آج کی تاریخ

تازہ ترین

سترہ اگست: تاریخ کا آسیب

سترہ اگست کا دن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ایسے ہولناک سانحے کی یاد دلاتا ہے جس نے نہ صرف ایک فوجی آمریت کے خاتمے کو نشان زد کیا بلکہ ہماری اجتماعی یادداشت میں ایک ایسا شگاف چھوڑا جو آج بھی پُر نہیں ہوسکا۔ 1988ء کو بہاولپور کے قریب جنرل ضیاء الحق کا سی-130 طیارہ محض چند لمحوں کی پرواز کے بعد زمین سے جا ٹکرایا۔ اس حادثے میں صدر پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل اختر عبد الرحمن، کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی خان، امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور امریکی دفاعی اتاشی جنرل ہربرٹ واسم سمیت کل تقریباً 30 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حادثہ محض ایک طیارہ گرنے کا واقعہ نہ تھا بلکہ ایک پوری سیاسی، عسکری اور سماجی ساخت کے لیے بھونچال ثابت ہوا۔ آج اس واقعے کو 37 برس گزر جانے کے بعد بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ حادثہ تھا یا سازش؟ اور اگر سازش تھی تو سازش کے تانے بانے کہاں کہاں سے ملتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کا دور محض ایک فوجی آمریت نہ تھا بلکہ ریاست اور معاشرے کے پورے ڈھانچے کو بدلنے کی ایک منصوبہ بندی تھی۔ اسلام کے نام پر آمریت کو دوام بخشنے کا عمل دراصل جمہوریت کے بنیادی ستونوں کو کمزور کرنے کی مہم تھی۔ وفاقی اکائیوں کو تقسیم کیا گیا، عوامی سیاست کی جڑوں پر کلہاڑا مارا گیا اور سماجی انصاف کو نعرے کی سطح تک محدود کر دیا گیا۔ طلباء یونینز جو کل تک عوامی قیادت کی نرسریاں تھیں، ان پر پابندی لگا دی گئی۔ مزدور ٹریڈ یونینز جنہیں اجتماعی حقوق کی علامت سمجھا جاتا تھا، کچل دی گئیں۔ سیاسی جماعتوں کو بے اثر بنا دیا گیا اور یوں عوامی سیاست بانجھ کر دی گئی۔ یہ وہ زخم ہیں جو آج بھی ناسور کی طرح موجود ہیں اور جن کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت بار بار ایک کھوکھلے ڈھانچے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اسی دور کی ایک اور بھیانک میراث اسلحے اور منشیات کی یلغار تھی۔ افغان جہاد کے نام پر کھولا جانے والا یہ دروازہ دراصل پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں بارود اور ہیروئن کلچر کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن گیا۔ اسمگلنگ، بلیک منی اور غیر قانونی تجارت نے ایسے طبقات کو جنم دیا جنہوں نے ناجائز دولت کے بل پر سماج پر قبضہ کر لیا۔ ریاستی ادارے بدعنوانی کے اڈے بن گئے، رشوت اور سفارش کو معمول بنا دیا گیا اور سیاست بے اصولی کے کھیل میں ڈھل گئی۔ خاندانی قبضے اور وراثتی سیاست مضبوط ہوئی اور یوں عوامی نمائندگی کے بجائے مخصوص طبقات نے اقتدار پر گرفت قائم کر لی۔ ضیاء الحق کے دور نے پاکستان میں کرپشن کو محض ایک عمل نہیں بلکہ ایک کلچر کی صورت میں پروان چڑھایا۔
فرقہ واریت اور لسانی تقسیم کا زہر بھی اسی دور میں سماج کی رگوں میں اتارا گیا۔ مذہب کے نام پر طاقت کے کھیل نے پورے معاشرے کو مسلکی خانوں میں بانٹ دیا۔ زبان اور نسل کی بنیاد پر سیاست کو ہوا دی گئی اور یوں قوم مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئی۔ آج جب ہم کراچی میں لسانی فسادات، پنجاب اور سندھ میں فرقہ وارانہ قتل و غارت یا بلوچستان میں نسلی سیاست دیکھتے ہیں تو یہ سب اسی بیج کی پیداوار ہے جو ضیاء الحق کے دور میں بویا گیا تھا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس آسیب کو بھگانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ سیاسی جماعتوں نے کی، نہ صحافتی اداروں نے، نہ بار ایسوسی ایشنز اور نہ ہی پروفیشنل باڈیز نے۔ وہ تمام ادارے جو سماج کی سمت درست کرسکتے تھے، خود طاقتور پریشر گروپوں اور مافیاز میں بدل گئے۔
آج کا پاکستان اسی ورثے کا اسیر ہے۔ سیاسی آزادی ایک خواب بن چکی ہے، مذہبی آزادی محدود ہو کر رہ گئی ہے، جمہوریت کھوکھلی ہوچکی ہے اور معاشی انصاف کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ یہ ملک اشرافیہ کی چراگاہ بن چکا ہے جہاں متوسط طبقے کی دانش بھی عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دے رہی۔ 17 اگست کا سانحہ محض ایک طیارہ حادثہ نہیں تھا، یہ پاکستان کے سیاسی مستقبل پر ایک سیاہ دھبہ تھا جس نے آج تک ہماری سیاست، معیشت اور سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں کسی ایک دور کے بھی سرکاری خفیہ ریکارڈ کو ڈی کلاسیفائیڈ نہیں کیا گیا۔ اگر 1988ء تک کے ریکارڈ کو ہی عوام کے سامنے لے آیا جاتا تو بہت سے سوالوں کے جواب مل سکتے تھے۔ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ 1948ء میں کشمیر میں قبائلی لشکر بھیجنے کا فیصلہ کس نے اور کیوں کیا؟ 1953ء میں ڈھاکہ کے طلباء پر فائرنگ کا حکم کس نے دیا؟ لیاقت علی خان کے قتل کے وقت ریاستی اداروں کے کاغذات کیا کہتے تھے؟ ایوب خان کے مارشل لا، تاشقند معاہدے، اگر تلہ سازش کیس، یحییٰ خان کے اقدامات، بھٹو حکومت کے خلاف فوجی آپریشن، ضیاء الحق کے دور کی سیاسی و مذہبی سرگرمیوں، بھٹو کی پھانسی اور پھر مشرف کے دور کی خفیہ سفارت کاری تک—یہ سب اگر عوام کے سامنے آتا تو ہماری سیاسی تاریخ میں موجود دھند چھٹ سکتی تھی۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور ہم آج بھی سوالیہ نشانات میں گھرے ہوئے ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے سانحات، سازشیں اور خفیہ فیصلے کبھی بھی روشنی میں نہیں لائے گئے۔ 17 اگست کا حادثہ ہو، 1971ء کا سانحہ، بھٹو کی پھانسی، بے نظیر بھٹو کا قتل یا پھر مشرف دور کے خفیہ معاہدے—سب ایک آسیب کی طرح ہمارے سماج پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ سایہ صرف ماضی کا نہیں بلکہ حال اور مستقبل کا بھی ہے کیونکہ جب تک سچ عوام کے سامنے نہیں آئے گا، قوم نہ تو یکجا ہو سکے گی اور نہ ہی درست سمت کا تعین کرسکے گی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے نوآبادیاتی ورثے کو چھوڑ کر کم از کم 1947ء سے 2007ء تک کے خفیہ ریکارڈ کو ڈی کلاسیفائیڈ کرے تاکہ افواہوں، کلیشوں اور تضادات کی سیاست کا خاتمہ ہو اور قوم کو آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے ایک صاف اور شفاف فریم ورک میسر آسکے۔ یہی راستہ ہے جس سے پاکستان اپنی تاریخ کے آسیبوں کو بھگا سکتا ہے اور ایک نئی شروعات کر سکتا ہے۔
پاکستان کے عوام دہائیوں سے تاریخ کو سنسر شدہ کتابوں، حکومتی بیانیوں اور طاقتور اداروں کی منتخب کردہ داستانوں کے ذریعے جانتے آئے ہیں۔ اس عمل نے اجتماعی شعور میں شکوک و شبہات کو جڑ پکڑنے کا موقع دیا۔ جب ایک قوم اپنی ہی تاریخ کے بارے میں اندھیروں میں رکھی جاتی ہے تو اس کی اجتماعی یادداشت بکھر جاتی ہے، اور وہ افواہوں، سازشی نظریات اور نیم سچائیوں پر یقین کرنے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کسی سانحے یا قتل کے بعد اصل سوالات دب جاتے ہیں اور عوام کو محض مفروضوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
یہی پراسراریت ریاستی اور سماجی سطح پر اعتماد کے فقدان کو جنم دیتی ہے۔ شہری اپنے اداروں پر اعتبار نہیں کرتے کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اصل حقائق ان سے چھپائے جا رہے ہیں۔ سیاست دان ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں، صحافت افواہوں کو بڑھاوا دیتی ہے اور عوام مایوسی میں مزید تقسیم ہو جاتے ہیں۔ قوم کی اجتماعی توانائی تعمیری مقاصد کی بجائے سازشوں کے بھنور میں ضائع ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ریاست ماضی کے راز کھولنے اور سچ کو عوام کے سامنے لانے کی جرات نہیں کرتی۔
اس کے برعکس دنیا کے کئی ممالک نے اپنے کڑوے سچ عوام کے سامنے رکھے اور اس عمل کے ذریعے مستقبل کو بہتر بنانے کا راستہ ہموار کیا۔ امریکہ میں جان ایف کینیڈی کے قتل کی فائلیں ہو یا جنوبی افریقہ میں ٹرتھ اینڈ ریکنسلی ایشن کمیشن کی کارروائیاں، یہ سب مثالیں بتاتی ہیں کہ قومیں اپنے ماضی کے سچ کو چھپانے کے بجائے سامنے لا کر ہی اعتماد بحال کر سکتی ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی یہی راستہ ہے: ریکارڈ ڈی کلاسیفائیڈ کیا جائے، قومی سطح پر مکالمہ ہو، اور یہ طے کیا جائے کہ تاریخ کو اب مزید دبایا نہیں جائے گا۔
اگر یہ عمل نہ کیا گیا تو پاکستان مسلسل اسی دائرے میں گھومتا رہے گا جہاں ہر سانحہ ایک نئے معمہ میں بدل جاتا ہے اور ہر قتل، ہر حادثہ، ہر فیصلہ آنے والی نسلوں کے لیے سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے۔ قومیں رازوں اور دھند میں آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ سچائی کو سامنے لانے ہی سے قوم کو نیا اعتماد، نیا بیانیہ اور نیا راستہ ملے گا۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے پاکستان اپنے آسیب زدہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر ایک صحت مند، باشعور اور متحد مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں