ایک کشتی، 86 مسافر، 13 دن کی بے سمت بھٹک، اور 50 لاشیں۔ یہ کوئی عام خبر نہیں، یہ ایک اجتماعی سانحہ ہے، ایک ایسی المناک داستان جو ہمارے معاشرے، نظام، اور عالمی بے حسی کو عیاں کرتی ہے۔ گہرے نیلے پانیوں میں غرق یہ زندگی کی لڑائی لڑنے والوں کی کہانی ہے، جن کے خواب سمندر کی تہہ میں دفن ہو گئے۔ اگر آپ کا دل اس خبر پر نہیں دہلتا، تو شاید ہمیں اپنے اجتماعی ضمیر کا جائزہ لینا چاہیے۔یہ کہانی مغربی افریقی ملک موریطانیہ سے شروع ہوتی ہے، جہاں ایک کشتی نے یورپ کے کینری جزائر کی طرف سفر شروع کیا۔ اس کشتی میں 86 افراد سوار تھے، جن میں سے 66 پاکستانی تھے۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق پنجاب کے ضلع گجرات اور منڈی بہاؤالدین کے گاؤں سے تھا، جنہوں نے بہتر مستقبل کے خواب دیکھے تھے۔ وہ اس امید پر اپنے گھروں سے نکلے کہ شاید یورپ کی سرزمین ان کی مشکلات کا خاتمہ کرے گی۔ لیکن ان کی منزل کبھی نہ آئی۔کشتی کو سمندر میں 13 دن تک بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ بھوک، پیاس، خوف اور مایوسی ان مسافروں کے ساتھی بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب سمندر کا ہر ایک لمحہ موت کے قریب لے جا رہا تھا۔ موریطانیہ سے روانہ ہونے کے بعد، کشتی کا رخ مغربی صحارا کے قریب جا کر پلٹا، جہاں یہ “الٹ” گئی، جیسا کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بتایا۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے: کشتی الٹنے سے پہلے ان لوگوں پر جو ظلم کیا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟زندہ بچ جانے والوں کے مطابق، ان پر جسمانی تشدد کیا گیا۔ ان کے بیانات نے ایک اور خوفناک حقیقت کو بے نقاب کیا: مقامی حکام نے ان پر ہتھوڑوں سے حملہ کیا، ان کو بھوکا رکھا، اور ان کی بے بسی کا فائدہ اٹھایا۔ وہ صرف سمندر کے رحم و کرم پر نہیں تھے، بلکہ انسانی ظلم کا شکار بھی تھے۔ کیا یہ تشدد ان اسمگلرز نے کیا، جنہوں نے انہیں غیر قانونی طریقوں سے یورپ بھیجنے کا وعدہ کیا تھا؟ یا یہ ظلم ان حکام کا تھا جو اس جرم کو روکنے کے بجائے اس میں ملوث تھے؟زندگی اور موت کی اس جنگ میں صرف 36 افراد بچ سکے، جنہیں بعد میں مراکش کے حکام نے ریسکیو کیا۔ لیکن وہ جو سمندر کی گہرائیوں میں دفن ہو گئے، ان کے اہل خانہ کو صرف ایک خبر ملی: “آپ کے پیارے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔” گجرات کے گاؤں دھولا، جورا کرنانہ، اور گھرکو جیسے علاقے ماتم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان گاؤں کے کم از کم 12 نوجوان ان مسافروں میں شامل تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن آج، ان کے والدین کے ہاتھوں میں وہ جنازے بھی نہیں جنہیں وہ دفن کر سکیں۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بیان دیا کہ “ہمارا بحران انتظامی یونٹ فعال ہو چکا ہے، اور سفارت خانہ مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے۔” لیکن یہ الفاظ متاثرہ خاندانوں کے لیے محض ایک رسمی کاروائی کے سوا کچھ نہیں۔ وہ جو دن رات اپنے پیاروں کی خبر کے انتظار میں رہے، انہیں صرف تسلی کے جملے ملے۔ کیا یہ کافی ہے؟ کیا یہ ان ماں باپ کے دکھ کو کم کر سکتا ہے جو اپنے بیٹے کی شادی کے خواب دیکھ رہے تھے لیکن اب ان کی لاش کے منتظر ہیں؟وزیرِ اعظم شہباز شریف نے “سخت کارروائی” کا وعدہ کیا ہے اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ لیکن کیا یہ وہی وعدے نہیں جو ہر ایسے واقعے کے بعد کیے جاتے ہیں؟ کیا ہم نے ان وعدوں کو عملی جامہ پہنتے کبھی دیکھا ہے؟ کیا ان اسمگلرز کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے کبھی کوئی جامع حکمت عملی اپنائی گئی ہے؟ یا یہ صرف وقتی بیانات ہیں جو میڈیا کی توجہ کے ختم ہونے کے بعد خود بھی ختم ہو جاتے ہیں؟یہ صرف انسانی اسمگلنگ کی کہانی نہیں، یہ ایک پوری معیشت، نظام اور سماج کی ناکامی کی کہانی ہے۔ وہ لوگ جو اپنی زمین، اپنے خاندان، اور اپنی ثقافت کو چھوڑ کر کسی اور ملک جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، وہ اپنی مرضی سے یہ قدم نہیں اٹھاتے۔ وہ اس لیے نکلتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے ملک میں انہیں کوئی امید نظر نہیں آتی۔کیا یہ نوجوان اتنے بے وقوف تھے کہ وہ جانتے ہوئے بھی موت کے منہ میں چلے گئے؟ نہیں، وہ بے وقوف نہیں تھے۔ وہ صرف بے بس تھے۔ وہ اس ملک میں رہنے کے لیے بے بس تھے جہاں روزگار نایاب ہے، تعلیم کے مواقع محدود ہیں، اور سماجی انصاف کا تصور محض کتابوں میں ہے۔یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، جہاں امیر ممالک اپنی سرحدیں بند کرتے جا رہے ہیں، اور غریب ممالک اپنے لوگوں کو موقع فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اسپین کی میرین ایجنسی کو اس کشتی کے بارے میں چھ دن پہلے اطلاع دی گئی تھی، لیکن کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ یہ عالمی ادارے، جو انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ صرف بیانات جاری کرنے تک محدود کیوں ہیں؟یہ واقعہ ہمیں ایک آئینہ دکھاتا ہے۔ ایک ایسا آئینہ جس میں ہم اپنی اجتماعی ناکامی کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ واقعہ ہمیں اس سوال کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے: ہم اپنے نوجوانوں کے لیے مواقع کیوں نہیں پیدا کر سکتے؟ ہم کیوں ایک ایسا نظام نہیں بنا سکتے جہاں لوگ اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک میں استعمال کر سکیں؟اگر ہم نے ان سوالوں کا جواب نہ دیا، تو یہ سانحہ آخری نہیں ہوگا۔ مزید کشتیاں روانہ ہوں گی، مزید لوگ سمندر میں غرق ہوں گے، اور مزید گاؤں ماتم کناں ہوں گے۔ ہمیں ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جو انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کرے اور ملک کے اندر مواقع پیدا کرے۔آج اگر ہم صرف دکھ کا اظہار کریں گے، تو یہ ان مرنے والوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ یہ نوجوان، جو بہتر زندگی کی تلاش میں نکلے تھے، آئندہ اپنے خوابوں کو سمندر میں دفن کرنے پر مجبور نہ ہوں۔یہ وقت ہے کہ ہم سنجیدگی سے سوچیں اور عمل کریں۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا، تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ 50 جانیں گنوا کر بھی اگر ہم نہ جاگے، تو شاید ہم کبھی نہ جاگیں۔ یہ وقت ہے، صرف بیانات اور وعدوں کا نہیں، بلکہ ان خوابوں کو زندہ رکھنے کا جنہیں ہم نے اپنی غفلت سے دفن کر دیا۔
اونٹ کے منہ میں زیرہ
پاکستان کی معیشت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ورلڈ بینک کی تجویز ایک نئی کمیٹی کے قیام کی صورت میں سامنے آئی ہے، لیکن یہ تجویز اتنی ہی ناکافی محسوس ہوتی ہے جتنی اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ سالوں سے بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے اور قرضوں کے بوجھ نے ملکی معیشت کو بے حال کر رکھا ہے، اور جب تک بنیادی اصلاحات کے لیے سیاسی عزم کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا، یہ مسائل ایک دائرے میں گھومتے رہیں گے۔قرض کے انتظام اور ٹیکس اصلاحات جیسے معاملات کسی چھوٹی موٹی تبدیلی سے حل ہونے والے نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت خود کو زبانی جمع خرچ سے نکال کر عملی اقدامات کی طرف لے کر جائے۔ ورنہ یہ سب کچھ ایک نیم دلانہ کوشش کے سوا کچھ نہیں، جو مسائل کی شدت کے آگے محض ایک چھوٹا سا قدم ہے، یعنی “اونٹ کے منہ میں زیرہ”!ذرا تصور کریں کہ آپ ایک کشتی میں ہیں، جس میں سوراخ ہی سوراخ ہیں، اور پانی بھر رہا ہے۔ آپ کے پاس نہ کوئی بالٹی ہے اور نہ ہی کوئی سہارا۔ اب اسی کشتی کو پاکستان کی معیشت سمجھ لیں، اور اندازہ کریں کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اور دیگر ادارے آپ کو بالٹیاں دینے کے بجائے، مشورے دے رہے ہیں: “پہلے سوراخ بند کریں!”ورلڈ بینک کے تازہ مشورے کے مطابق، پاکستان کو ایک مستقل “قرض اور خطرے کے انتظام کی کمیٹی” بنانی چاہیے۔ سننے میں اچھا لگتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اتنے مہارت یافتہ ملاح موجود ہیں جو یہ معشیت کی کشتی کنارے تک لے جا سکیں؟سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا بجٹ خسارہ برسوں سے ایک پرانی بیماری کی طرح چمٹا ہوا ہے۔ سات فیصد سے اوپر کا خسارہ پچھلے چھ سال سے ہمارا ساتھ دے رہا ہے، اور یہ کسی ایسے مہمان کی طرح ہے جو نہ صرف زیادہ دیر ٹھہرا ہوا ہے بلکہ میزبان کا کھانا بھی ختم کر چکا ہے۔ ورلڈ بینک کہتا ہے کہ ہمیں ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔ مگر اصلاحات؟ یہ تو وہ لفظ ہے جسے ہمارے یہاں صرف کاغذوں پر ہی سنوارا جاتا ہے۔مثلاً، ہمارے ٹیکس کا زیادہ تر بوجھ غیر مستقیم ٹیکسوں پر ہے، جو اشیائے خوردونوش اور خدمات پر لگتے ہیں۔ یہ نظام امیروں کے لیے تو چائے کی چسکی جیسا ہے، لیکن غریبوں کے لیے ایک ایسا بھاری پتھر ہے جو پہلے ہی دبے کندھوں پر رکھا گیا ہو۔ 75 سے 80 فیصد تک کے براہ راست ٹیکس، درحقیقت، غیر مستقیم ٹیکسوں سے جڑے ہیں۔ اور جب ملک کی 41 فیصد آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہو، تو یہ بوجھ ناقابلِ برداشت بن جاتا ہے۔حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے ٹیکس اصلاحات کا وعدہ تو کیا ہے، لیکن عمل کہاں ہے؟ غیر رجسٹرڈ افراد کو نوٹس دینا تو ایک عام حرکت بن چکی ہے، جیسے یہ نوٹس ان کے ضمیر کو جگا دیں گے۔ تاجروں پر ٹیکس لگانے کی جو بہادری دکھائی گئی تھی، اسے بھی تاجروں کی “مطالبات” پر تبدیل کر دیا گیا۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت نے وعدوں کا ایک دکاندارانہ ریکارڈ قائم کیا ہو: “آج کا وعدہ، کل کی تبدیلی!”اب آتے ہیں دوسرے بڑے مسئلے کی طرف: قرض کا انتظام۔ اگر معیشت کو ایک خراب جادوئی شو سمجھیں، تو قرض کا انتظام وہ غائب ہونے والی ٹوپی ہے جسے کوئی واپس نہیں لا سکتا۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت کو “خزانے کا واحد اکاؤنٹ” (Treasury Single Account) بنانا چاہیے، جہاں سب کچھ ایک جگہ جمع ہو۔ یہ ایسا ہے جیسے کوئی خاندان اپنے تمام اخراجات کے لیے ایک ہی اکاؤنٹ استعمال کرے۔ مگر یہاں ہر ادارہ اپنا بینک اکاؤنٹ لیے بیٹھا ہے، جیسے یہ کوئی ذاتی خزانہ ہو۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق، اس واحد اکاؤنٹ کے 80 فیصد کام مکمل ہو چکے ہیں۔ لیکن جو باقی 20 فیصد رہتا ہے، وہی اصل کام ہے۔ اس میں ان اکاؤنٹس کو بند کرنا شامل ہے جنہیں حکومتی ادارے اپنی مرضی سے چلا رہے ہیں۔ لیکن اس پر عمل کرنا آسان نہیں۔ ہر ادارہ اپنے پرانے نظام کو ایک میراث” سمجھتا ہے، اور اس پر ہاتھ ڈالنا ویسا ہی ہے جیسے کسی کے ذاتی معاملے میں دخل دینا۔تو، کیا ایک نئی کمیٹی اس مسئلے کا حل ہے؟ ممکن ہے۔ لیکن کمیٹی بنانا تو ہمارے ہاں ایک مشہور “نسخہ” ہے: اگر مسئلہ سمجھ نہ آئے، تو ایک کمیٹی بنا دو! لیکن جیسا کہ مشہور کہاوت ہے، “اونٹ وہ گھوڑا ہے جسے کمیٹی نے بنایا ہو۔” زیادہ تر کمیٹیاں مسائل حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ اصلاحات کے لیے سیاسی عزم درکار ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ بھی کہتی ہے کہ ایسے اقدامات کے لیے حکومت کے اعلیٰ ترین سطح سے حمایت ضروری ہے۔ لیکن ہمارے ہاں سیاسی عزم ایسے ہی غائب ہے جیسے آسمان سے بارش کے قطرے صحرا میں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ دوسرا اقدام کرے، اور خود آرام سے بیٹھا رہے۔پاکستان کے لیے ورلڈ بینک کی یہ تجویز ایک اچھی شروعات ہو سکتی ہے، لیکن یہ منزل نہیں ہے۔ اصل ضرورت ایک مربوط حکمتِ عملی اور مضبوط قیادت کی ہے۔ کمیٹیاں، مشورے، اور وعدے اپنی جگہ، لیکن جب تک فیصلے اور عمل کا عزم نہیں دکھایا جائے گا، یہ مسائل اپنی جگہ رہیں گے۔اگر پاکستان واقعی اپنی معیشت کو ایک سمت دینا چاہتا ہے، تو یہ وہ وقت ہے جب سیاسی قیادت کو آگے آنا ہوگا۔ ورنہ یہی لگے گا کہ ہم ایک ایسی کشتی میں ہیں، جو کسی کنارے پر پہنچنے کے بجائے ہمیشہ پانی میں ہی رہتی ہے۔
بھارتی جارحیت کا سفر
بھارتی قیادت کے حالیہ بیانات سن کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کیا بھارتی عسکری اور سیاسی رہنما کسی حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں، یا پھر انہیں اپنی تقریریں لکھنے کے لیے کسی بالی وُڈ اسکرپٹ رائٹر کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں؟ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے یہ دعوے کہ “پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر”
بھارت کا حصہ ہے، یوں لگتا ہے جیسے وہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بھارتی فلموں کے دیوار پر لکھے گئے کسی بے محل مکالمے جتنا سنجیدہ لے رہے ہیں۔یہ بیانات ایسے وقت میں آ رہے ہیں جب دنیا بھارتی حکومت کے جرائم کو بے نقاب کر رہی ہے۔ مغربی میڈیا شمالی امریکہ میں سکھ کارکنوں کے قتل کے منصوبے اور پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں کو واضح کر رہا ہے۔ ایسے میں بھارت کے یہ دعوے بالکل ایسے ہی ہیں جیسے کوئی چور بازار میں کھڑے ہو کر دوسروں کو ایمانداری کے سبق پڑھائے۔ لیکن یہ بھارت کا پرانا کھیل ہے—اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے الزام تراشی کی توپیں پاکستان کی طرف گھما دو۔بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کا بیان کہ “جموں و کشمیر اُس وقت مکمل ہوگا جب پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر بھارت کا حصہ بنے گا” سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جغرافیہ اور تاریخ کی کسی اور کائنات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جناب، پہلے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو دیکھ لیجیے جہاں بھارتی فوج کی موجودگی نے وادی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔ کشمیریوں کے قتل عام، خواتین کی عصمت دری، اور بچوں کی گمشدگیوں کا جواب آپ کے پاس ہے؟ شاید نہیں، کیونکہ حقیقت تو بھارتی قیادت کے نزدیک کوئی غیر اہم” چیز ہے۔اب ذرا کلبھوشن یادیو کی بات کرتے ہیں—جی ہاں، وہی حاضر سروس بھارتی نیوی افسر جو پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک چلاتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ ایک طرف بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دعویٰ کرتا ہے، اور دوسری طرف خود دہشت گردوں کو تربیت دے رہا ہے۔ بھارتی قیادت کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی وقت میں وہ دنیا کے سامنے “امن کے سفیر” بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور پس پردہ دہشت گردی کے منصوبے بنا رہے ہیں۔بھارت کی عسکری قیادت کی موجودہ روش یہ ظاہر کرتی ہے کہ انہیں پیشہ ورانہ حدود کا بالکل بھی خیال نہیں۔ جنرل اپیندرا دویدی جیسے بیانات نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہیں بلکہ خطے کے استحکام کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے بھارتی فوجی قیادت نے اپنی تمام تر توانائیاں جنگی میدان کے بجائے پریس کانفرنسز اور اشتعال انگیزی میں صرف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کی قیادت ہمیشہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کا سہارا لیتی ہے۔ بھارتی کسان سڑکوں پر ہیں، اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں، اور ہندو قوم پرستی کا جنون بڑھتا جا رہا ہے، لیکن ان سب مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہمیشہ ایک نیا “پاکستان کارڈ” کھیل دیا جاتا ہے۔ وزیرِ دفاع کے حالیہ بیانات بھی اسی کھیل کا حصہ ہیں۔بین الاقوامی سطح پر بھی بھارت کی ساکھ مسلسل متاثر ہو رہی ہے۔ مغربی ممالک، جو بھارت کو “دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت” کہہ کر اس کی تعریف کرتے تھے، اب اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی قوانین کی پامالیوں پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے خفیہ قتل کے منصوبے اور پاکستان کے خلاف پراکسی جنگیں اس کے “امن کے دعووں” کو زمین بوس کر رہی ہیں۔بھارت کے یہ الزامات اور اشتعال انگیز بیانات کشمیر کی آزادی کی تحریک کو روک نہیں سکتے۔ کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے بھارتی ظلم و جبر کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں، اور یہ تحریک بھارتی قیادت کے مکالموں یا دھمکیوں سے ختم ہونے والی نہیں۔پاکستان بارہا امن کے لیے مذاکرات کی پیشکش کر چکا ہے، لیکن بھارت کی قیادت نے ہمیشہ اسے دھمکیوں اور الزامات سے جواب دیا ہے۔ اگر بھارت واقعی خطے میں امن چاہتا ہے، تو اسے الزامات کے بجائے مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا۔ لیکن بھارت کی حالیہ روش یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ خطے میں کشیدگی کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے۔یہ وقت ہے کہ بھارت اپنے رویے پر سنجیدگی سے غور کرے۔ الزامات، دھمکیاں، اور جارحیت نہ تو خطے میں امن لا سکتی ہیں اور نہ ہی بھارت کے داخلی مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ اگر بھارتی قیادت نے اپنی روش نہ بدلی، تو وہ دن دور نہیں جب اس کی یہ پالیسی خود اس کے لیے تباہی کا باعث بنے گی۔آخر میں، بھارتی قیادت کو یاد دلانا چاہوں گا کہ دنیا بدل چکی ہے۔ اب حقیقتیں چھپانا مشکل ہے، اور آپ کی منافقت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ امن صرف مذاکرات، انصاف، اور حقیقت پسندی سے ممکن ہے۔ اگر آپ نے اپنی سمت درست نہ کی، تو شاید بھارت کا مستقبل بھی تاریکی میں ڈوب جائے، بالکل ان خوابوں کی طرح جو کشمیریوں نے آزادی کے لیے دیکھے تھے۔ فیصلہ بھارت کو کرنا ہے: امن یا تنہائی؟