پاکستان میں عام آدمی کا اب نصیب یہ رہ گیا ہے کہ وہ حکومتی اداروں کی نا اہلی، بدعنوان اہلکاروں اور بدانتظامی کی سزا بھگتے اور دنوں میں امیر بننے اور کالا دھن اکٹھا کرنے والے دھڑلے سے ان کی جانوں سے کھیلنے کا سامان کرتے رہیں- تھانہ حرم گیٹ کی حدود میں واقع محلہ جوگیاں میں ایک گھر میں روزے کی تیاری کے لیے جیسے ہی ایل پی جی سلنڈر گیس سے چولھا جلانے کی کوشش کی گئی تو سلنڈر پھٹنے سے گھر کی چھت بمع لینٹر ملحقہ گھر پر جاکر گرا جس سے اس گھر کے 9 مکین ملبے تلے دب کر جاں بحق ہوگئے۔ جس گھر میں سلنڈر پھٹا اس گھر میں عورت جھلس گئی اور ایک شخص زخمی ہے۔ سانحہ محلہ جوگیاں پر انتظامیہ کی جانب سے جو پریس نوٹ جاری ہوا ہے اس کے مطابق ابتدائی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سحری کے وقت گیس سلنڈر پھٹنے سے دھماکہ ہوا ہے۔ لیکن انتظامیہ کے پریس نوٹ میں یہ بات مذکور نہیں ہے کہ سحری کے وقت پورے محلہ جوگیاں میں سرکاری گیس غائب تھی حالانکہ وزیراعظم پاکستان کی ہدایت کے مطابق ایساین جی ایل کمپنی کی طرف سے رمضان المبارک میں جو گیس کی فراہمی کا شیڈول جاری ہوا اس کے مطابق صبح کے 3 بجے سے لیکر 5 بجے تک گیس بلاتعطل کے صارفین کو فراہم کی جاتی رہے گی- لیکن محلہ جوگیاں کے مکینوں کے لیے شاید یہ سہولت موجود نہ تھی- اہل علاقہ نے بالکل درست کہا کہ اگر سرکاری گیس آ رہی ہوتی تو یہ سلنڈر کی ضرورت ہی پیش نہ آتی – انکوائری کمیٹی کو سحری کے وقت گیس لوڈ شیڈنگ بابت پوچھ پڑتال کرنی چاہئیے اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی سفارش کی جانی بنتی ہے۔ دوسرا پہلو اس واقعہ کا گیس سلنڈر کے پھٹنے کا ہے۔ اغلب امکان یہ ہے کہ گیس سلنڈر ناقص میٹریل سے بنا ہوا تھا یا اس کی معیاد ختم ہوچکی ہوگی یا دیسی ساختہ ہوگا جس میں لیکج کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اکثر اس سے گیس سلنڈر پھٹ جاتے ہیں اور حادثات میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا رہتا ہے- روزنامہ قوم ملتان کی خبر کے مطابق اس وقت ملتان شہر کی مارکیٹ میں غیر معیاری اور انتہائی خطرناک گیس سلنڈر کی بھرمار ہے۔ اور کوئی غیرمعیاری گیس سلنڈروں کی فروخت کو روک نہیں رہا- غیر معیاری گیس سلنڈروں کی فروخت اور غیرقانونی اور غیر منظور شدہ گیس فلنگ اسٹیشن ان دونوں کے خلاف ایکشن لینے کا مجاز ادارہ شہری دفاع ملتان ہے اور یہ ادارہ ڈپٹی کمشنر ملتان کی زیر نگرانی آتا ہے۔ کیا سول ڈیفنس ضلع ملتان سے جواب طلبی کرنا نہیں بنتی کہ ان سے پوچھا جائے کہ اب تک غیر معیاری گیس سلنڈروں کی فروخت روکنے کے لیے کون سے اقدامات کیے؟ شنید ہے کہ غیر معیاری سلنڈر جو ملتان مارکیٹ میں آرہے ہیں وہ گوجرانوالہ میں بن رہے ہیں- حکومت کو ایک تو غیرمعیاری سلنڈروں کی فروخت کرنے والوں کا شدید محاسبہ کرنا بنتا ہے اور دوسرا صوبائی حکومت کو لکھ کر گوجرانوالہ سمیت پورے پنجاب میں غیر معیاری گیس سلنڈر کی فروخت کو بند کرانے کی ضرورت ہے اور اس کام میں ملوث نیٹ ورک کی گرفتاری کی بھی فوری ضرورت ہے تاکہ پھر ایسے کسی وقوعے کے پیش انے سے روکا جاسکے۔ اس سانحے میں مضبوط لینٹر والی چھت کے ساتھ ملحقہ گھر پر گرنے اور عمارت کے زمین بوس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس عمارت کے اندر بوسیدہ پن تھا۔ اس بات کی تصدیق بات میونسپل کارپوریشن ملتان کے زرایع بھی کر رہے ہیں کہ جس عمارت میں گیس سلنڈر دھماکہ ہوا وہ خطرناک قرار دی کئی عمارت تھی۔ اندرون شہر میں خود حکومتی اعداد و ششمار کے مطابق 350 سے زائد عمارتیں خطرناک ہیں اور حکومت ان مکینوں کو گھر خالی کرنے کے نوٹس تو کئی بار دے چکی لیکن اس نے آج تک ان مکینوں کی ری لوکیشن کا کوئی پلان سامنے نہیں آسکا- کیا ایم ڈی اے 350 سے زائد عمارتوں کے مجموعی رقبے اور ان میں رہائش پذیر خاندانوں کی تعداد کی مطابقت میں کوئی رہائشی منصوبہ نہیں بنا سکتی ہے؟ اگر ماضی میں تعینات رہے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر نے اس مسئلے پر صوبائی حکومت سے کوارڈینشن کی ہوتی اورمتبادل رہائشی منصوبہ لیکر سامنے آئے ہوتے تو محلہ جوگیاں ملتان میں یہ حادثہ رونما نہ ہوا ہوتا اور نہ ہی اندرون ملتان شہر 350 سے زائد خطرناک قرار دے دی کئی عمرتوں میں لوگ رہائش پذیر ہوتے۔اب بھی وقت ہے کہ اندرون ملتان شہر کی خطرناک اور بوسیدہ عمارتوں کو گرایا چائے اور اس سے پہلے ان میں آباد مکینوں کو بہترین متبادل رہائشی منصوبہ بھی تیار ہو تاکہ اسانی جانوں کا تحفظ ہوسکے۔ملتان شہر سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا فرض بنتا ہے کہ وہ صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں سے رابطہ کرکے اس مسئلے کو حل کرائیں۔اب تو صوبائی حکومت کی جانب سے ہر ضلع میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کا کام ہی عوام اور سرکاری اداروں کے درمیان رابطہ کار کا سا ہے۔ اس کمیٹی کو اس قدر اہم مسئلے پر فوری نوٹس لے کر زیادہ وسیع بنیادوں پر جانچ کرے۔
کاروباری کمپنیوں کا دیوالیہ نکلنے والا ہے
آخرکار وہ وقت آ ہی گا جب پاکستان میں چھوثی، درمیانی کاروباری فرموں کے آپریشنوں کو اب بلند شرح سود کے نتائج و عواقب سامنے نظر آررہے ہیں۔ پاکستان کے ٹاپ بینکرز کہہ رہے ہیں بہت سارے شعبوں میں چھوٹی اور درمیانی کمپنیاں مارچ 2024ء تک اپنے لیے گئے قرضوں کا سود ادا کرنے یا قرضہ اتارنے کے قابل نہیں رہیں گی اور انہیں اپنا کاروبار بند کرنے پڑیں گے۔اس کی ایک دوسری وجہ معشیت کی سست روی بھی ہے۔ کاروباری کمپنیوں پر یہ قرضے ایسے ہیں کہ جن کی معیاد دسمبر 2023ء کو ختم ہورہی ہے۔ اور بینکر ایسے قرضوں کو سب اسٹینڈر قرار پا جائیں گے- اس وقت جو کمپنیاں سخت خطرے سے دوچار ہین، ان میں ٹیکسٹائل اور اس میں بھی سپننگ اینڈ وویونگ یونٹ کافی شامل ہیں- دوسرا اسٹیل مینوفیکچررز اور تیسرا پولٹری فیڈ مل مل بزنس ہے۔ان شعبوں میں بھی کئی ایک کمپنیاں بند ہوجائیں گي- پاکستان میں ٹاپ کے بینکر اپنے بینکوں کے ایسے قرضوں کی واپسی نہ ہونے پر بہت پریشان ہیں کیونکہ قرضوں کی واپسی کے امکانات مسلسل بڑھتے ہوئے افراط زر کے باعث معدوم ہوتے جا رہے ہیں- نہ صرف اعلی سود کی شرح اور فروخت میں سست روی ہے جو ان ڈیفالٹس کو متحرک کر رہی ہے، بلکہ ایک اتنی ہی اہم وجہ مندی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ ہے۔کمرشل اور چھوٹے کارپوریٹ سیکٹر میں کمپنیاں اور ان کے مالکان عام طور پر اپنی بچت اور منافع کا کچھ حصہ رئیل اسٹیٹ میں لگاتے ہیں اور جائیدادیں بیچ کر قرضوں کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ریئل اسٹیٹ مارکیٹ کے دباؤ کے باعث، کمپنیوں کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے نقد رقم پیدا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ کئی شعبوں میں کاروبار کی صورتحال چند چوتھائیوں سے خراب ہے۔ تاہم، کمپنیاں آخری تیزی کے دوران ہینگ اوور ہونے کی وجہ سے قرض ادا کرنے کا انتظام کر رہی تھیں – وہ قرض کی ادائیگی پر موجودہ رہنے کے لیے ریئل اسٹیٹ، مہنگی کاریں، یا دیگر اثاثوں کو آف لوڈ کرنے کے قابل تھیں۔اب، بھگتنے کا وقت ہے، اور بینک بڑھتے ہوئے مجموعی قرضوں کے بارے میں فکر مند ہیں جو دسمبر 2023 کے آخر تک 100 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں – سال بہ سال 7.5 فیصد زیادہء ہے۔ دوسرا متعلقہ شعبہ ریبار اسٹیل مینوفیکچرنگ ہے جہاں ایک کمپنی پہلے ہی اپنے قرض کی پریشانی کے لیے مشہور ہے اور دوسری جلد ہی خبروں میں آنے والی ہے۔ سست تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے طلب میں کمی ہے جبکہ لیوریجڈ کمپنیوں کی سود کی قیمت ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ پولٹری فیڈ مل میں 2022 میں جی ایم او درآمد کا مسئلہ کچھ کمپنیوں کو ڈیفالٹ بنا رہا ہے۔دوسرا متعلقہ شعبہ ریبار اسٹیل مینوفیکچرنگ ہے جہاں ایک کمپنی پہلے ہی اپنے قرض کی پریشانی کے لیے مشہور ہے اور دوسری جلد ہی خبروں میں آنے والی ہے۔ سست تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے طلب میں کمی ہے جبکہ لیوریجڈ کمپنیوں کی سود کی قیمت ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ پولٹری فیڈ مل میں 2022 میں جی ایم او درآمد کا مسئلہ کچھ کمپنیوں کو ڈیفالٹ بنا رہا ہے۔ یہ صورت حال اچھی نہیں ہے، اور کاروبار کو رواں دواں رکھنا اور بینکوں کی بیلنس شیٹس کو صاف رکھنا نئی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہونا چاہیے۔اچھی خبر یہ ہے کہ وزیر خزانہ ملک کے سب سے بڑے بینک سے براہ راست لینڈ کر رہے ہیں اور زمینی حقائق سے آگاہ ہیں، اور انہیں 2024 میں ڈیفالٹ پک اپ کو کم سے کم کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کا سوچنا چاہیے۔