آج کی تاریخ

سرمایہ کاری کا بحران، مسئلہ سرمایہ کا نہیں، اعتماد کا ہے

وزیرِاعظم پاکستان نے حال ہی میں ایک اہم بات کہی — وہی بات جو ماہرینِ معیشت، بینکار، کاروباری رہنما اور غیر ملکی سرمایہ کار سالوں سے دہرا رہے ہیں: پاکستان کی معیشت کو آگے بڑھانے میں نجی شعبے کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا یہ کہنا بلاشبہ درست ہے، لیکن جیسا کہ پاکستان میں اصلاحات سے متعلق تقریروں کا چلن ہے، یہ بیان بھی نصف سچ پر مبنی ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ سرمایہ کاری کو کیسے متحرک کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کیسے برقرار رکھا جائے — اور بدقسمتی سے، یہی وہ مقام ہے جہاں ریاست بار بار ناکام ہو رہی ہے۔240 ملین آبادی والے ملک کے لیے پاکستان کی سرمایہ کاری برائے مجموعی قومی پیداوار کی شرح (Investment to GDP Ratio) صرف کم نہیں بلکہ شرمناک حد تک کم ہے — 15 فیصد سے بھی نیچے۔ جب کہ عالمی بینک کے مطابق نچلی درمیانی آمدنی والے ممالک کی اوسط شرح 25 فیصد ہے اور جنوبی و مشرقی ایشیا میں یہ شرح 30 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہی وہ سرمایہ کاری کی سطح ہے جو روزگار، برآمدات اور پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھتی ہے۔ پاکستان میں، یہ شرح نہ صرف کچھ قائم نہیں رکھتی بلکہ معاشی جمود کو جنم دیتی ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سرمایہ موجود ہے اور مواقع بھی بے شمار ہیں تو نجی سرمایہ کاری اتنی کم کیوں ہے؟ جواب صاف اور تلخ ہے: سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری ایک سزا بن چکی ہے۔ ایک ایسا عمل جس کا انجام یا تو غیر یقینی ٹیکس پالیسیوں میں پھنس جانا ہے یا ریاستی بے اعتباری کی چکی میں پس جانا۔پاکستان میں کاروباری اداروں پر ٹیکسوں کا بوجھ کسی شکنجے سے کم نہیں۔ کارپوریٹ انکم ٹیکس، اضافی ٹیکس، ورکرز پرافٹ پارٹیسپیشن فنڈ، مختلف لیویز، اور منافع کی منتقلی پر ٹیکس کے بعد جب مجموعی شرح 40 فیصد سے بڑھ جاتی ہے تو کاروبار کے لیے منافع رکھنا ہی ممکن نہیں رہتا، نئی سرمایہ کاری تو دور کی بات ہے۔ مزید یہ کہ جو سرمایہ کار ایک بار سرمایہ کاری کرتا ہے، اگر وہ اپنی ہی کمائی کو دوبارہ ملک میں لگا نہ سکے تو پھر نیا سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ یہ سرمایہ کاری کا نہیں بلکہ اعتماد کا بحران ہے۔یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری ناممکن نہیں مگر غیر مستحکم ضرور ہے۔ گزشتہ دہائی میں صرف دو مواقع ایسے آئے جب سرمایہ کاری کی شرح 15 فیصد سے تجاوز کر گئی — مالی سال 2018 اور 2022 میں۔ 2018 میں چین۔پاکستان اقتصادی راہداری اور قرض کی وسعت نے سرمایہ کاری کو سہارا دیا جبکہ 2022 میں کووڈ کے بعد اسٹیٹ بینک کی جانب سے دیے گئے وقتی مالیاتی سہولت پیکج نے عارضی ریلیف فراہم کیا۔ لیکن جیسے ہی پالیسیوں میں تسلسل کا خاتمہ ہوا، سرمایہ کاروں کا اعتماد پھر سے متزلزل ہو گیا۔آج تین سال گزرنے کے باوجود، اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں صنعتی پیداوار کی صلاحیت کا استعمال 70 فیصد سے بھی کم ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعتوں کی کارکردگی مسلسل تین سال سے منفی رجحان پر ہے۔ کئی شعبے ابھی تک 2017 اور 2018 کی خوشحالی کی سطح تک واپس نہیں آ سکے۔ اب سوال یہ ہے: کوئی نیا سرمایہ کار کیوں نئے کارخانے لگائے جب پچھلے کارخانے ہی آدھی گنجائش پر چل رہے ہوں؟ اور جب وہی ریاست جو سرمایہ کاروں کو بلاتی ہے بعد میں ان سے وعدے توڑ دیتی ہے، معاہدوں میں رد و بدل کرتی ہے، اور منافع پر نئے نئے ٹیکس لگا دیتی ہے — تو پھر کون دیوار سے سر ٹکرائے گا؟توانائی کے شعبے کے سرمایہ کار اس بے اعتباری کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے یکطرفہ طور پر تبدیل کیے گئے، ادائیگیاں روک دی گئیں اور ان پر مالی الزامات لگا دیے گئے۔ اسی طرح، کووڈ کے دوران مالی سہولت حاصل کرنے والے برآمد کنندگان کو بعد میں اضافی ٹیکسز اور منافع پر جرمانوں کی شکل میں سزائیں دی گئیں۔ ہر بار پیغام یہی دیا گیا: ریاست پر اعتماد نہ کرو۔یہ پیغام صرف مقامی سرمایہ کاروں نے نہیں پڑھا بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار بھی اس کو سمجھ چکے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں درجن بھر بین الاقوامی کمپنیاں پاکستان سے جا چکی ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی سالانہ آمدنی اب اس رقم سے بھی کم ہے جو خلیج میں کام کرنے والے پاکستانی ایک ماہ میں وطن بھیجتے ہیں۔پاکستان میں توانائی کی قیمتیں خطے کی بلند ترین سطح پر ہیں، وہ بھی بغیر کسی تسلسل یا معیار کے۔ جب بجلی کی قیمت بلند ہو اور دستیابی غیر یقینی ہو تو صنعت کیسے چلے گی؟ نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ کار اب ریاست سے الگ تھلگ سرمایہ کاری کر رہے ہیں — نجی شمسی توانائی، اپنے طور پر ذخیرہ کرنے کے منصوبے، نجی نقل و حمل اور نجی پانی کی فراہمی۔ یہ ترقی نہیں بلکہ ایک ریاستی نظام سے فرار ہے۔اسی طرح، وہ ادارے جو سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے لیے قائم کیے گئے، جیسے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل، وہ بھی اکثر اوقات سرمایہ کاروں کو سہولت دینے کے بجائے رکاوٹ بن چکے ہیں۔ لائسنسوں کے اجرا میں دخل اندازی، فیصلوں کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں مداخلت اور مقامی سرمایہ کاروں کو غیر ضروری دباؤ میں لانا — یہ سب کچھ سرمایہ کاری کو روکنے کا باعث بن رہا ہے، نہ کہ اسے فروغ دینے کا۔بازاروں اور معیشتوں کی بنیاد معاہدوں کی حرمت پر ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ حرمت مسلسل پامال ہوئی ہے۔ توانائی سے لے کر ٹیلی کام، برآمدات سے لے کر کان کنی — ہر شعبے میں بڑے سرمایہ کار ریاست کی طرف سے وعدہ خلافی کے شکار ہوئے ہیں۔ یہ واقعات محض اتفاق نہیں بلکہ ایک ادارہ جاتی عادت بن چکے ہیں۔ ایسے میں کتنے ہی سرمایہ کاری کے سیمینار ہوں، غیر ملکی دورے کیے جائیں یا وزرائے خزانہ سرمایہ کاری کے نعرے لگائیں — جب تک ریاست اپنا رویہ نہیں بدلے گی، پائیدار سرمایہ کاری کا خواب خواب ہی رہے گا۔ایک بار پھر ریاست غیر ملکی سرمایہ کاروں کو لبھانے کی کوشش کر رہی ہے — خصوصی شعبوں جیسے کہ معدنیات میں ٹیکس چھوٹ، سبسڈی اور دیگر مراعات کا لالچ دیا جا رہا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر رعایت ایک دن ریاست کے گلے میں مالی بم بن کر پھٹتی ہے۔ آج کی سبسڈی کل کی مالی تباہی بن جاتی ہے۔قومی ایئرلائن سے لے کر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں تک، ناکام نجکاری کے تجربات ہمیں یہی سبق دیتے ہیں کہ سرمایہ کاری صرف مراعات سے نہیں بلکہ اعتماد سے آتی ہے۔ اور جب ریاست ایک بڑے منصوبے کو تکمیل تک نہیں پہنچا پاتی، تو یہ اس کی نااہلی ہی نہیں بلکہ اس کے اعتماد کے قحط کی بھی دلیل ہے۔پاکستان کو اس وقت اعتماد کے بحران کا سامنا ہے — یہ بحران سرمایہ کی کمی سے زیادہ خطرناک ہے۔ ریاست کو اب وہی کچھ کرنا ہوگا جو وہ برسوں سے کہتی آ رہی ہے، مگر کرتی نہیں۔ پالیسیوں میں تسلسل لانا ہوگا تاکہ ہر حکومت کے ساتھ پالیسیاں تبدیل نہ ہوں۔ سرمایہ کار کو یقین ہو کہ جو وعدہ آج کیا گیا ہے وہ کل بھی قائم رہے گا۔ معاہدوں کی حرمت برقرار رکھنی ہوگی اور قانونی معاہدوں کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ کارپوریٹ ٹیکس کے بوجھ کو کم کر کے سرمایہ کاروں کے لیے سانس لینے کی جگہ پیدا کرنی ہوگی۔ توانائی کی پالیسیوں کو صنعت دوست بنانا ہوگا۔ اور ان اداروں کو واقعی سہولت فراہم کرنے والا بنانا ہوگا جو اس وقت رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں مسئلہ پیسہ نہیں بلکہ یقین کا ہے۔ ریاست، بار بار سرمایہ کاروں کو سہانے خواب دکھاتی ہے مگر ہر خواب کے بعد بیداری کی اذیت اور وعدہ خلافی کا طوفان آتا ہے۔ یہ روش اگر جاری رہی تو سرمایہ کار صرف وقتی مہمان رہیں گے — جو منافع دیکھ کر آتے ہیں اور بے یقینی دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔وقت آ چکا ہے کہ ریاست خود پر اعتماد بحال کرے — کیونکہ جب تک ریاست خود کو معتبر نہیں بناتی، سرمایہ کار اسٹیج پر واپس نہیں آئیں گے۔ اور معیشت کا پردہ — جو پہلے ہی بار بار گر چکا ہے — شاید ہمیشہ کے لیے تاریکی میں گم ہو جائے۔سرمایہ واپس بلانے کے لیے صرف تقریریں کافی نہیں، کردار اور عمل درکار ہے — اور یہی اصل اصلاحات کی بنیاد ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں