آج کی تاریخ

سابق مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں سنگین الزامات سامنے آ گئے

اسلام آباد: 190 ملین پاؤنڈ کے کرپشن کیس میں سابق چیئرمین اسیٹ ریکوری یونٹ (ARU) اور سابق مشیر خاص برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر کا مرکزی کردار سامنے آگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شہزاد اکبر پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک غیر قانونی سکیم کے ماسٹر مائنڈ کی حیثیت سے پاکستان کو بھاری مالی نقصان پہنچایا۔
تحقیقات کے مطابق مرزا شہزاد اکبر نے 6 نومبر 2019 کو رازداری کے معاہدے (Deed of Confidentiality) پر دستخط کیے۔ اس رقم کو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی، کراچی کے ذمہ داری اکاؤنٹ سے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام “نامزد اکاؤنٹ” میں منتقل کیا گیا، جس میں شریک ملزم ضیاء المصطفیٰ نسیم نے بھی دستخط کیے اور اس رقم کو اسٹیٹ آف پاکستان کا اکاؤنٹ ظاہر کیا گیا۔ مذکورہ اکاؤنٹ کو غلط طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا اکاؤنٹ بتایا گیا۔
ریکارڈ کے مطابق شہزاد اکبر نے فروری اور مئی 2019 میں برطانیہ کے دورے کیے جہاں انہوں نے برطانوی ہوم سیکرٹری اور نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) کے ڈائریکٹر جنرل سے سول ریکوری اور حوالگی کے معاملات پر گفتگو کی۔ انہوں نے این سی اے حکام سے ملاقات کر کے فنڈز کی واپسی کا خفیہ روڈ میپ تیار کیا، لیکن بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایف بی آر، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے نمائندوں کو اس معاملے سے باہر رکھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شہزاد اکبر کی بدنیتی کی وجہ سے سپریم کورٹ کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا اور تقریباً 190 ملین پاؤنڈ (تقریباً 50 ارب پاکستانی روپے) کی رقم ریاست کے بجائے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال ہوئی۔ اینٹی کرپشن یونٹ کے نوٹیفکیشن اور کابینہ اجلاس سے قبل 6 نومبر کو دستخط کرنا بھی شہزاد اکبر کی بدنیتی کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے۔ اس رقم کی پاکستان منتقلی نومبر 2019 کے آخری ہفتے میں برطانیہ سے کی گئی۔
ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم اور اعظم خان کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ شہزاد اکبر، سابق وزیراعظم اور اعظم خان کے ساتھ 2 مارچ 2019 کو ملاقات میں این سی اے سے تصفیہ اور رقم کی منتقلی پر بات چیت کی۔ اس دوران شہزاد اکبر نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے منصوبہ بندی کی اور 3 دسمبر 2019 کو کابینہ میں معاہدہ پیش کیا جبکہ وہ پہلے ہی 6 نومبر کو خفیہ معاہدے پر دستخط کر چکے تھے۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے 14 دسمبر 2018 سے قبل تقریباً 120 ملین پاؤنڈز منجمد کیے تھے، جو دو پاکستانی شہریوں کے خلاف شک کی بنیاد پر ضبط کی گئی۔ یہ کارروائی کرائم ایکٹ 2002 کے تحت عمل میں آئی۔ این سی اے نے لندن کی اہم جائیداد “ہائیڈ پارک پلیس 1” کے سلسلے میں تحقیقات بھی شروع کیں، جو اسی خاندان کی ملکیت ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ اسی اثاثہ ریکوری یونٹ نے مارچ 2019 میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ساتھ معاہدے کیے، جبکہ کیس کے جواب دہندگان نے برطانیہ میں این سی اے اور وکلاء کے ذریعے عدالت سے باہر تصفیہ کی پیشکش بھی کی۔
13 اور 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے کیس میں بھاری جرمانہ عائد کیا اور فوجداری مقدمات کو مشروط طور پر معطل کیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ شہزاد اکبر نے اختیارات کا ناجائز استعمال، بد نیتی اور کرپشن کے ذریعے فنڈز چھپانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
اس کیس میں نیب اور دیگر متعلقہ ادارے تحقیقات کر رہے ہیں اور قانونی کارروائی جاری ہے۔ اسی جرم کی بنیاد پر شہزاد اکبر کو اشتہاری مجرم بھی قرار دیا جا چکا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں