سرفراز بگٹی بلوچستان کے بلامقابلہ وزیراعلی ٰمنتخب ہوگئے ہیں۔ ان کا بلا مقابلہ انتخاب بلوچستان کے سیاسی منظر نامے میں کئی اہم فریقین کی جانب سے عدم دلچسپی کا عکاس ہے۔ جمعیت علمائے اسلام- ف (11 نشستیں)، نیشنل پارٹی(3 نشستیں) ، عوامی نیشنل پارٹی (2)، بی این پی (اے، 1 نشست) ، سنّی اتحاد کونسل- پی ٹی آئی (1 نشست) نے اس انتخاب کا مکمل بائیکاٹ کیا اور انہوں نے اس سے پہلے اپنے آپ کو اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب سے بھی الگ رکھا تھا- نو منتخب چیف منسٹر سرفراز بگٹی کے لیے یہ کوئی نیک شگن نہیں ہے۔ خود پاکستان پیپلزپارٹی جس میں انھوں نے انتخابات کے اعلان کے بعد شمولیت اختیار کی تھی کے اندر چاروں صوبوں، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر سے بہت بڑی تعداد میں جیالوں نے نہ صرف سرفراز بگٹی کی پارٹی میں شمولیت پر اعتراضات اٹھائے تھے بلکہ انہوں نے سرفراز بگٹی کو چیف منسٹر نامزد کرنے کی مخالفت بھی کی تھی- سرفراز بگٹی کے لیے یہ بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ خود اپنی جماعت کے اندر اپنی مخالفت اور بلوچستان اسمبلی میں موجودہ سیٹ اپ سے لاتعلق نظر آنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اچھے ورکنگ ریلشن قائم کرنا کافی مشکل ٹاسک اور چیلنج ہوگا- بطور چیف منسٹر سرفراز بگٹی کے لیے دوسرا بڑا چیلنج عسکریت پسندی، دہشت گردی کا خاتمہ اور شورش زدہ علاقوں میں امن قائم کرتے ہوئے انسانی حقوق سے جڑے مسائل کو ل کرنے کا ہوگا- بطور وزیر داخلہ وہ بلوچ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں- ان پر الزام ہے کہ وہ بلوجستان میں ہونے والی مبینہ جبری گمشدگیوں بارے معذرت خواہانہ اور بعض کے نزدیک اس کے جواز کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں- بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف سب سے زیادہ متحرک اور حال ہی میں ملکی و بین الاقوامی میڈیا پر شہرت پانے والی تنظیم بلوچ یک جہتی مارچ کی سیلیبرٹی بن جانےوالی نوجوان خواتین رہنماء بشمول ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی ان کی شدید ناقد رہی ہیں- انہیں بلوچستان کی ناراض نوجوان نسل سے بھی انتہائی شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بطور چیف منسٹر سرفراز بگٹی کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہوگا اور یہ عہدہ ان کے لیے پھولوں کی سیج نہیں ہوگا-
زراعت میں خواتین کاشتکاروں کا تحفظ
پاکستان میں دیہی علاقوں میں لیبر ورک فورس محنت کی افرادی قوت کے تحفظ اور ان کے لیبر رائٹس کا سوال ہمیشہ سے ہی نظر انداز کیے جانے کی حدود میں داخل رہا ہے۔ خاص طور پر سرائیکی وسیب، اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں یہ کافی سنگین حالات کا شکار رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں زراعت کے شعبے میں محنت کی افرادی قوت میں صنفی لحاظ سے عورتوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے- اب تک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق زراعت کے شعبے میں عورتوں کی محنت کی افرادی قوت / ویمن لیبر ورک فورس کل محنت کی افرادی کی قوت کا 74 فیصد ہے۔ اس کے باوجود زراعت کے شعبے میں عورتوں کی محنت کے کردار کو بہت ہی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس بات کی تصدیق تنظیم برائے خوراک و زراعت – ایف اے او کی حالیہ رپورٹ بعنوان ‘ پاکستان میں خواتین کاشتکاروں کو درپیش مسائل’ میں کیا گیا ہے۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ ملک کی خواتین لیبر فورس کا ایک قابل ذکر 74 فیصد زراعت میں کام کرتا ہے، اس شعبے میں خواتین کی طرف سے توجہ نہ دینا انتہائی پریشانی کا باعث ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ان کی حالت زار کے بارے میں ناقص علم ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے مسائل کو حل کرنے والی پالیسی سازی کی عدم موجودگی ہے۔ ایک اہم طریقہ.تنظیم برائے خواتین کا مطالعہ، چار بڑی فصلوں – کپاس، مکئی، گندم اور سبزیوں/پھلوں کی پیداوار میں مصروف خواتین کسانوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے – نیز ماہی گیری اور لائیو اسٹاک کے شعبوں میں، ملک کی غذائی تحفظ میں ان کے اہم شراکت پر روشنی ڈالتا ہے، موسمیاتی تبدیلی کی لچک اور بڑے پیمانے پر معیشت۔ یہ اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح ان کی شراکتوں کو تسلیم نہ کرنے کا فقدان خود کو مختلف طریقوں سے ظاہر کرتا ہے، بشمول زمین، قرض، پانی، ٹیکنالوجی اور دیگر زرعی آدانوں جیسے وسائل تک غیر مساوی رسائی، نیز کمیونٹیز کے اندر فیصلہ سازی کی محدود طاقت۔ درحقیقت، ان کی محنت کا اعتراف نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی طور پر ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جہاں اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو ان کے مرد ہم منصبوں کے برعکس شاذ و نادر ہی ‘کسان’ کہا جاتا ہے۔ یہ بدلے میں موجودہ تفہیم سے منسلک ہے کہ کسان کو کس پر غور کرنا ہے، یہ تفصیل اکثر ان افراد کے لیے مخصوص ہوتی ہے جو اس زمین کے مالک ہوتے ہیں جس پر وہ کام کرتے ہیں۔ جیسا کہ تنظیم برائے خواتین کی رپورٹ بتاتی ہے، یہ پاکستان کے کسانوں کی ایک بڑی تعداد کو چھوڑ کر ختم ہو جاتا ہے، خاص طور پر خواتین، جن کے پاس اپنی زمین کاشت کرنے کے لیے نہیں ہے۔ ملک کے بہت سے حصوں میں زراعت پر حاوی ہونے والے پرانے جاگیردارانہ نظام کے نقصان دہ اثر کو دیکھتے ہوئے، زمین کی ملکیت کو چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز کرنے سے، یہ صرف اس شعبے میں موجود صنفی عدم مساوات کو بڑھاتا ہے، اور بہت زیادہ محنتی خواتین کسانوں کو اس سے روکتا ہے۔ انتہائی ضروری فوائد اور خدمات تک رسائی حاصل کرنا۔ خواتین کسانوں کو درپیش تحفظ کے مسائل کا ایک سرسری جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ انہیں مساوی قیمت کے کام کے لیے غیر مساوی اجرت ملتی ہے، 12 سے 18 گھنٹے کے کام کے دنوں تک کام کے بھاری بوجھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ کام کے غیر محفوظ حالات سے متعلق چیلنجوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرد کسانوں، جاگیرداروں اور دکانداروں کے ہاتھوں ہراساں کیے جانے اور جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے مسائل کے ساتھ جو اپنی پیداوار خریدتے ہیں، بڑے پیمانے پرتنظیم
برائے خواتین نے عورت فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں متعدد دیگر خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کا سامنا پنجاب میں کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو ہوتا ہے، جیسے کہ حفاظتی پوشاک کی کمی، کیمیکلز کی نمائش، جو ان کی تولیدی صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے- ان کی مشکلات میں اضافہ یہ حقیقت ہے کہ خواتین سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر گھریلو کام کی ذمہ داری اٹھائیں، ان کے کام کا بوجھ دوگنا ہو جائے۔
ان کو درپیش چیلنجوں کی کثرت کے پیش نظر، ان تمام خواتین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی اشد ضرورت ہے جو کٹائی، فصل کے بعد کے کاموں کے ساتھ ساتھ مویشیوں اور ماہی گیری سے متعلق کام انجام دیتی ہیں، بطور ‘کسان’۔ اس کے علاوہ، کم از کم اجرت کا تعین اور خواتین کے معاوضے کو یقینی بنانا ان کے مرد ہم منصبوں سے کم نہیں، زرعی سامان تک ان کی رسائی کو بہتر بنانا، اور تشدد اور معاشی استحصال سے نمٹنے کے لیے طریقہ کار وضع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ یہاں زمین کی ملکیت کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا اور حکومت بہتر کرے گی کہ غیر استعمال شدہ سرکاری زمین خواتین کسانوں کو الاٹ کرے اور پھر انہیں وسائل، تعلیم اور تربیت فراہم کرے تاکہ ان کی کامیابی میں مدد مل سکے۔یہ دیکھتے ہوئے کہ زراعت ملک کی خواتین لیبر فورس کی اکثریت کو ملازمت دیتی ہے، اس شعبے کی اصلاحات جو اسے خواتین کے لیے زیادہ مساوی اور محفوظ علاقہ بناتی ہیں ضروری ہیں اور ایسی چیز جس میں مزید تاخیر نہیں کی جانی چاہیے-
او جی ڈی سی ایل کی ‘پالیسی برائے ماحولیات، سماجیات و گورننس ‘
آئل اینڈ گیس ڈولیپمنٹ کمپنی لمیٹڈ – او جی ڈی سی ایل نے ‘پالیسی برائے ماحولیات، سماجیات و گورننس’ متعارف کرائی ہے۔ یہ کمپنی کے کام کو مستحکم اور پائیدار بنانے والی فعالیت کی طرف لے جانے والا اقدام ہے جس کی تحسین کی جانا بنتی ہے۔ کمپنی کی طرف سے اس پالیسی کا نفاذ 27 فروری 2024 کو کیا گیا تھا- پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری تیل و گیس کی ڈویلپمنٹ کمپنیوں پر سرمایہ داروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کا اصرار تھا کہ وہ ماحولیات، سماجیذمہ داری اور گورننس کے معاملات میں شفافیت کو بہتر بنائے۔ اس پالیسی میں او جی ڈی سی ایل نے ماحولیات کو بہتر بنانے، سماجی ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے اور مضبوط کارپوریٹ گورننس کو لاگو کرنے کے لیے رہنماء اصول اور ضابطوں کو متعارف کرایا ہے۔ یہ پالیسی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے، سماجی سطح پر زیادہ سے زیادہ شمولیت پسندی کی ثقافت کو فروغ دینے اور گورننس کے اعلی معیارات کو قائم کرنے بارے کمپنی کے عزائم اور حکمت عملی کی تفصیلات کو بیان کرتی ہیں- اس نئی متعارف کرائی جانے والی پالیسی کو کمپنی کے معاملات چلانے کےلیے مربوط اور پائیدار طریقوں کو اختیار کرنے کے لیے ایک بنیادی اقدام کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس پالیسی کے اطلاق سے عالمی بہترین طریقوں سے جوڑنے میں مدد ملے گی- اس سے او جی ڈی سی ایل کی شفافیت کے ساتھ کمٹمنٹ کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے کمپنی کے اندر پرانے نوکر شاہی طریقوں سے نجات دلانے میں مدد ملے گی۔