آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

سچا یاراں (آخری قسط)

تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری

دوسرے دن صبح 10 بجے مظفر آباد سے وادی نیلم کے مقام کیرن کی طرف روانہ ہوئے اعجاز نے کیرن میں رہائش کا انتظام کر رکھا تھا۔ میں دو سال پہلے اعجاز شفیع ڈوگر اور طاہر مسعود صاحب دونوں ریٹائرڈ ایس پی پولیس ہیں کے ہمراہ آزاد کشمیر جا چکا تھا اس وقت چوہدری مقبول گجر جوPTI کی حکومت میں آزاد کشمیر کے وزیر تھے ہمارے میزبان تھے۔ وادی نیلم میں ہم کپل تک گئے اور رات کیرن میں ہی گذاری تھی۔ رتی گلی جھیل کا پروگرام موسم کی ’’بے وفائی‘‘ اور اعجاز شفیع ڈوگر کی سہل پسندی کی وجہ سے نہ بن سکا۔ اس دفعہ اعجاز رتی گلی جھیل کا پروگرام پہلے ہی بنا چکا تھا۔ کیرن میں رات کو محفل شب کیلئے سامان راحت کا عتیق خان نے انتظام کیا ہوا تھا۔ خالد محمود اور اعجاز محفل شب میں شرکت کے باوجود سامان راحت سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ دو تین گھنٹے کی محفل میں عتیق خان، کمال سرمرو نے خوب رنگ جمایا اور میں نے بھی بھر پور ساتھ دیا۔
اگلی صبح ناشتہ کے بعد رتی گلی جھیل کیلئے رخت سفر باندھا ۔ رتی گلی جھیل کے بارے میں بہت عرصہ پہلے مستنصر حسین تارڑ کا سفر نظر گذرا تھا۔ جس میں اس جھیل کے بارے میں تفصیل سے لکھا گیا تھا۔ کیرن سے 18 کلو میٹر کا پہاڑی ٹریک ہے جو تقریباً 3 سے 4 گھنٹے میں بیس کیمپ رتی گلی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ بیس کیمپ سے رتی گلی جھیل تک پیدل یا گھوڑوں پر جانا پڑتا ہے۔ کیرن تک تو جیپ پر ہی مقامی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنا پڑتا ہے۔ عام ڈرائیور کیلئے اس ٹریک پر گاڑی چلانا مشکل ہے ایک جیپ پر ہم پانچ ’’نوجوان‘‘ اور ایک اعجاز کا مدد گار سوار ہوئے تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اگلی دو نشستوں پر کون بیٹھے گا وزن کے معاملہ میں تو کافی زیادہ خود کفیل ہوں مگر کمال سومرو صاحب رنر اپ ٹھہرے۔ ہم دونوں اپنے وزن کے طفیل اگلی سیٹوں کے حقدار ٹھہرے، باقی چار کو پچھلی ’’سیٹ نصیب‘‘ ہوئی یہ ٹریک کافی دشوار گذار ہے۔ پچھلی سیٹ والوں کو اچھل کی سہولت وافر مقدار میں دستیاب ہو رہی تھی۔ عتیق خان نے شائستہ اور غیر شائستہ زبان میں ہم دونوں کی خوب خاطر تواضع کی۔ اعجاز میزبان ہونے کی وجہ سے صبر کرنے پر مجبور تھا اور خالد کو اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے صبر کی نعمت سے نواز رکھا ہے۔ ہماری جیپ ویسے ہی کافی سست روی کا شکار رہی۔ اللہ اللہ کر کے جب بیس کیمپ پہنچے۔ بیس کیمپ سے جب گھوڑوں کے بندوبست کا مرحلہ آیا تو اس دن لوگ کافی تعداد میں جھیل دیکھنے آئے ہوئے تھے اور گھوڑے فوری طور پر دستیاب نہیں تھے۔ جب دو گھوڑے ملے تو ان کے مالکان نے مجھے دیکھتے ہی کہا اس بندہ کو سوار کرایا تو گھوڑا بیٹھ جائیگا یا مر جائے گا۔
عتیق خان تو پہلے ہی میرے اور کمال سومرو موٹاپے پر تبرہ بھیج رہا تھا۔ اللہ دے اور بندہ لے والا حساب میرے ساتھ ہوا۔ کمال سومرو کی موٹاپا کیونکہ ایک ہی توازن سے یعنی اوپر سے نیچے تک ایک جیسا ہے اور میرا پیٹ مجھ سے ہمیشہ ایک ڈیڑھ فٹ آگے رہتا ہے اس لیے عتیق خان اور ہمرائیوں نے مجھے اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ آخر اللہ اللہ کر کے ایک گھوڑے کا مالک مجھے جھیل لے جانے کیلئے تیار ہو گیا۔ عتیق خان اور دوسرے دوستوں نے گھوڑے کی سلامتی کیلئے دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ آخر کار میں رتی گلی جھیل کا نظارہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے پہلے بھی 1991ء میں گلگت سے سکردو کا سفر کیا ہوا تھا اور 1999ء میں دیو مائی بلین اور وشیو ویلی کا کے مشکل ترین ٹریک پر سفر کیا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ چڑھائی سے زیادہ مشکل اترائی کا سفر ہوتا ہے۔
رتی جھیل سے واپسی پر گھوڑے کی سواری واقع مشکل تھی توازن رکھنا بہت مشکل تھا۔ میں ایک ہاتھ گھوڑے کی زین کو پکڑ کر پیچھے کی طرف لیٹ گیا اور خدا خدا کر کے بیس کیمپ پہنچا تو عتیق خان اپنے ساتھیوں سمیت میرے استقبال کیلئے موجود تھا۔ میرے فوٹو کھینچ کر۔ گھوڑے کے زندہ سلامت پہنچ جانے پر دوستوں نے رب کا شکر ادا کیا اورہمارے رتی گلی جھیل کا ہیرو مجھے لے جانے اورواپس لے آنے والا گھوڑا قرار پایا۔ میرے گھر واپس پہنچ جانے کے باوجود عتیق نے پیچھا نہیں چھوڑا اور مجھے سرخ رنگ کے گھوڑے کی تصویر بھیجی کہ چوہدری وہ گھوڑا مر گیا ہے۔ چند دن بعد پھر کسی سرخ گھوڑے کے مردہ تصویر بھیجی اور کہا کہ مر گیا وہ گھوڑا جب میں فون پہ کہا تھا۔ وہ تو پہلے مر گیا تھا تو کہنے لگا اس وقت بے ہوش ہوا تھا۔ ڈنگر ڈاکٹر کے علاج کے بعد ہوش میں آ گیا تھا۔ مگر اب واقع ہی مر گیاہے۔ رتی گلی جھیل سے واپسی پر محفل شب میں میں نے خالد کی آنکھوں میں اپنے بارے میں پریشانی اور بے بسی کا خاموش منظر دیکھا۔ جسے میں ابھی تک نہیں بھلا سکا۔ مجھے گھر والے اور ملتان کے دوست اضافی وزن کی توجہ دلاتے رہتے تھے۔ مگر اپنے ’’نوجوان‘‘ دوستوں کے ہاتھوں اپنی عزت افزائی اور خالد کی میرے لیے پریشانی کا اثر ہے کہ میں نے ایک ماہ میں اپنا تین کلو وزن کم کیا ہے اللہ سے دعا ہے اگر دوبارہ ان’’نوجوانوں‘‘ سے ملاقات ہو تو گذشتہ ’’عزت افرائی‘‘ سے محروم رہوں۔ (ختم شد)

شیئر کریں

:مزید خبریں