وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے حالیہ بیان میں امید ظاہر کی ہے کہ یہ نیا عدالتی ادارہ ’’آنے والی نسلوں کے لیے آئینی عملداری کا محافظ اور انصاف کی علامت‘‘ ثابت ہوگا۔ ان کے الفاظ اعلیٰ عدلیہ کے وقار اور آئین کی بالادستی کے حوالے سے یقیناً پرعزم ہیں، مگر اس پورے معاملے کے گرد وہ تشویش بھی پوری طرح موجود ہے جس نے ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت نہ صرف اپوزیشن بلکہ عدلیہ کے ایک بڑے حصے کو بھی بے چین کر رکھا تھا۔ چیف جسٹس کا یہ اندازِ گفتگو، اگرچہ امید افزا ہے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا یہ ادارہ واقعی آئینی بالادستی کی مضبوط علامت بنے گا یا اسے سیاسی و انتظامی مفادات کے لیے استعمال کیا جائے گا؟وفاقی آئینی عدالت کا قیام ستائیسویں ترمیم کے ذریعے عمل میں آیا، جس کے بارے میں حکومتی وضاحت یہ تھی کہ اس سے سپریم کورٹ پر پڑا بوجھ کم ہوگا، آئینی نوعیت کے مقدمات کو جلد نمٹانا ممکن ہوگا اور عدلیہ کی خودمختاری و ساکھ مضبوط ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ترمیم کے ڈھانچے اور اس کے اطلاق کے طریقۂ کار نے عدالتی حلقوں، وکلاء برادری اور جمہوری قوتوں میں گہرے خدشات پیدا کیے۔ ایک نیا عدالتی ادارہ، جو سپریم کورٹ کی آئینی تشریحات کے برابر یا متوازی حیثیت رکھے، خود اس بات کا اشارہ ہے کہ ریاست عدلیہ کے فیصلوں سے خوش نہیں اور آئینی تشریحات پر اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔چیف جسٹس امین الدین خان نے اپنے پیغام میں اس بات پر زور دیا کہ وفاقی آئینی عدالت ’’وضاحت، آزادی اور امانت داری‘‘ کے ساتھ آئین کی تشریح کرے گی، بنیادی حقوق کا تحفظ کرے گی اور ریاستی اداروں کے درمیان توازن برقرار رکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عدالت کا ہدف محض فیصلے سنانا نہیں بلکہ ملکی شہریوں کی زندگیوں اور آزادیوں پر براہِ راست اثرانداز ہونے والا ایک مقدس فریضہ ہے۔ لیکن یہ سوال کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے کہ جب آئینی ترمیم کے ذریعے ایک نئی عدالت بنائی گئی، تو اس کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے؟ اگر مقصد واقعی انصاف اور تیز تر فیصلے ہیں تو پھر عدلیہ کے موجودہ ڈھانچے کو مضبوط کیوں نہیں کیا گیا؟ سپریم کورٹ کے بنچوں کی تعداد، افتاد اور عملے میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا؟ موجودہ عدالتی اصلاحات کو بہتر کرنے کی بجائے ایک نئی عدالت کا قیام بذاتِ خود سیاسی ارادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں نئے ریکارڈ روم کے لیے مخصوص جگہ کا معائنہ کیا اور سپریم کورٹ کی متعلقہ فائلوں کو وہاں منتقل کرنے کی منظوری دے دی۔ یہ اقدام بظاہر انتظامی نوعیت کا ہے، مگر اس کے ذریعے واضح ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات اور آئینی معاملات اب ایک نئے اور متوازی ادارے کے پاس منتقل کیے جا رہے ہیں۔ اس عمل نے ان خدشات کو مزید مضبوط کر دیا ہے کہ ستائیسویں ترمیم کے تحت بنائی جانے والی عدالت آئینی ڈھانچے میں توازن قائم کرنے کے بجائے اختیارات کی نئی تقسیم کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ اس بات کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ مستقبل میں کسی بڑے سیاسی تنازع پر اصل آئینی تشریح اور عدالتی اتھارٹی کے سوال پر سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہوں۔پاکستان کی عدلیہ پہلے ہی بار بار اس تنقید کا سامنا کرتی رہی ہے کہ اس کے اندر سیاسی تقسیم موجود ہے، فیصلے سیاسی رجحانات کے زیرِ اثر آتے ہیں، اور آئین کی تشریح میں نظریاتی اختلافات ہیں۔ ایسے ماحول میں ایک نئے آئینی ادارے کا قیام مزید پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔ اگر آئینی عدالت مستقبل میں سپریم کورٹ کے کسی فیصلے سے مختلف رخ اختیار کرتی ہے، تو ملکی آئینی نظام دو متوازی تشریحات کے دباؤ کا شکار ہو جائے گا۔ ایسی صورتِ حال میں نہ صرف انصاف کے تسلسل میں خلل پڑے گا بلکہ پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ کے باہمی تعلقات بھی غیر مستحکم ہو جائیں گے۔وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے پس منظر میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ عدالت واقعی سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد رہ سکے گی؟ بہتر حالات تو یہ تھے کہ سپریم کورٹ کو مضبوط کیا جاتا، اس کے اندر اصلاحات کی جاتیں، مقدمات کے بوجھ کو تیز تر کارروائی کے ذریعے کم کیا جاتا۔ مگر حکومت نے ایک نیا فورم بنا کر بنیادی آئینی ڈھانچے میں مداخلت کی فضا پیدا کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس ترمیم کو غیر ضروری، مشکوک اور عدالتی نظام میں مداخلت سے تعبیر کیا۔پاکستان میں آئینی عمل داری کا بحران کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے، شہری آزادیوں، اداروں کے اختیارات اور عدالتی تشریحات پر سیاسی کش مکش ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ ایسے ماحول میں وفاقی آئینی عدالت کا کردار صرف اسی صورت مؤثر ہو سکتا ہے جب وہ آئین کو سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر دیکھے۔ چیف جسٹس امین الدین خان نے اگرچہ وعدہ کیا ہے کہ ہر مقدمے کو ’’غیر متزلزل غیر جانب داری‘‘ کے ساتھ دیکھا جائے گا، مگر ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ عدالتی ادارے خواہ کتنے ہی بلند عزائم رکھیں، بیرونی دباؤ اور سیاسی محاذ آرائی انہیں اپنی راہ سے ہٹا دیتی ہے۔نئی عدالت کا اصل امتحان تب شروع ہوگا جب کوئی بڑا آئینی تنازع اس کے سامنے آئے گا۔ کیا وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا احترام کرے گی؟ کیا وہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کو حکومتی ترجیحات پر مقدم رکھے گی؟ کیا وہ پارلیمان اور انتظامیہ کے ساتھ ایسا توازن قائم کر پائے گی جس کے بغیر کوئی بھی آئینی نظام مستحکم نہیں رہ سکتا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ابھی تک بے جواب ہیں۔عدلیہ کی ساکھ اُس وقت مضبوط ہوتی ہے جب اس کے فیصلے عوامی اعتماد حاصل کریں، سیاسی وابستگیوں سے پاک ہوں، اور آئین کی اصل روح کی ترجمانی کریں۔ ایک نئی عدالت بنانا اس وقت تک مفید نہیں جب تک پوری عدلیہ ایک متحد، شفاف اور مؤثر ادارہ نہ بن جائے۔ محض عمارت بدل دینے یا فائلیں منتقل کر دینے سے آئینی بحران حل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے آزاد عدلیہ، مضبوط ادارے، سیاسی بالغ نظری اور آئینی احترام پر مبنی طرزِ حکمرانی درکار ہے۔ستائیسویں ترمیم کی مخالفت کرنے والوں کا مؤقف تھا کہ آئینی ڈھانچے میں ایسی مداخلت سے حکومتی اختیار میں اضافہ ہوگا، عدلیہ تقسیم ہوگی اور سپریم کورٹ کی بالا دستی متنازع بنے گی۔ اس وقت یہ خدشات محض سیاسی بیانیہ سمجھے گئے، مگر اب جب وفاقی آئینی عدالت نے اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال شروع کر دیا ہے، یہ خدشات حقیقت بننے کے قریب دکھائی دیتے ہیں۔وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو تاریخ کس نظر سے دیکھے گی؟ اس سوال کا جواب آج نہیں دیا جا سکتا۔ یہ عدالت آئین کی حفاظت کرتی ہے یا آئین کی تعبیر کو سیاسی مفاد کے تابع کرتی ہے، یہ آنے والے برسوں میں کھل کر سامنے آئے گا۔ لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست، حکومت اور عدلیہ مل کر اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ یہ نئی عدالت آئینی توازن کو بگاڑنے کے بجائے بہتر بنائے، اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں وہ کردار ادا کرے جو کسی بھی آئینی ریاست کی بنیاد ہوتا ہے۔اگر وفاقی آئینی عدالت واقعی انصاف، شفافیت اور آئینی خودمختاری کی علامت بن گئی تو یہ پاکستان کے لیے ایک تاریخی قدم ہوگا۔ لیکن اگر یہ عدالت سیاسی مفاد، طاقت کے کھیل اور ادارہ جاتی تقسیم کی علامت بن گئی تو یہ نہ صرف عدالتی نظام بلکہ آئینی وحدت کے لیے بھی سب سے بڑا خطرہ ہوگا۔ پاکستان اس وقت کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے لازم ہے کہ ہر قدم آئینی اصولوں، عدالتی وقار اور عوامی اعتماد کی بنیاد پر اٹھایا جائے۔







