آج کی تاریخ

سعودی سرمایہ کاری: مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست پر اثرات

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے عزم نے نہ صرف امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں ایک نیا باب کھولا ہے بلکہ اس اقدام کے ممکنہ اثرات مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست پر بھی گہرے ہوں گے۔ اس پیشرفت نے علاقائی طاقتوں کے درمیان توازن اور عالمی سیاست میں سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی حیثیت پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔مشرق وسطیٰ کی سیاست میں سعودی عرب ہمیشہ سے ایک کلیدی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں، اس نے خود کو تیل کی معیشت سے ہٹ کر جدید اقتصادی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سعودی عرب کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔یہ فیصلہ صرف ایک اقتصادی معاہدہ نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد خطے میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنا ہے۔ اس پیش رفت کے ممکنہ اثرات درج ذیل پہلوؤں میں محسوس کیے جا سکتے ہیں:ایران اور سعودی عرب کے درمیان روایتی حریفانہ تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے امریکہ میں اتنی بڑی سرمایہ کاری ایران کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے امریکہ کی حمایت حاصل کر رہا ہے۔ ایران پہلے ہی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، اور اس پیش رفت سے اسے مزید دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ترکی اور قطر حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے سرگرم رہے ہیں۔ قطر نے خاص طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ اس کے دفاعی معاہدے اور افغان امن عمل میں کردار سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم، سعودی عرب کی اتنی بڑی سرمایہ کاری قطر اور ترکی کے لیے ایک اقتصادی اور سیاسی چیلنج کے طور پر سامنے آ سکتی ہے، کیونکہ یہ امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو مزید مضبوط کرے گی۔سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں حالیہ برسوں میں نرم رویہ دیکھا گیا ہے، لیکن رسمی طور پر تعلقات قائم نہیں کیے گئے۔ اگر سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے، تو اس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، اور سعودی عرب کی امریکہ کے ساتھ قریبی شراکت داری اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔یہ سرمایہ کاری سعودی عرب کی اس حکمت عملی کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھنا چاہتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، سعودی عرب نے چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کیے ہیں، خاص طور پر چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات۔ لیکن امریکہ میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ظاہر کرتی ہے کہ سعودی عرب اب بھی مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کو اپنی خارجہ پالیسی کا مرکزی ستون سمجھتا ہے۔ یہ قدم چین اور روس کے لیے ایک واضح پیغام ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب عالمی سطح پر متوازن تعلقات رکھنے کے لیے آزاد ہے۔سعودی عرب کی یہ سرمایہ کاری نہ صرف سیاسی بلکہ اقتصادی اثرات بھی مرتب کرے گی۔ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک جیسے متحدہ عرب امارات اور قطر پہلے ہی عالمی معیشت میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سعودی عرب کی یہ پیشرفت ظاہر کرتی ہے کہ وہ خطے میں سب سے بڑی اقتصادی طاقت بننے کا ارادہ رکھتا ہے۔سعودی عرب کی یہ سرمایہ کاری امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات
کا تسلسل ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس سرمایہ کاری کا استقبال نہ صرف معاشی بلکہ جغرافیائی سیاسی پہلوؤں سے بھی اہم ہے۔ امریکہ کے ساتھ مضبوط تعلقات سعودی عرب کو خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے، ترکی اور قطر کے ساتھ مسابقت میں رہنے، اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔لیکن اس سرمایہ کاری کے ساتھ خطرات بھی جڑے ہیں۔ سعودی عرب کی یہ پیش رفت خطے کے دیگر ممالک، خاص طور پر ایران اور ترکی، کو اپنی خارجہ پالیسیوں میں مزید جارحانہ رویہ اپنانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود عدم استحکام کو مزید بڑھا سکتی ہے۔سعودی عرب کی یہ سرمایہ کاری صرف ایک اقتصادی فیصلہ نہیں بلکہ ایک وسیع تر سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے تمام ممکنہ راستے تلاش کر رہے ہیں، اور یہ اقدام اسی کا تسلسل ہے۔چھے سو بلین ڈالر کی یہ سرمایہ کاری مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ یہ سعودی عرب کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر ایک اہم طاقت کے طور پر پیش کرے۔ تاہم، اس پیش رفت کے ساتھ وابستہ خطرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فیصلہ خطے میں ایک نئی دوڑ کا آغاز کر سکتا ہے، جہاں ہر ملک اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے مزید جارحانہ حکمت عملی اپنائے گا۔ سعودی عرب کے لیے یہ وقت اہم ہے کہ وہ اپنی اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ خطے میں امن اور استحکام کے لیے بھی کردار ادا کرے، تاکہ اس کی سرمایہ کاری اور حکمت عملی دیرپا اثرات مرتب کر سکے۔

اظہار رائے کی آزادی یا جبر کا نیا باب؟

پاکستان کی قومی اسمبلی نے حال ہی میں پیکا ایکٹ (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) میں ترمیمی بل پاس کیا ہے، جس نے ملک بھر میں شدید بحث و مباحثے کو جنم دیا ہے۔ یہ ترامیم، جو بظاہر “جعلی خبروں” کی روک تھام کے لیے ہیں، اظہارِ رائے کی آزادی، صحافت کے حق اور پارلیمانی عمل کی سالمیت کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھاتی ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی، جن کی جماعت نے ابتدائی طور پر اس بل کی حمایت کی، بعد میں اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بل کی منظوری میں جو جلدبازی دکھائی گئی، وہ پارلیمانی عمل کی توہین ہے۔قومی اسمبلی میں بل کے منظور ہونے سے پہلے نہ تو متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا اور نہ ہی مشاورت کی گئی۔ ربانی کے مطابق، حکومت نے صحافیوں کی منتخب تنظیموں سے کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے۔ بل کی منظوری کے لیے اپوزیشن کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے، قومی اسمبلی میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا، جو جمہوری اقدار کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔نئے بل کے تحت، پیکا میں سیکشن 26-اے شامل کیا گیا ہے، جو “جعلی خبروں” کے خلاف اقدامات کی اجازت دیتا ہے۔ اس سیکشن کے مطابق، جو بھی جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلائے جس کے جھوٹا یا غلط ہونے کا شبہ ہو، اور جس سے عوام میں خوف، انتشار یا بے چینی پیدا ہو، اسے تین سال تک قید یا دو ملین روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ناقدین کے مطابق، اس قانون میں “جعلی خبروں” کی تعریف مبہم ہے، اور اس کا غلط استعمال آزادیِ اظہار کو دبانے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ صحافی، سماجی کارکن، اور عام شہری جو حکومت یا اس کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں، اس قانون کے تحت نشانہ بن سکتے ہیں۔رضا ربانی اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے مطابق، یہ قانون نہ صرف پیغامات کے مواد کو کنٹرول کرے گا بلکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی حکومتی کنٹرول بڑھائے گا۔ نئی ترامیم کے تحت، مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں بنائی جائیں گی، جن میں نامعلوم خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ ٹیمیں صحافیوں، سوشل میڈیا صارفین، اور عام عوام کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں گی۔پیپلز پارٹی کے انسانی حقوق سیل کے صدر فرحت اللہ بابر نے بھی اس قانون کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق، یہ ترامیم انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ کریں گی اور حکومت کو غیر معمولی اختیارات فراہم کریں گی، جو نہ صرف پیغام کے مواد بلکہ پیغام بھیجنے والوں کو بھی کنٹرول کرنے کے مترادف ہے۔اطلاعات کے وزیر عطااللہ تارڑ نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف سوشل میڈیا صارفین کے لیے ہے اور صحافت کو تحفظ فراہم کرے گا۔ ان کے مطابق، جو لوگ صرف فون اٹھا کر کچھ بھی کہہ دیتے ہیں، ان کے لیے ضابطے ضروری ہیں۔ لیکن ان کے بیانات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ “صحافت” اور “سوشل میڈیا” میں حد بندی کیسے کی جائے گی، اور کیا اس قانون کے تحت حکومت صرف سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے تک محدود رہے گی؟اس قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پاکستان میں پہلے سے محدود آزادیِ اظہار کو مزید دبانے کا سبب بنے گا۔ صحافیوں اور میڈیا تنظیموں نے اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے اور عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ خدشات حقیقی ہیں کہ اس قانون کا استعمال حکومت کے مخالفین، سیاسی کارکنوں اور آزاد صحافت کے خلاف کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر جب مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں میں خفیہ ایجنسیوں کو شامل کیا جائے گا، تو ان کے اختیارات غیر شفاف اور ناقابلِ احتساب ہو سکتے ہیں۔رضا ربانی نے درست کہا کہ متنازع قوانین اچھی قانون سازی نہیں ہوتے۔ پارلیمانی عمل کا احترام جمہوریت کا بنیادی ستون ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بل کو سینیٹ میں پیش کرنے سے پہلے تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، بشمول صحافی، میڈیا تنظیمیں، اور انسانی حقوق کے نمائندے، کو شامل کرے۔پیکا ترمیمی بل کا مقصد “جعلی خبروں” کی روک تھام بتایا گیا ہے، لیکن اس کے اثرات اظہارِ رائے کی آزادی، آزاد صحافت، اور عوام کے جمہوری حقوق کو دبانے کی شکل میں سامنے آ سکتے ہیں۔ اس قانون کا نفاذ پاکستان میں آزادیِ اظہار اور جمہوریت کے لیے ایک خطرناک موڑ ہو سکتا ہے۔حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اس بل پر کھلے دل سے بحث کرے اور تمام متعلقہ حلقوں کو اعتماد میں لے کر اصلاحات متعارف کرائے۔ بصورت دیگر، یہ قانون جمہوریت کے لیے ایک ایسا گلا گھونٹنے والا اقدام ہوگا، جس کے اثرات طویل عرصے تک محسوس کیے جائیں گے۔

قانونِ معاشی قیود

حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل 2024 پیش کیا ہے، جو ایک نئی اصطلاح “نااہل شخص” (Ineligible Person) متعارف کرواتا ہے۔ اس کی رو سے مخصوص افراد کو جائیداد خریدنے، گاڑیاں رکھنے، بینک اکاؤنٹ کھولنے اور دیگر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکا جائے گا۔ یہ تجویز مختلف حلقوں میں بحث و مباحثے کا سبب بنی ہے۔وفاقی وزارتِ خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اس قانون کی حمایت کر رہے ہیں، تاہم قومی اسمبلی کی کمیٹی اس بل کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔ کاروباری برادری میں بھی اس حوالے سے تقسیم پائی جاتی ہے۔ کچھ اس قانون کے حق میں ہیں کہ یہ معیشت کو مزید مستحکم کرے گا، جبکہ دیگر اس کے ممکنہ منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔غیر فائلرز کے لیے علیحدہ کیٹیگری بنانا کوئی نیا خیال نہیں۔ اس کی ابتدا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں ہوئی تھی، جب 1990 کی دہائی میں اور خاص طور پر 2010 کی دہائی میں مختلف کیٹیگریز کے لیے زائد ودہولڈنگ ٹیکس متعارف کروایا گیا۔ یہ نظام ایک طرح سے غیر رسمی معافی فراہم کرتا تھا، جس کے تحت لوگ مکمل ٹیکس نظام سے بچتے ہوئے صرف اضافی رقم ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر لیتے تھے۔اب موجودہ حکومت اسی پالیسی کو دوبارہ زیرِ غور لا رہی ہے، مگر نئے ترمیمی بل میں غیر فائلرز کی کیٹیگری برقرار رکھی گئی ہے، اور ان پر زائد ٹیکس کی شرح بھی وہی رہے گی۔ البتہ “نااہل شخص” کا اضافہ کیا گیا ہے، جو کہ کئی معاشی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔یہ تجویز بنیادی طور پر مبہم نظر آتی ہے۔ ایف بی آر غیر فائلرز سے حاصل ہونے والے ٹیکس کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، لیکن ساتھ ہی ان پر نئی قیود نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ادارہ “چادر سے زیادہ پیر پھیلانے” کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پالیسی فوری طور پر ٹیکس ریونیو بڑھانے میں ناکام رہے گی، بلکہ اس سے بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا دروازہ کھلے گا۔ایف بی آر کے اہلکار پہلے ہی زائد ٹیکس اہداف پورے کرنے کے دباؤ کا شکار ہیں۔ یہ دباؤ اکثر غیر قانونی حربے استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اگر کسی افسر نے کسی ٹیکس دہندہ کو قانون کے مطابق کلیئر قرار دیا، تو اس پر نااہلی یا بدعنوانی کا الزام لگ سکتا ہے، جس سے ان کے کیریئر پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ایف بی آر کی یہ حکمت عملی معاشی سرگرمیوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ مثلاً، رئیل اسٹیٹ کا شعبہ جو پہلے ہی زیادہ ٹیکسوں اور زائد ویلیوایشن کے باعث جمود کا شکار ہے، مزید دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ شعبہ معیشت میں غیر قانونی سرمائے کو چھپانے کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر نئے قوانین مزید افراد کو رسمی معیشت سے باہر کرنے کا سبب بن سکتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ دہائی میں کرنسی سرکولیشن میں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے۔قانون سازی سے پہلے ایف بی آر کی استعداد کار بڑھانے اور ادارے کے اندر بدعنوانی کو ختم کرنے پر توجہ دینا ضروری ہے۔ یکطرفہ اقدامات سے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔ قانون سازی میں توازن ہونا چاہیے، تاکہ نہ صرف ٹیکس دہندگان کو تحفظ فراہم کیا جائے بلکہ ایف بی آر کے افسران بھی اپنے اختیارات کے غلط استعمال پر جوابدہ ہوں۔ایف بی آر کے چیئرمین نے خود تسلیم کیا ہے کہ 2024 میں ٹیکس کلیکشن کی صورتحال 2008 یا 2016 جیسی ہے، حالانکہ اس عرصے میں آمدنی اور سیلز ٹیکس کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے قوانین، جو شہریوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کریں، معیشت پر دور رس منفی اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ نئے اقدامات سے پہلے ایف بی آر کی کارکردگی میں اصلاحات لائی جائیں۔نااہل شخص کی نئی کیٹیگری متعارف کرانے کا فیصلہ ایک متنازعہ اقدام ہے، جو معیشت کے مختلف شعبوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ قانون مزید بدعنوانی کو فروغ دے سکتا ہے اور کاروباری ماحول کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ جب تک ایف بی آر کی بنیادی اصلاحات نہ کی جائیں، ایسے قوانین نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ عوامی اور تجارتی حلقوں میں اعتماد کی بحالی اور نظام کی شفافیت ہی ٹیکس کلیکشن کے اہداف حاصل کرنے کا درست طریقہ ہے۔

ہندو برادری کی ہجرت: ایک قومی المیہ

پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کا خواب ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے امن، سلامتی اور عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ بدقسمتی سے، ہم اس اعلیٰ مقصد سے کوسوں دور ہو چکے ہیں، اور سندھ کی ہندو برادری کی حالتِ زار اس حقیقت کا تلخ ثبوت ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، سندھ میں ہندو برادری کو کئی سماجی اور اقتصادی مسائل کی وجہ سے اپنی آبائی زمین چھوڑ کر بھارت کی جانب ہجرت پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ سندھ، جو پاکستان میں ہندو برادری کا سب سے بڑا مسکن ہے، اب ایک سنگین بحران کا شکار ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس انخلا کے پیچھے اہم عوامل میں ہندو لڑکیوں کا جبری تبدیلی مذہب، اغوا اور کمزور امن و امان شامل ہیں۔ مزید برآں، معاشی مسائل اور عدم تحفظ کی فضا نے بھی ہندو برادری کے لیے پاکستان میں رہنا مشکل بنا دیا ہے۔ایچ آر سی پی کے مطابق، صرف کشمور کے علاقے سے گزشتہ سال تقریباً 300 افراد بھارت منتقل ہوئے۔ لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، رپورٹ کے مطابق، بھارت میں دولت مند ہندو مہاجرین تو نسبتاً بہتر حالات میں رہ رہے ہیں، لیکن غریب افراد پناہ گزین کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔بھارت کے شہریت ترمیمی قانون 2024 (CAA) نے ہندو مہاجرین کی ہجرت کے رجحان کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ یہ قانون پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم افراد کو بھارتی شہریت حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے، بشرطیکہ وہ اپنے آبائی ملک میں “مذہبی ایذا رسانی” کا شکار ہوں۔ تاہم، یہ قانون خاص طور پر مسلمانوں کو اس رعایت سے باہر رکھتا ہے، جو اس کے امتیازی رویے کو واضح کرتا ہے۔یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ریاستی سرپرستی میں ہندو مخالف مہم نہیں چلائی جا رہی۔ تاہم، انتہا پسند عناصر اور جرائم پیشہ گروہ ہندو برادری کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو ان کے تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ریاست اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ ہندو برادری کے انخلا کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔سندھ میں جبری تبدیلی مذہب کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی اور سخت اقدامات ضروری ہیں۔ اس مسئلے کے مستقل حل کے بغیر ہندو برادری میں اعتماد پیدا نہیں کیا جا سکتا۔امن و امان کی خراب صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس اور دیگر اداروں کی اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ اغوا اور دیگر جرائم کے متاثرین کو انصاف مل سکے۔حکومت کو ہندو برادری کے لیے معاشی مواقع پیدا کرنے چاہئیں، تاکہ وہ پاکستان میں رہتے ہوئے ایک محفوظ اور باوقار زندگی گزار سکیں۔ان ہندو شہریوں کے لیے عام معافی دی جانی چاہیے جو بھارت ہجرت کر گئے ہیں اور واپس آنا چاہتے ہیں۔ انہیں یقین دلایا جائے کہ وہ اپنے آبائی وطن میں محفوظ اور قابلِ احترام زندگی گزار سکتے ہیں۔ہندو برادری سندھ کی ثقافت اور پاکستان کی مذہبی ہم آہنگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ سندھ کی سرزمین صوفی روایات، بھائی چارے، اور امن کی علامت رہی ہے، جہاں ہندو اور مسلمان صدیوں سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں۔ ان روایات کو بچانے اور فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست ہندو برادری کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔سندھ کی ہندو برادری کا انخلا نہ صرف پاکستان کے لیے ایک سماجی و اقتصادی نقصان ہے بلکہ یہ ہمارے آئینی اور اخلاقی اصولوں پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ قائداعظم کے وژن کے مطابق، پاکستان ایک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں ہر مذہب کے ماننے والے محفوظ اور آزاد ہوں۔ریاست کو فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس ہجرت کو روکا جا سکے اور ہندو برادری کو یقین دلایا جا سکے کہ ان کا مستقبل پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو نظرانداز کرنا نہ صرف پاکستان کی داخلی سالمیت کو کمزور کرے گا بلکہ اس کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں ہر مذہب اور قومیت کا کردار برابر اہم ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں