( روداد زندگی ،قسط نمبر 1) تحریر:ڈاکٹر ظفرچوہدری
میں تقریباًڈیڑھ ماہ وقفے کے بعد کالم لکھ رہا ہوں جس کی وجہ کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری وجوہات تھیں ’’ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی لگا‘‘ میں اکثر لکھتے ہوئے بھٹک جاتا ہوں اس بار کالم ہی لکھنے سے بھٹک گیا۔ آخری کالم 20ستمبر کو لکھا تھا وہ افتخار فخر کی پہلی برسی کے موقع پر تھا اور 21ستمبر كکو میں آزاد کشمیر کیلئے روانہ ہوگیا کیونکہ چانڈکا میڈیکل کالج کے میرے کلاس فیلو اور رومیٹ تقریباً42 سال بعد اکٹھے ہورہے تھے ۔مجھے 20 ستمبر کو ڈاکٹر عتیق خان کا فون آیا کہ کل اسلام آباد پہنچ جائو۔ پھر دوبارہ فون آیا کہ انکل فاروق کو بھی چکوال سے ساتھ لے آنا۔ شام کو پھر فون آیا کہ انکل فاروق صحت کے مسائل کی وجہ سے نہیں آسکتے تم اکیلے ہی پہنچ جائو بہتر ہے کہ ہوائی جہاز سے اسلام آباد آجائو۔ ڈاکٹر خالد محمود کراچی سے آرہا ہے وہ ایک بجے پہنچ جائے گا ۔ڈاکٹر کمال سومرو اسلام آباد ہی میں ہے میں نے پتہ کیا 21ستمبر کو شام کی فلائٹ نہ تھی لہذا میں بذریعہ بس اسلام آباد روانہ ہوگیا۔ خالد محمود کی فلائٹ کراچی سے ایک کے بجائے تین بجے پہنچی اور ادھر میں بھی تین بجے اسلام آباد پہنچ گیا ۔ ڈاکٹر کمال سومرو نے مجھے بس سٹینڈ سے لیا اور عتیق خان اور خالد کو لیکر ہم مری روڈ پر اکٹھے ہوگئے اور پھر ہم عتیق خان کی گاڑی پر آزادکشمیر روانہ ہوگئے جہاں ڈاکٹر اعجاز ہمارا میزبان تھا ۔ دوران سفر ہی ہم چاروں42 سال پہلے کے زمانے میں پہنچ گئے۔ عتیق خان شروع سے ہی سب دوستوں اور کلاس میں مرکز نگاہ رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے میں نے اسے پلے بوائے مین کہا۔ اسے ہر ماہ خرچ کیلئے جو پیسے ملتے تھے ہمیں اس کا تقریباً چوتھائی حصہ ملتا تھا۔ ملک خالد محمود شروع سے کم گو تھا میری طرح متوسط اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھتا تھا۔خالد کی زیادہ تر توجہ پڑھائی کی طرف لگی رہتی تھی مگر وہ دوستوں کی محفل کو بھی خوب انجوائے کرتا تھا اس نے یوں کلاس میں سب سے زیادہ علمی مرتبہ پایا جس کا میں پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں ۔کمال سومرو کو تو میں نے ہمیشہ بنتے ہوئے دیکھا میڈیکل کے بعد اس نے فوج جوائن کی وہ بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوا اور آجکل اقوام متحدہ کے ادارہ میں خدمات انجام دے رہا ہے ۔ ڈاکٹر اعجاز جسے ہم اعجاز کشمیری کہتے تھے اس کے بارے میں تاثر یہی تھا کہ من موجی ہے یعنی موڈی ہے بعض کلاس فیلو اس پر فلسفی ہونے کی تہمت بھی لگاتے تھے۔ خیر رات تقریباً 8بجے ہم اعجاز کے گھر مظفرآباد پہنچ گئے اس کا گھر ایک آئیڈیل جگہ پر تھا جہاں دریائے نیلم اور جہلم ملتے تھے۔ دونوں دریائوں کے پانی کا رنگ علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے لیکن ڈیم بن جانے کی وجہ سے دریائوں نے نالے کی صورت اختیار کرلی تھی جس کا اعجاز کو دیگر کشمیریوں کی طرح بہت ملال تھا۔
اعجاز کشمیری کے ساتھ کئی سال پہلے ایک ٹریجڈی ہوئی ہماری بھابھی طویل بیماری کے بعد اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ میں نے اعجاز سے فون پر تعزیت کی ۔اعجاز نے بھابھی مرحومہ کی بڑی خدمت کی تھی میری ملاقات نہیں تھی اور نہ ہی میں جنازے میں پہنچ سکا۔ دوستوں سے یہی معلوم ہوا تھا کہ بہت اچھی خاتون تھیں۔ میں نے اعجاز سے کہا کہ تم بڑے خوش قسمت ہو کہ اپنے ہاتھوں سے بھابھی کو اگلے جہاں روانہ کیا ہے۔ میری بیوی بدقسمتی سے سن رہی تھی اس نے برا منایا کہ کیا کہہ رہے ہیں ۔میں نے کہا کہ عام طور پر بیویاں اپنے خاوندوں کو قبرستان روانہ کرتی ہیںکبھی کبھی انہونی بھی ہوجاتی ہے۔ چند سال پہلے اعجاز کی دوسری شادی ہوئی جس کو عتیق خان کے ساتھ میں نے اور دوسرے دوستوں نے بڑے حوصلہ سے برداشت کیا۔ کیونکہ اعجاز نے مزے لینے کیلئے عتیق کو بتایا کہ اس کی عمر 18 سال ہے بعد میں مجھے بتایا ۔میں نے عتیق کو جلانے کیلئے بتایا تھا اس کی عمر 33/32 سال ہے ۔اعجاز کے گھر سب دوست اعجاز کے والد صاحب کے کمرہ میں دعائیں لینے پہنچ گئے۔ ان کی عمر تقریباً100 سال ہے اور ذہنی طور پر بالکل ٹھیک ہیں اللہ انہیں عمر خضر عطاء فرمائے آمین ۔ رات کا تکلف زدہ کھانا تیار تھا ۔ ہم نے اپنی عمروں اور صحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نوجوانوں کی طرح کھانے کے ساتھ انصاف کیا ۔کھانے کے بعد ہم نوجوانوں کی لان میں محفل سج گئی جس میں کالج کے زمانے کے بہت سے واقعات یادآگئے ۔ کمال سومرو نے شکار پور میں اپنے آبائی گھر میں اس دور میں دعوت پر بلایا تھا ۔ وہاں پر کھانے سے پہلے اس نے ’’ ساوی‘‘ بھی پیش کی۔ چند دوستوں نے ’’ ساوی‘‘ یعنی مشروب سندھ جیسی نعمت سے معذرت کرلی مگر عتیق خان اور چند دوسرے دوستوں کے ساتھ میں بھی ’’ ساوی‘‘ سے پہلی بار متعارف ہوا۔کھانے کے بعد عتیق خان اور میں ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا ۔ہم نے سنا تھا کہ اس کا اثر ہوتا ہے اور بندہ اپنے حواس میں نہیں رہتا یہ کیا ماجرہ ہے اسی شش و پنج میں دوسرے دن ہم واپس کالج پہنچ گئے۔ اب ہم کمال سومرو کا انتظار کررہے تھے کہ اس سے پوچھیں گے کہ فسانے سنے تھے ان کی حقیقت کیا ہے۔ کمال سومرو دو دن بعد جب واپس پہنچا تو اس نے بتایا کہ یار میں نے ساوی میں بہت ساری ملاوٹ کردی تھی تاکہ تمہیں پریشانی نہ ہو۔ میں نے بادام، مغز اور خسخاس کی مقدار کے ساتھ سیون اپ زیادہ میں ڈال دی تھی ۔ پہلی بار عتیق خان اور مجھے ملاوٹ کے فوائد سے آگاہی حاصل ہوئی ۔ آج کل ہر چیز میں ملاوٹ کی انتہا ہوچکی ہے ۔ اب اگر دو نمبر چیز مل جائے تو لوگ سمجھتے ہیںشکر پانچ یا چھ نمبر نہیں ہے( جاری ہے )