سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے دو دن کے قیام کے بعد، منگل کو ایک وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے کا اختتام کیا، جو کہ پیداواری معلوم ہوتا ہے۔ یہ دورہ رمضان کے آخر میں مکہ میں وزیر اعظم اور سعودی ولی عہد کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد ہوا تھا۔
جیسا کہ توقع تھی، معاشی مسائل، خاص طور پر سعودی عرب کے پاکستان میں سرمایہ کاری کے اختیارات، ایجنڈے کے سر فہرست رہے۔ شہزادہ فیصل نے صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات کی، فوجی حمایت یافتہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی ایک میٹنگ میں شرکت کی، اور اپنے دورے کا اختتام اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے کیا۔ شہزادہ نے حوصلہ افزا باتیں کہیں، مشاہدہ کیا کہ اس ملک کو جلد ہی معاشی محاذ پر “نمایاں فوائد” نظر آئیں گے، جبکہ انہوں نے اپنے وقت کو پاکستان میں پیداواری” قرار دیا۔
حالانکہ دہائیوں پرانے اور کئی پہلووں والے پاکستان-سعودی تعلقات نے پچھلے دس سالوں میں کئی اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا ہے۔ مثال کے طور پر، ریاض ہمارے فیصلے سے خوش نہیں تھا کہ ہم یمن میں تباہ کن جنگ سے باہر رہیں۔ پس نظر میں، پارلیمنٹ نے صحیح فیصلہ کیا، کیونکہ سعودی خود اب اس مقابلے سے خاموشی سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مزید برآں، وزیر اعظم کے طور پر عمران خان کی ملائشیا میں ایک اسلامی سربراہی اجلاس کا اہتمام کرنے کی کوششیں ریاض کو پسند نہیں آئیں، جس سے سعودیوں کو محسوس ہوا کہ ایک ‘متوازی’ OIC بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مسٹر خان نے اپنی کوالا لمپور کی ٹرپ منسوخ کر دی۔
تاہم، اب چیزیں بظاہر ٹھیک ہو رہی ہیں، کیونکہ پاکستان سعودی سرمایہ کاری میں اربوں ڈالرز کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور مملکت کے حکمران بھی ماضی کی رکاوٹوں کو بھولنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ سعودی سرمایہ کاری پروگرام کا آغاز مکمل طاقت کے ساتھ ہونے کی امید ہے جب ولی عہد محمد بن سلمان کا پاکستان میں متوقع دورہ ہوگا۔
لیکن ہماری حکومت کو اب مفت دوپہر کے کھانے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ سعودی – اور دوسروں – کو اپنی سرمایہ کاریوں پر مناسب منافع کی تلاش ہوگی، اور اس کے لئے ہماری معاشی پالیسیوں میں سیاسی استحکام اور شفافیت ضروری ہے۔ ہمارا دھیان باہمی طور پر فائدہ مند منصوبوں پر ہونا چاہیے، نہ کہ ہاتھوں پر۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایرانی صدر بھی اگلے ہفتے پاکستان آ رہے ہیں، اور انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں، اس کے باوجود کہ امریکہ اس منصوبے سے ناخوش ہے۔
شہباز شریف کی حکومت کو پاکستان کے روایتی سعودی اتحادیوں اور اس کے ایرانی ہمسایوں کے ساتھ ایک نازک توازن قائم کرنا ہوگا۔ اکثر، پاکستان ان دو علاقائی دیووں کے درمیان پھنس جاتا ہے، حالانکہ زیادہ تر تاریخ کے دوران ہم سعودی کیمپ کے ساتھ اتحادی رہے ہیں۔
پاکستان کو دونوں ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر، اسے ریاض اور تہران کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو بڑھانا چاہیے، اور بلاک سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔
سرویڈ: پاکستان کی فارمیسی ریٹیل چین کے مستقبل کی جدوجہد
سرویڈ، پاکستان کی سب سے بڑی فارمیسی ریٹیل چین، جو کہ اپنے آغاز سے ہی متعدد مراحل اور مالکانی تبدیلیوں کے گزر چکی ہے، ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہے۔ ہر مرتبہ جب کمپنی کی ملکیت تبدیل ہوئی، اس کے ساتھ نئی توقعات اور چیلنجز بھی آئے، لیکن اب کی بار مسئلہ زیادہ پیچیدہ نظر آتا ہے کیونکہ اہم سعودی سرمایہ کاروں نے کمپنی سے دستبرداری اختیار کر لی ہے۔
سرویڈ کی کہانی 2005 میں شروع ہوتی ہے جب سروس گروپ نے فارمیسی بزنس میں قدم رکھا۔ ابتدائی کامیابی کے باوجود، کمپنی کو مختلف داخلی و بیرونی چیلنجز کا سامنا رہا۔ مقامی فارمیسی مارکیٹ میں شدید مقابلہ اور مینیجمنٹ میں تبدیلیوں نے سرویڈ کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالا۔
پاکستان میں فارمیسی کا کاروبار ازحد مشکل ہے، جہاں مختلف قسم کے ریگولیٹری چیلنجز، موثر سپلائی چین کی عدم موجودگی اور قابل بھروسہ عملہ کی کمی جیسے مسائل پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، مالیاتی مشکلات اور سرمایہ کاروں کی مسلسل دستبرداری نے بھی سرویڈ کی صلاحیتوں کو محدود کیا ہے۔
۲۰۱۵ میں، جب سعودی نہدی خاندان سمیت متعدد سرمایہ کاروں نے پننسولا ہیلتھ کیئر پارٹنرز کے ذریعے سرویڈ میں سرمایہ کاری کی، امید تھی کہ کمپنی نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔ ان سرمایہ کاروں کی مدد سے، سرویڈ نے پنجاب میں اپنی موجودگی وسیع کی اور کئی نئے اسٹورز کھولے۔ تاہم، مختلف مینیجمنٹ چیلنجز اور مارکیٹ کی دشواریوں نے ان کی ترقی کو محدود کر دیا۔
۲۰۲۳ میں، جب سعودی سرمایہ کاروں نے کمپنی میں دلچسپی ختم کر دی، تو سرویڈ کے لیے نئے مسائل کھڑے ہو گئے۔ اس دستبرداری نے کمپنی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا، کیونکہ اب اسے مقامی سطح پر سرمایہ کاری اور مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق خود کو دوبارہ موثر بنانے کی ضرورت تھی۔
موجودہ حالات میں سرویڈ کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ہے مارکیٹ میں اپنی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنا اور مستقبل کے لئے ایک پائیدار کاروباری ماڈل تیار کرنا۔ کمپنی کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ وہ اپنے آپریشنل ڈھانچے کو بہتر بنائے، خاص طور پر مالی انتظامات اور سپلائی چین مینیجمنٹ میں۔
اس کے علاوہ، کمپنی کو اپنی مصنوعات کی قیمتوں اور معیار کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ صارفین کا اعتماد دوبارہ حاصل کیا جا سکے۔ سرویڈ کے لیے یہ بھی اہم ہو گا کہ وہ صحت سے متعلق مصنوعات کی وسیع رینج پیش کرے، جو کہ موجودہ صحت کے تقاضوں کے مطابق ہو۔
فارمیسی کی صنعت میں مقابلہ بہت زیادہ ہے اور سرویڈ کو اگر مارکیٹ میں مقام بنانا ہے تو اسے نوآوری پر زور دینا ہوگا۔ یہ کمپنی کو ضروری ہے کہ وہ نئی ٹیکنالوجیز کو اپنائے، جیسے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال کرکے آن لائن دوائیوں کی فروخت کو فروغ دے، جو کہ موجودہ وقت کے صارفین کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ ای کامرس اور موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے، صارفین کو دوائیں آرڈر کرنے اور گھر بیٹھے حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرنا نہ صرف سرویڈ کو مارکیٹ میں ایک مضبوط پوزیشن دلا سکتا ہے بلکہ یہ صارفین کے لیے بھی زیادہ موزوں ہوگا۔
مزید برآں، سرویڈ کو اپنی مینیجمنٹ ٹیم میں ماہرین کی شمولیت اور موجودہ عملے کی تربیت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ ایک مضبوط مینیجمنٹ ٹیم جو کہ صنعت کی موجودہ رجحانات اور چیلنجز سے واقف ہو، کمپنی کی بحالی اور ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
ان حکمت عملیوں کی بنیاد پر، سرویڈ اپنے کاروباری ماڈل کو مزید بہتر بنا کر اور مارکیٹ کی دینامکس کے مطابق ڈھل کر اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ کمپنی مسلسل جائزہ لیتی رہے اور بروقت فیصلے کرتی رہے، تاکہ مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو مستحکم کر سکے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سرویڈ کے لیے مستقبل میں کامیابی کی کلید انوویشن، ڈیجیٹلائزیشن، اور صارفین کے تجربے میں بہتری ہے۔ پاکستان کی فارمیسی ریٹیل مارکیٹ میں سرویڈ کی مستقبل کی کامیابی اس بات پر منحصر ہوگی کہ کمپنی کس طرح ان چیلنجز کو قبول کرتی ہے اور مقابلہ بازی کے اس دور میں کس طرح نئے مواقع تلاش کرتی ہے۔ اگر سرویڈ اپنے بنیادی دھیان کو صارفین کی ضروریات پر مرکوز رکھتے ہوئے ترقیاتی اور نوآوری کے اقدامات اپنائے، تو یہ نہ صرف مارکیٹ میں اپنا مقام مستحکم کر سکتا ہے، بلکہ اپنے سرمایہ کاروں کو بھی مطمئن کر سکتا ہے۔
اس طرح، سرویڈ کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ مارکیٹ کے مطالبات کے مطابق اپنے کاروباری اسٹریٹجی کو ترتیب دے اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرکے اپنے کاروباری عمل کو جدید بنائے۔ یہ ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری نہ صرف ان کے آپریشنز کو بہتر بنائے گی بلکہ صارفین کو زیادہ موثر اور شفاف خدمات فراہم کرنے میں بھی مدد دے گی۔
درحقیقت، سرویڈ کی موجودہ حالت اور مستقبل کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ کس طرح اپنے اندرونی چیلنجز کو حل کرتا ہے اور بیرونی مارکیٹ کے دباؤ کا مقابلہ کرتا ہے۔ اگرچہ سرمایہ کاروں کی واپسی نے کمپنی کے لئے کچھ مشکلات پیدا کی ہیں، لیکن اگر سرویڈ اپنے کاروباری ماڈل کو موثر طریقے سے دوبارہ تشکیل دے سکتا ہے تو یہ مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو بحال اور بڑھا سکتا ہے۔
مزید برآں، سرویڈ کو اپنی توجہ صارفین کی بدلتی ہوئی ضروریات پر مرکوز رکھنی چاہیے اور ان ضروریات کے مطابق خدمات فراہم کرنے پر زور دینا چاہیے۔ یہ نہ صرف کمپنی کو مزید مستحکم بنائے گا بلکہ اس کے برانڈ کی شبیہ کو بھی بہتر بنائے گا، جو کہ طویل مدتی کامیابی کے لئے انتہائی اہم ہے۔
ختم کرتے ہوئے، سرویڈ کے لئے ابھی بھی مارکیٹ میں ایک قابل قدر موقع موجود ہے، بشرطیکہ وہ اپنے آپریشنز کو جدید خطوط پر استوار کرے اور صارفین کے تجربے کو بہتر بنانے پر مرکوز رہے۔ سرویڈ کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ مستقل مارکیٹ کی نبض پر ہاتھ رکھے، مسابقتی حکمت عملیوں کو اپنائے، اور اپنے کاروباری انفراسٹرکچر کو مضبوط بنائے تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔
سرویڈ کے لئے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ نئی ٹیکنالوجیز کی طرف دیکھے اور ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے ذریعے اپنے آپریشنز کو مزید بہتر بنائے۔ اس کے علاوہ، کمپنی کو اپنے کاروباری ماڈل میں لچکداری اور انوویٹو تجزیہ کو اہمیت دینی چاہیے تاکہ وہ بدلتے ہوئے مارکیٹ ٹرینڈز کے مطابق خود کو ڈھال سکے۔
مجموعی طور پر، سرویڈ کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ کس طرح اپنے موجودہ وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ میں نئے مواقع تلاش کرتا ہے اور کس طرح وہ اپنی مارکیٹنگ اور کسٹمر سروس کو مزید موثر بنا سکتا ہے۔ اگر سرویڈ ان کلیدی عوامل پر توجہ دے سکے تو یہ نہ صرف پاکستان کی مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو مضبوط کر سکتا ہے بلکہ ایک دیرپا اور منافع بخش کاروبار کے طور پر اپنی حیثیت کو بھی مستحکم کر سکتا ہے۔