آج کی تاریخ

سماجی ادبی جریدہ تناظر پر اک نظر – محمد عامر حسینی

پاکستان میں اردو میں جو سماجی ادبی جرائد کی شایع ہوتے ہیں ان میں ایک جریدہ ‘تناظر’ بھی ہے۔ یہ گجرات سے پروفیسر ایم خالد فیاض اور عثمان خالد کی ادارت میں شہایع ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سماجیات اور ادب کو الگ الگ طور پر زیر بحث لانے والے جرائد تو کئی ایک ہیں لیکن ان دو پر اکٹھا مواد شایع کرنے والے جریدے کم نظر آتے ہیں۔ ماضی میں احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں شایع ہونے والا ‘فنون’ ایک ایسا پرچہ تھا جس نے اس زمانے میں ادبی پرچوں کے عمومی رجحان کو بدلا تھا اور نہایت تسلسل سے سماجی اور ادبی دونوں موضوعات کو شامل کیے رکھا- ‘تناظر’ بھی مجھے اسی طرز کا جریدہ لگتا ہے۔ اس کا چوتھا شمارہ میرے پیش نظر ہے۔ یہ جریدہ شش ماہی ہے۔ اس کا پہلا شمارہ جنوری 2012ء میں شایع ہوا اور دوسرا شماری جولائی 2012ء میں۔ جبکہ تیسرا شماری جنوری 2013ء میں شایع ہوا- چوتھا شمارا جولائی 2013ء میں شایع ہونا تھا لیکن یہ 10 سال تاخیر سے 2024ء میں شایع ہوا ہے۔

اس شمارے کے مستقل 11 گوشے ہوتے ہیں- پہلا گوشہ ‘سماجی علوم میں مطالعے’ کے عنوان سے ہے۔ یہ گوشہ میری خصوصی توجہ کا سبب بنا ۔ اس گوشہ میں سب سے پہلے کینڈا سے یو ٹیوب چینل ‘کینڈا ون ٹی وی’ پر چلنے والا پروگرام ‘ مرزا یاسین بیگ کے ساتھ’ پر یاسین بیگ کا پروفیسر بلند اقبال کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی ٹرانسکربشن پر مشتمل ہے۔ ‘پیروکاروں کی ذہنیت’ کے موصوع پر یہ بڑا دلچسپ مکالمہ ہے۔ اگرچہ اس میں ویر بحث آنے والے موضوعات ڈاکٹر بلند اقبال کی جو گفتگو سامنے آئی  ہے وہ کئی جگہوں پر خود اپنے نکالے گئے نتائج سے متضاد گئی ہے۔ خیر ہم اس معاملے پر بات پھر کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ اسی گوشے میں دوسرا مضمون کا عنوان ہے ‘مسلم عرب نوآبادیات: آغاز و ارتقاء’ – یہ مضمون ڈاکٹر روش ندیم نے لکھا ہے۔ یہ بہت شاندار تحقیقی مضمون ہے۔ یہ پہلی اور دوسری صدی ھجری کے مسلم سماج کی تشکیل، ارتقاء، پھیلاؤ اور اس سے ابھرنے والی مسلم عرب سلطنت میں کارفرما سماجی حالات اور اس وقت کے سماجی- معاشی طبقات بنت کاری کو بہت ہی خوش اسلوبی سے زیر بحث لايا گیا ہے اور اسے فرقہ وارانہ تعصبات اور مخصوص عقیدوں سے جنم لینے والی تعبیرات سے پرے رکھا گیا ہے۔ اس بنیاد پر مزید تحقیق کو اگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ تیسرا مضمون انتونی لوئین سنین کی ایک کتاب پر جامع تبصرہ ہے کہ کیسے اسرائیل نے فلسطینوں اور ان کی سرزمین کو قبضہ کرنے والی ٹیکنالوجی کی تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے؟ اور کیسے دنیا کے 130 ممالک کی حکومتوں نے اس ٹیکنلوجی کو خرید کیا اور اپنے ملکوں کے شہریوں کی نگرانی کررہے ہیں۔ اس گوشے میں چوتھا مضمون راقم کا تحریر کردہ ہے وہ ڈاکٹر آڈرو ٹروشکی کی اورنگ زیب عالمگیر بارے نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی ادوار تشکیل پانے والے بیانیوں کا کے تنقیدی جائزہ ہے۔ یہ جائزہ یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح انگریز سامراج نے اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت اور کردار کو اپنے مزعومہ مفادات کی تکمیل کے لیے مخصوص شکل دی اور اسے ہندوستان میں ابھرنے والی کمیون سیاست کے علمبرداروں نے جوں کا توں اپنالیا اور یہاں تک کہ خود سیکولر ہندوستانی قوم پرستی اور بائیں بازو کے نطریہ سازوں نے بھی اس حود ساختہ تصور پر ہی اپنے خیآلات کی عمارت تعمیر کی۔ اور ابھی تک ہندوستان اور پاکستان میں اسی تصور کے گرد بیانیے قائم کیے جارہے ہیں۔

دوسرا گوشہ ‘بین الاقوامی ادب’ کا ہے ۔ اس میں 2023ء میں نوبیل  ادبی انعام پانے والے ناروے کے ادیب ‘جون فوس’ پر ڈاکٹر صوفیہ خشک کا ایک مضمون شامل ہے۔ ساہیوال میں مقیم اردو ادب کے استاد اور شاعر مبشر میر کا جون فوس پر لکھا تنقیدی تعارف اور جون فوس کے ایک ناول کے باب کا ترجمہ ‘ایلس:الاؤ کے سامنے” دیا گیا ہے۔ اردو میں یہ ترجمہ بھی مبشر احمد میر نے کیا ہے۔ ترجمہ کی عبارت روان اور شستہ ہے۔

گوشہ تخلیقات میں ہندی کی ممتاز ادیبہ ممتاکالیا کا ناویلا “لڑکیاں” کے عنوان سے اردو ترجمے میں دیا گیا ہے جسے توصیف بریلوی نے کیا ہے اور کیا خوب ترجمہ ہے۔ انگریزی میں لکھنے والے ادیب عامر حسین نے اطالوی ادیب لالّا کیزچ کے تین فن پاروں کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ میں نے پہلی بار کیزچ کو پڑھا ہے۔ اچھا ترجمہ ہے۔ مریم زھرہ نے اس گوشہ کے لیے ڈبیلیو بی ییٹس کی دو نظموں کا انگریزی سے اردو ترجمہ کیا ہے۔

میں محبت کے لیے اسے ایسا وجود سونپوں گی

جو دنیا کے جنم سے پہلے تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔

مین غم سے آزاد ہوسکتا تھا

اگر میں اپنا کرب

چیخ کر

کزرتے پرندے کو سونپ دیتا

مگر میں گونگا ہوگیا

انسانی انا کے سبب

مضامین کے گوشے میں ہمارا سامنا معروف روسی ادیب وکٹر شکلووسکی کے ایک انتہائی معرکۃ الآراء مضمون کے ترجمے سے ہوتا ہے۔ وہ روس میں 20ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ابھرنے والی فارملسٹ تحریک کے انتہائی اہم معماروں میں شمار ہوتا ہے۔  اس تحریک کا بنیادی زور زبان، بیانیہ تکنیک، اور ساخت پر تھا۔ انہوں نے ادب کے اس پہلو کا مطالعہ کیا کہ یہ زبان کو عام بول چال سے کیسے مختلف بناتا ہے۔ شکلووسکی کا مضمون ‘آرٹ ایز ٹیکنیک’ / فن بطور تکینک 1917ء میں شایع ہوا اور اس مضمون نے روسی فارملسٹ ادبی تحریک میں ‘اوسترانینیے’ کے تصور کو پروان چڑھایا تھا ، اس روسی زبان کے لفظ کا مفہوم تھا:

 “کسی شے یا تجربے کو اس طرح پیش کرنا کہ وہ نیا یا اجنبی محسوس ہو، اور قاری یا دیکھنے والا اس پر دوبارہ غور کرے۔”

ڈاکٹر عبدالعزیز نے متن کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرنے کا اہتمام کرنے کی بجائے اس کی تفہیم پر زیادہ زور دیا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہيں ہے۔ میرے خیال میں ترجمے کی زبان کو مسجع و مقفع کرنے پر وور دینے کی بجائے اگر وہ قدرے آسان الفاظ کا انتخاب کرتے تو اس کا سہل ابلاغ مزید ممکن ہوسکتا تھا۔ کہیں کہیں تشریح کا کمان بھی ہوتا ہے۔ میں نے اس کا ایک اور ترجمہ اصل روسی متن کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہے جو قارئین کو جلد پڑھنے کو ملے گا۔

گوشہ مضامین میں دوسرا اور آخری انتخاب سیمیں کرن کا امریکی ادیبہ سلویا پلاتھ کے معروف ناول “دا بیل جار” پر لکھا تبصرہ ہے ۔ اس ناول کے انگریزی عنوان کا اردو مترادف ” شیشے کا قفس” ہوسکتا ہے (آگرچہ لفظی مناسبت سے “گنبدی جار یا “شیشے کا گنبد” بھی ہوسکتا ہے۔ ) لیکن کیونکہ یہ ناول نفسیاتی قید اور دباؤ کی علامت ہے تو شیشے کا قفس ایک بہتر اردو مترادف ہوگا۔ مختصر سے تبصرے میں سیمیں کرن نے ‘کوزے کو دریا میں بند کرنے” جیسا کام کیا ہے اور یہ تبصرہ ناول کو پڑھنے پر اکساتا ہے۔ سیمیں کرن نے آخر میں بالکل درست تجویز دی ہے کہ اس ناول کا اردو میں ترجمہ ہونا چاہئیے ۔ جب میں یہ مضمون پڑھ رہا تھا تو میرے دماغ میں اس ناول کا یہ اقتباس گونج رہا تھا:

“میں نے اپنی زندگی کو ایک کہانی میں موجود سبز انجیر کے درخت کی مانند اپنی نظروں کے سامنے شاخ در شاخ پھیلتے دیکھا۔ ہر شاخ کی نوک سے، موٹے جامنی انجیر کی طرح، ایک شاندار مستقبل میری طرف اشارہ کر رہا تھا اور آنکھ مار رہا تھا۔ ایک انجیر ایک شوہر، خوشحال گھر اور بچوں کی علامت تھی، دوسری انجیر ایک مشہور شاعرہ کی، تیسری ایک شاندار پروفیسر کی، چوتھی “ای جی”، ایک حیرت انگیز ایڈیٹر کی، پانچویں یورپ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کی، اور ایک اور انجیر قسطنطین، سقراط، اٹیلا اور دیگر عجیب ناموں اور غیر معمولی پیشوں والے عاشقوں کی تھی۔ ایک انجیر اولمپک خاتون روئنگ چیمپئن کی علامت تھی، اور ان انجیروں کے آگے اور اوپر کئی اور انجیر تھے جنہیں میں واضح طور پر نہیں دیکھ سکتی تھی۔

میں نے خود کو اس انجیر کے درخت کے بیچ بیٹھا ہوا پایا، بھوک سے نڈھال، صرف اس لیے کہ میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ ان میں سے کون سی انجیر چنوں۔ میں ان سب کو چاہتی تھی، مگر ایک کا انتخاب کرنے کا مطلب باقی سب کو کھونا تھا۔ اور جیسے ہی میں وہاں بیٹھی بے یقینی میں مبتلا تھی، انجیریں سکڑنے لگیں، سیاہ ہو گئیں، اور ایک ایک کر کے میرے پیروں کے نیچے زمین پر گرنے لگیں۔” 

:ناول کی آخری سطر کچھ یوں ہے

“I took a deep breath and listened to the old brag of my heart: I am, I am, I am,” 

میں نے گہری سانس لی اور اپنے دل کے پرانے دعوے کو سنا: میں ہوں، میں ہوں، میں ہوں۔

ناول کا اختتام ایسٹر گرین ووڈ کے اس لمحے پر ہوتا ہے جب وہ ایک امتحانی بورڈ کا سامنا کرنے والی ہے، جو یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا وہ گھر جا سکتی ہے یا نہیں۔ ایسٹر نے خودکشی کرنے کی خواہش ترک کر دی ہے اور لوگوں کے ساتھ اور بیرونی دنیا سے تعلقات بنانا شروع کر دیے ہیں۔ تاہم، وہ اب بھی محسوس کرتی ہے کہ “بیل جار” اس کے اوپر منڈلا رہا ہے اور اسے فکر ہے کہ وہ دوبارہ اس میں قید ہو جائے گی۔

گوشہ اردو ادب میں   ہندوستان کے معروف ادیب صدیق عالم کا افسانہ “وبا کے بعد” کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جبکہ آصف فرخی کی یاد میں ‘مطالعہ آصف فرخی’ کے عنوان سے سے اقبال خورشید کا ایک انٹرویو اور تین مضامین شامل ہیں۔ نقد و نظر میں رحمان عباس ، ڈاکٹر روبی نکہت اور عطاء الرحمان خاکی کے مضامین شامل اشاعت کیے گئے ہیں ۔ نظمیں/ نثری نظمیں کے عنوان سے سات شاعروں کو شامل کیا گیا ہے۔ حصّہ غزل میں مختلف شاعروں کی 10 غزلیں شامل ہیں۔ گوشہ آرٹ میں ایک تامل ہندی فلم ‘مہاندی’ پر اقبال خورشید کا ریویو شامل ہے اور موسیقی پرخان محمد افضل خاں کا شاندار مضمون شامل کیا گیا ہے۔ جبکہ گوشہ کتاب گھر میں اختر رضا سلیمی کے تیسرے ناول ‘لواخ’ پر گلناز کوثر ، سلیم الرحمان کے افسانوں اور ڈراموں پر ظہیر عباس کا مضمون اور فکشن سے مکالمہ  کے نام پر اقبال خورشید کا ڈاکٹر آسیہ نازلی سے کیا کیا انٹرویو شامل ہے۔

اس طرح 260 صفحات پر مشتمل  سماجی و ادبی جریدہ ‘تناظر’ سماجیات، ادیبات ، آرٹ، موسیقی پر قابل قدر تحریروں سے سجا ہوا جریدہ ہے ۔ یہ انتخاب اس جریدے کے مدیران ، معاون مدیران اور مجلس ادرات کی کی محنت ظاہر ہوتی ہے۔ ادب  اور سماجیات کے طالب علموں کو یہ جریدہ ضرور پڑھنا چاہئیے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں