوم کو بتایا ہے کہ ان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ کے دور روز جاری رہنے والے اجلاس میں بڑے بحث و مباحثے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان کی جماعت وفاق میں حکومت سازی نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی کے اتحاد میں مرکزی حکومت کا حصّہ بنے گی- لیکن ملک کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے وزیراعظم کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت سے چونکہ صرف پاکستان مسلم لیک نواز نے حکومت سازی کے لیے رابطہ کیا اور پی ٹی آئی نے رابطہ نہیں کیا تو ان کی جماعت محض رابطہ کرنے والی جماعت کے امیدوار کی حمایت کرے گی- انھوں نے پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کے لیے دوسری جماعتوں سے مذاکرات کرنے کے لیے اپنی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں پر مشتمل ایک مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ پاکستان کی وفاقی پارلیمانی سیاست کے اہم ترین تین بڑی کھلاڑی جماعتوں کی قیادت کے حالیہ اعلانات سے صاف لگ رہا ہے کہ وفاق میں نئی حکومت کی تشکیل کا معاملہ ابھی تک کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اس کھیل میں سب سے اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے ‘صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں’ کہاوت پر عمل کیا ہے۔ اس نے نہ تو نئی حکومت کے تشکیل نہ پانے کا الزام اپنے سر لینے کا فیصلہ کیا اور نہ ہی ایسی حکومت جسے آنے والے دنوں میں انتہائی غیرمقبول فیصلے لینے اور عوام کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا ہے کا حصّہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ نواز اس سارے کھیل میں واحد جماعت ہے جس کے اسٹیک سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں- اگر وہ وفاق میں حکومت کی تشکیل کی طرف نہیں جاتی تو لامحالہ وفاق میں سب سے قرین قیاس بات یہ ہے کہ نئی حکومت نہیں بنے گی اور معاملہ نئے انتخابات کی طرف جآئے گا- اور ایسی صورت حال میں پنجاب کے اندر حکومت کی تشکیل کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑے گا- اگر وہ حکومت ساوی کی طرف جاتی ہے تو محض پہلے دو سالوں میں اسے بدترین فیصلے کرنے کے سبب اپنی سکڑتی ہوئی حمایت کو اور کم ہوتا دیکھنا ہوگا- یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف وزیراعظم کے امیدوار بنتے بھی نظر نہیں آرہے انھوں نے یہ بوجھ میاں محمد شہباز شریف کے کاندھوں پر ہی ڈال دیا ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے اگرچہ قومی اسمبلی کی ایک نشست رکھنے والی ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ مل کر وفاق میں پارلیمانی اتحاد بناکر وفاقی حکومت کی تشکیل کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے کم از کم یہ تو طے ہوگیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ سے باہر اسٹریٹ سیاست کی بجائے پارلیمنٹ کے اندر رہ کر کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آغند فیصلہ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اگر پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور آزاد امیدواروں کی حمایت سے وفاق میں حکومت بنانے کی طرف جائے گی اور پیپلزپارٹی کی حمایت حکومتی معاملات چلانے میں مشروط ہوگی تو ایسی حکومت کو چلانا پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیے کوئی آسان کام نہیں ہوگا- اس طرح کی حکومت کی تشکیل کے لیے پاکستان مسلم لیگ نواز کو آزاد امیدواروں میں سے بھی کم کم از کم 30 سے 40 اراکین قومی اسمبلی کی حمایت درکار ہوگی اور پاکستان مسلم لیگ نواز ان ازاد امیدواروں کے رحم وکرم پر ہوگی- کیا پاکستان مسلم لیگ نواز مرکز میں ایک کمزور اور نحیف پوزیشن کے حکومت کرنے پر راضی ہوگی؟ اور دوسرا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر مرکز میں پاکستان مسلم لیگ نواز کمزور حکومت کے ساتھ برسراقتدار آئی تو کیا یہ اپنے منشور کے مطابق اصلاحات لاسکے گی؟ ان میں سب سے اہم اور بنیادی کام ریاستی انٹرپرائز کی ری اسٹرکجرنگ اور بیمار کاروباری اداروں کی نجکاری ہے۔ حکومت کی تشکیل کے فوری بعد اسے پی آئی اے، ہوائی اڈوں کی نجکاری کے معاملے کو دیکھنا ہوگا جس کی ایس ایف آئی سی سے منظوری ہوچکی ہے۔ کیا پاکستان پیپلزپارٹی اس کی اجازت دے گی؟ تیسری اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اگر ایم کیو ایم کی بیساکھیاں کاستعمال کرے گی تو وہ ایم کیو ایم کی سندھ کے شہری علاقوں کے حوالے ایسے مطالبات جن پر پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو شدید ترین اعتراضات ہوں گے ان کو کیسے منظور یا رد کرے گی؟ پاکستان تحریک انصاف جو 100 سے زائد
آزاد اراکین قومی اسمبلی کی حمایت کا دعوا کرتی ہے۔ اس کی جانب سے وفاق میں حکومت سازی کی تشکیل کا دعوا قرین قیاس نہیں لگ رہا ہے۔ وہ پاکستان پیپلزپارٹی یا پاکستان مسلم لیگ نواز کی حمایت کے بغیر وفاق میں حکومت تشکیل نہیں دے پائے گی- جبکہ ان کی پارٹی کے سابق چیئرمین عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں وضاحت دی ہے کہ وہ پی پی پی یا پاکستان مسلم لیگ نواز کے ساتھمل کر حکومت نہیں بنائیں گے۔ اس ساری صورت حال سے فی الحال تو امکان ایک ہے کہ پاکستان مسلم ليگ نواز وزیراعظم کا امیدوار لیکر آئے۔ ایک بات اور طے ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نواز لیگ کی وفاق میں حمایت کے بدلے قومی اسمبلی میں اسپیکر، صدارت ، سینٹ کی چیئرمین شپ ، کئی ایک اہم اداروں کی سی ای او شپ جیسے مطالبات رکھے گی – ان مطالبات پر کامیاب مذاکرات بھی پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہوں گے۔ پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا مطلع ابر آلود ہی ہے اور بحران کی سنگینی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس غیریقینی صورت حال میں پاکستان کی جو اس وقت کی معاشی صورت حال ہے وہ بھی ہر لحاظ سے بدترین ہے۔ ماہرین معشیت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سیاسی مطلع کے ابر آلود رہنے کے سبب پاکستان کی معشیت کے ڈوب جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں- بلوم برگ سمیت اہم ترین بین الاقوامی اداروں کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق پاکستان اس وقت عالمی سطح پر زوال کی انتہائی سطح کو چھونے والی معشیتوں میں سے ایک ہے۔ معشیت کے جتنے بڑے میکرو اکنامک اشاریے ہیں وہ خطرے کے نشان کو چھو رہے ہیں- مجموعی گروتھ ریٹ اس وقت 2 فیصد ہے اور آکے جل کر یہ اور کو ہوسکتا ہے۔ افراط زر 28 فیصد سے زائد ہے۔ بے رززگاری پاکستان کی آبادی کے حساب سے 47 فیصد ہے جو مجموعی اعتبار سے 8 فیصد ہے اور یہ خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بہت زیادہ ہے۔ غربت کے سبب کزشتہ سال پاکستان کے پونے پانچ لاکھ بچے موت کا شکار ہوگئے – پاکستان کی معشیت پر مقامی اور بیرونی قرضوں کا حجم اس قدر زیادہ ہوچکا ہے کہ وفاق کے پاس درجہ چہارم کے ملازم کی تنخواہ بھی بغیر قرض لیے دینا ممکن نہیں رہا ہے۔ وفاق کی مالیاتی پوزیشن کی حالت یہ ہے کہ اس کی کل آمدنی صوبوں کو شئیر، پنشنز اور لیے گئے قرضوں پر سود کی اقساط ادا کرنے میں خرچ ہوجاتی ہے۔ اور ٹیکسز کے باہر جو حصّہ ہے اسے اندر لانے کی کوشش تو سابقہ حکومتوں نے کی ہی نہیں ۔ موڈی انویسٹرز سروسز کے انتباہ کہ نئی حکومت کا انتخاب پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے جس کا سامنا “ادائیگیوں کے نازک توازن، کمزور نمو اور بلند افراط زر کے ساتھ انتہائی مشکل معاشی میکرو اکنامک حالات” کے ساتھ ہے اور اس نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس جانب توجہ دینے کو کہا ہے۔پاکستان کی اسٹاک ایکسچینج 3ء8 پوآئنٹس گری ہے۔ پاکستان بانڈز 7 سینٹس سے 85 سینٹس تک گرے ہیں- جبکہ عالمی زرایع ابلاغ اور یورپی و امریکی حکومتوں نے حالیہ بے یقینی کی فضا پر اعلانیہ تبصرے کیے ہیں- تین دوست ممالک خاص طور پر چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے حالیہ انتخابی تجربے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور انہوں نے موجودہ صورت حال کو کسی بھی اعتبار سے حوصلہ افزا قرار دینے سے احتراز برتا ہے – یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ اربوں ڈالر کی پارکنگ کے ذریعے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط کیا ہے اور بجٹ میں معاونت کے وعدوں کے ساتھ توسیع کی ہے۔گزشتہ سال پاکستان کی سب سے برآمدی منڈی یورپ اور امریکہ تھے ۔ جبکہ مستتقبل قریب میں 20 ارب سے 25 ارب ڈالر کی پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کی توقع بھی انہی ممالک سے کی جارہی ہے۔ پاکستان میں ابتک ترسیلات زر کی جو تفیصل ہے اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ اس میں امریکہ سے 19 فیصد، یورپی یونین سے 11ء14 فیصد، برطانیہ سے 14ء19 فیصد ہے۔ اس کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کے بورڈز اف ڈائریکٹرز ہیں وہ یورپ اور امریکہ کی حکومتوں کے زریعے سے ہی بنتے ہیں اور ایسے ہی ایشیائی ترقیاتی بینک اور چاپان کے ڈونرز اداروں پر بھی امریکہ اور یورپ بہت اثر انداز ہیں اور قڑض کی ایکویٹی اور سکوک بانڈز کے اجرا کا انحصار بھی مغرب پر ہی ہے۔ اور یہ سب کے سب عالمی ریٹنگ ایجنسیوں پر بہت انحصار کرتے ہیں- جبکہ تین بڑی عالمی ریٹنگ ایجنسیوں کے ہیڈ کوارٹر بھی وہیں ہیں- گزشتہ مالی سال پاکستان کی بڑی برآمدی منڈی میں امریکہ کا حصہ 19 فیصد تھا، اس کے بعد جرمنی کے لیے مشترکہ طور پر 17 فیصد، سپین، اٹلی اور فرانس اور برطانیہ 7 فیصد تھا- اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے سیاسی مطلع بارے خدشات کا اظہار پاکستان کی معشیت پر کیا اثرات مرتب کرسکتا ہے۔اس وقت پاکستان کو جو 6 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے ملنا تھے وہ نہیں ملے ہیں کیونکہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی ریٹنگ اپ گریڈ نہیں کی ہے۔ آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کے لیے اس اپ گريدیشن کی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کی حکومت نے جتنے قڑصے لیے ہییں ان میں مقامی قرضوں کا حجم 90 فیصد بڑھ چکا ہے جو بذات خود ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کا جو گردشی قرضہ وہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کی ایکسپورٹ انتہائی نچلی سطحوں پر ہے۔پاکستان کی معاشی ابتری کا یہ سرسری سا جائزہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ نئی منتخب حکومت کتنے بڑے چیلنچز سے نبرد ازما ہوگی اور اسے کتنے بڑے فیصلے لینے ہوں گے- اس معاملے کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے سیاسی مطلع کا ابر آلود رہنا انتہائی خطرناک ہے۔ اس سے پاکستان میں پہلے سے موجود سرمایا بھی فرار ہوسکتا ہے۔ حال ہی میں ایک موقر انگریزی اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ میں یہ ہوش ربا انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کے تین سو سے زیادہ بڑے سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ اور کاروباری فرموں کے ہیڈ آفس متحدہ عرب امارات میں منتقل کرلیے ہیں اور پاکستان سے بہت بڑی تعداد میں سرمایہ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں لگایا گیا ہے۔ جب مقامی سرمایہ کاروں کے اندر پاکستان کی معشیت کے بارے میں بداعتمادی پھیلی ہوئی ہے تو بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کیسے لیکر آئیں گے؟ ایسے میں پاکستان کی بنی سرمایہ کاری سہولت کار کونسل – ایس ایف آئی سی نے جو دعاوی کیے تھے ان کے شرمندہ تعبیر ہونے کا امکان بھی سر دست نظر نہیں آرہا۔پاکستان کی سیاست کے اہم ترین اسٹیک ہولڈرز اور غیر منتخب ہئیت مفتدرہ میں اہم مناصب پر فائز افراد کے درمیان اس وقت جو فاصلے اور خلیج ہے اس کا براہ راست اثرات پاکستان کی معشیت پر پڑ رہا ہے جو پہلے ہی اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ چاہے وہ منتخب ہے یا غیر منتخب وہ اپنے مفادات عاجلہ کو ابھی تک بالائے طاق رکھنے کو تیار نہیں ہے اور ‘طالع آزمائی ‘ عروج پر ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں وفاق غیر مستحکم ہے۔ ان سب کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے اور پاکستان کی عوام کو امید کا پیغام دینا ہوگا۔
