(میاں غفار )روزنامہ قوم ملتان۔۔۔ منگل 15 اکتوبر 2024 کار جہاں۔
قسط اول
میرے دفتر کا کمرہ لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ دونوں فریق موجود ہیں۔ ایک فریق اکیلی عورت پر مشتمل ہے، جبکہ دوسرے فریق کیلئے اضافی کرسیاں بھی کم پڑ گئیں تو کچھ لوگوں کو کمرے کے کونوں کھدروں میں کھڑے ہونا پڑا۔ معاملہ سود خوری کا تھا۔ میز پر وہ قرآن مجید پڑا تھا جسے ترجمے کے ساتھ پڑھا جانا معمول ہے۔ سود خور گینگ کی ڈسی ہوئی نورین ناصر چیک ڈس آنر میں جیل بھی جا چکی ہے اور آئے روز ملتان کے کسی نہ کسی تھانے میں کسی نہ کسی بدبخت سود خور کی جھوٹی درخواستوں کا سامنا کر رہی ہوتی ہے۔ سود خوروں کے خلاف چونکہ میں نے کئی سال مہم چلائی اور سینکڑوں متاثرین کو اللہ کے کرم سے سود خوروں سے نجات دلائی لہذا سود خوروں سے لٹنے والے رابطہ کرتے رہتے ہیں۔ دونوں فریقین کے سامنے میں نے شرط رکھی کہ بات قرآن مجید کی سود سے متعلقہ آیات پر حلف سے شروع ہو گی۔ باوضو نورین ناصر اٹھی، اس نے قرآن کی مخصوص آیات پر ہاتھ رکھا۔ کلمہ شہادت پڑھا اور اپنے ساتھ ہونے والی ظلم اور دھوکے پر مشتمل طویل داستان سنا ڈالی۔
یہ ایسا انوکھا سود خوری کا کیس میری زندگی میں سنا جا رہا تھا جس میں نورین ناصر نامی خاتون سے ایک روپیہ بھی سود کی مد میں نہیں لیا تھا بلکہ وہ صرف کمیٹیاں ڈالتی تھی مگر 26 لاکھ سود کی مد میں دے چکی تھی۔ یہ بہت طویل کہانی ہے کہ سود خور مولوی ندیم سپل کی سود خور اہلیہ شازیہ نے کیسے نورین کو سود میں پھنسایا اور کیسے اس سے پلاٹ خریدنے کے بہانے چیک لئے۔ اب باری تھی ملاں ندیم سپل نامی قسطوں کے کاروبار کی آڑ میں سود خوری کرنے والے چوک کمہارانوالہ کے سودخور تاجر ملاں ندیم سپل کے حلف اٹھانے کی، اسے کہا گیا کہ وضو کر لیں تو کہنے لگے میں وضو سے ہوں، پھر انہوں نے قرآن مجید کی انہی آیات پر ہاتھ رکھا جو سود سے متعلقہ ہیں، ندیم سپل نے برحلف طویل بیان لکھوایا جسےحرف بہ حرف لکھ لیا گیا۔ تفصیل اس کالم کی اگلی قسط میں لکھوں گا فی الحال یہ بتا رہا ہوں کہ میں نے قرآن مجید کا جو معجزہ اور انصاف اپنی آنکھوں سے کئی افراد کی موجودگی میں دیکھا، اس نے میری زندگی میں مزید قوت پیدا کر دی ہے اور میرے ایمان کی تجدید کر دی ہے۔ سود خور ملاں ندیم سپل کی قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر حلف دینے کے بعد چند ہی منٹوں میں حالت غیر ہو گئی میرے آفس کے کمرے میں تیز چلنے والے اے سی کے باوجود وہ پسینے سے شرابور ہو گئے۔ ان کے ہاتھ کانپنے لگے اور زبان میں لکنت آ گئی۔ ایک ہٹا کٹا صحت مند نوجوان سود خور جس کی چار بیویاں اور 16 بچے ہیں، صرف تین منٹ میں ایسا مٹی کی ڈھیری ثابت ہوا کہ اسے دو افراد نے بمشکل سہارا دے کر صوفے سے اٹھایا۔ اس کے ساتھ آنے والے جتھے میں سے پھر کسی کو برحلف سود خور کی صفائی دینے کی جرات نہ ہوئی۔ قرآن مجید کا معجزہ سب کے سامنے تھا۔ اس کا ایک جتھے دار بولا کہ ملاں ندیم سپل کہیں ڈپریشن میں خودکشی نہ کرے تو کمرے کے ایک کونے سے آواز ابھری، بیویوں کو استعمال کرکے سود خوری کرنے والے خود کشیاں نہیں کیا کرتے۔ پھر ندیم سپل گزشتہ جمعہ 3 بجے بمعہ ثبوتوں کے ساتھ آنے کا وعدہ کرکے فرار ہو گیا اور اب نہ وہ مل رہا ہے نہ اس کے جتھے دار اور نہ ہی اس کا وکیل صفائی۔
کیا ہم سب نے نبی کریم ؐ کا فرمان نہیں سن رکھا کہ میری بیٹی فاطمہ (جی ہاں خاتون جنت اور اعلیٰ ترین بیٹی کہ جن کو اپنے اعلی ترین اور عظیم عظیم والد کی وفات کے بعد سب سے پہلے ملاقات کی بشارت دی گئی) بھی چوری کرے تو اس پر بھی حد نافذ ہو گی۔ ہم کس طرح کے امتی ہیں۔ زندگی گزر گئی عملی زندگی میں دہائیاں بیت گئیں۔ حسرت ہی رہی کہ کبھی سچ اور حق کے ساتھ بھی لوگوں کے اسی طرح جتھے آئیں جس طرح قبضہ مافیا، اوباشوں اور سود خوروں کی حمایت میں ان کے علاقے کے نامی گرامی ’’معززین‘‘ اور “نیک نام” سیاستدان آتے ہیں۔ کوئی میرٹ پسند اور عوام کو ریلیف دینے والا آفیسر ٹرانسفر ہو تو خاموشی سے چلا جاتا ہے اور کوئی “کاریگر خدمت گار اور منظور نظر” ٹرانسفر ہو تو منتخب نمائندوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، پھر اراکین اسمبلی کا ہنگامی جتھہ ترتیب پاتا ہے اور اس محکمے کے اعلیٰ ترین آفیسر کا گھیراو کر لیتا ہے، چھائونی ڈال کر بیٹھ جاتا ہے اور آرڈر لے کر ہی وہاں سے اٹھتا ہے ۔ بارہا یہ منظر دیکھے کہ کوئی ماتحت فائل لے کر اپنے باس کے کمرے کے باہر حالت انتظار میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے مگر تاجروں، سول سوسائٹی اور سیاستدانوں کے جتھے دروازے کھول کر ساری ہی کرسیاں گھیر لیتے ہیں کمرے کے اندر یہ چائے اور کافی کے منتظر ہوتے ہیں اور انہیں اسی انتظار کی آڑ میں گپ شپ کا طویل وقت میسر ہو جاتا ہے جبکہ چند جملوں میں اپنا مدعا بیان کرنے والے باہر انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے شریف شہری اور ماتحت شرف بازیابی کے منتظر ہوتے ہیں۔
کیا ہماری عدلیہ کے ججوں کو علم نہیں کہ ان کا عملہ سود خوروں کا سہولت کار ہے۔ ہزاروں افراد کو زندگی بھر کٹہرے میں کھڑے کرنے والے جب خود روز محشر کٹہرے میں رب کائنات کے سامنے کھڑے ہوں گے اور اپنے اعمال نامے دیکھ رہے ہوں گے کہ ان کے قلم سے کتنے سود خوروں نے سہولت پائی اور انہی کے ساتھ بیٹھے عملے نے کس طرح سود خوروں کا ساتھ دیا۔ کیوں کر انہوں نے منی لانڈرنگ ایکٹ کو پس پشت ڈالے رکھا؟ وہاں تو کرسی کی رعونت اور تکبر کی بھی خوفناک حد تک نیگٹو مارکنگ ہوں گی۔
کیا ہر پولیس آفیسر سود خوروں کیخلاف منی لانڈرنگ ایکٹ سے آگاہ نہیں؟ اگر ہے تو پھر وہ سود خوروں کی طرف سے حاصل کئے گئے بلینک چیک پر دستخطوں، چیکوں کی سیریز نمبر اور ہیڈ رائٹنگ پہچان کیوں نہیں سکتا؟ وہ کس بات کا پولیس آفیسر ہے؟ کیا پولیس آفیسرز آگاہ نہیں کہ وہ سود خوروں کا ساتھ دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ اور ساتھ ہی وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ میں دانستہ شریک ہو رہے ہیں ۔ کیا انہیں علم نہیں کہ سود خوروں کی سہولت کاری کرنے والا، سود خوری کی تحریر لکھنے والا، ترغیب دینے اور معاونت کرنے والا، سب بدترین درجے کے گناہ گاروں میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہاں مگر انہیں سمجھ لینا ہو گا، جان اور مان لینا ہوگا کہ وہ دھتکارے جا چکے ہیں۔ ان کی عقل و خرد پر پردہ پڑ چکا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں، سنتے ہیں جانتے اور مانتے ہیں مگر حق کا ساتھ دینے کی توفیق ان سے چھین لی گئی ہے، اور اس سے بڑھ کر کوئی انسان اور کیا دھتکارا جا سکتا ہے ( جاری ہے)