آج کی تاریخ

سائبر کرائم اور نہریں

پاکستان میں حالیہ دنوں میں سائبر کرائم قوانین میں مجوزہ ترامیم اور پنجاب میں نئے نہروں کی تعمیر کے منصوبے نے سینیٹ، عوامی حلقوں اور خاص طور پر سرائیکی وسیب میں گرما گرم بحث چھیڑ دی ہے۔ ان دونوں موضوعات پر ہونے والی سیاسی اور سماجی تنقید نے اہم سوالات کو جنم دیا ہے، جن کا حل ڈھونڈنا ملک کی جمہوری، قانونی، اور سماجی ہم آہنگی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔اسلام آباد میں پیش کردہ “پیکا ترمیمی بل نے ملک میں آزادی اظہارِ رائے اور ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے حوالے سے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اس بل میں تین سال قید یا دو ملین روپے جرمانے کی سزا ان افراد کے لیے تجویز کی گئی ہے جو جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے کے مرتکب ہوں اور جس سے عوام میں خوف یا انتشار پیدا ہو سکتا ہو۔یہ ترامیم نہ صرف آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف سمجھی جا رہی ہیں بلکہ حکومت کے نئے ادارے سوشل میڈیا تحفظ و ضابطہ کار اتھارٹی” کے قیام نے مزید خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کا اختیار رکھے گی، جو آزادی رائے کو محدود کرنے کے لیے ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔مجوزہ اتھارٹی کے قیام سے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ کو ختم کر کے نئی قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی” قائم کی جائے گی، جو مکمل طور پر وفاقی حکومت کے ماتحت ہوگی۔ یہ اقدامات حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل دنیا پر مضبوط کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں، جبکہ اپوزیشن نے ان ترامیم کو جمہوری اقدار کے خلاف قرار دیا ہے۔حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے اس بل کو “غیر جمہوری” اور “آزادی اظہار کے خلاف” قرار دیا ہے۔ انہوں نے ان اقدامات کو عوام کی آواز دبانے کی ایک کوشش کے طور پر پیش کیا ہے، جو حکومت کے احتساب کو مزید مشکل بنا سکتی ہے۔پنجاب میں “گرین پاکستان منصوبہ” کے تحت نئی نہروں کی تعمیر کے منصوبے نے سندھ کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب کے عوام اور سیاست دانوں کو بھی غم و غصے میں مبتلا کر دیا ہے۔سرائیکی وسیب، جو جنوبی پنجاب کے علاقوں پر مشتمل ہے، پہلے ہی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور حکومتی نظراندازی کا شکار ہے۔ وسیب کے عوام کے خدشات ہیں کہ نہروں کی تعمیر کا فائدہ بالائی پنجاب کے بڑے زمینداروں اور طاقتور اشرافیہ کو پہنچے گا، جبکہ ان کا علاقہ، جو پہلے ہی پانی کی قلت، بے روزگاری اور ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہے، مزید پسماندگی کا شکار ہو جائے گا۔سرائیکی علاقے کے رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ پانی کے نئے منصوبے ان کے خطے کو مزید نقصان پہنچائیں گے، جہاں پہلے ہی زرعی زمینوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ وسیب کے لوگوں کی زراعت پر مبنی معیشت کو متاثر کر سکتا ہے، جو پہلے ہی غربت اور بنیادی سہولیات کی کمی سے دوچار ہیں۔سرائیکی وسیب کے عوام کا مطالبہ ہے کہ ان کے خطے کو وسائل کی تقسیم میں ترجیح دی جائے اور ان کی آواز کو قومی سطح پر سنا جائے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان منصوبوں کے ذریعے ان کے وسائل کو ان سے چھین کر اشرافیہ کے ہاتھوں میں دیا جا رہا ہے، جو نہ صرف مقامی معیشت بلکہ وسیب کی ثقافتی اور سماجی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔سندھ کے عوام کے خدشات کی طرح، سرائیکی وسیب کے مسائل کو بھی نظر انداز کرنا بین الصوبائی اور بین العلاقائی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ پانی کی قلت، ماحولیاتی تبدیلی، اور تکنیکی مسائل کے باوجود پنجاب کے اس اقدام نے وسیب کے لوگوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔یہ تنازعہ وفاقی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اگر یہ مسئلہ جلد حل نہ ہوا تو یہ بین الصوبائی تعلقات کے ساتھ ساتھ بین العلاقائی تعلقات کو بھی خراب کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو “مشترکہ مفادات کونسل” میں زیر بحث لایا جائے تاکہ سب فریقین کو شامل کر کے ایک پائیدار حل نکالا جا سکے۔پاکستان اس وقت حساس دور سے گزر رہا ہے، جہاں ڈیجیٹل دنیا کے مسائل اور قدرتی وسائل کی تقسیم جیسے اہم معاملات پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ سائبر کرائم قوانین میں ترامیم کو آزادی اظہار اور شہری حقوق کے دائرے میں رکھ کر متوازن کیا جانا چاہیے۔اسی طرح، پانی کی تقسیم جیسے معاملات پر نہ صرف سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ضروری ہے بلکہ وسیب جیسے خطوں کی پسماندگی کو بھی مدنظر رکھنا لازمی ہے تاکہ صوبوں اور علاقوں کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ حکومت کو ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا، ورنہ عوامی احتجاج، سیاسی اختلافات، اور محرومیوں کا سلسلہ ایک نیا بحران پیدا کر سکتا ہے۔یہ وقت ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں میں شفافیت، مساوات، اور انصاف کا مظاہرہ کرے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو، سرائیکی وسیب اور دیگر محروم خطوں کے مسائل حل ہوں، اور قومی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔

پنجاب خواتین تحفظ قانون 2016

پاکستان میں گھریلو تشدد کے اعداد و شمار ایک تلخ حقیقت کو آشکار کرتے ہیں، جس کا ہر ذی شعور انسان شعور رکھتا ہے: خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے ہی گھروں میں غیر محفوظ ہے۔قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق، پاکستان میں 90 فیصد خواتین اپنی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں گھریلو تشدد کا شکار ہو چکی ہیں۔ وزارتِ انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق، 2020 سے 2023 کے دوران صنفی بنیادوں پر تشدد کے 63,000 مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے 80 فیصد شکایات گھریلو تشدد سے متعلق تھیں۔ 2023 میں پنجاب میں 10,201 گھریلو تشدد کے کیس رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار اس مسئلے کی وسعت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں، کیونکہ زیادہ تر واقعات درج نہیں کیے جاتے۔حکومت کی قانون سازی اور سول سوسائٹی کے اقدامات کے باوجود گھریلو تشدد کا مسئلہ برقرار ہے۔ صوبائی حکومتوں نے حالیہ برسوں میں خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین منظور کیے ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ قوانین خواتین کے لیے عملی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ناکامی کے کئی عوامل ہیں، جن کا تجزیہ اس مضمون کا موضوع نہیں، لیکن ہم پنجاب میں 2016 کے خواتین کے تحفظ کے قانون پر نظر ڈالیں گے، جو اب دوبارہ بحال ہونے کی امید ہے۔پنجاب میں 2016 میں منظور ہونے والا خواتین کے تحفظ کا قانون گھریلو تشدد کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد، نفسیاتی دباؤ، معاشی استحصال، پیچھا کرنے اور سائبر کرائم کے خلاف خواتین کی حفاظت کے لیے متعارف کروایا گیا تھا۔ یہ قانون متاثرہ خواتین کو خاندانی عدالت سے تحفظ، رہائش، مالی امداد، اور فوری حکم نامے حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔ تاہم، اس قانون نے تشدد کو جرم قرار دینے کی بجائے سول عدالتی احکامات پر انحصار کیا۔قانون کے تحت ضلعی سطح پر خواتین تحفظ کمیٹیوں اور تحفظ مراکز کے قیام کا حکم دیا گیا تاکہ متاثرہ خواتین کو ایک ہی چھت کے نیچے طبی امداد، قانونی مشاورت، ایف آئی آر درج کرانے، تفتیش، اور بحالی جیسی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ملتان میں اس قانون کے تحت پہلا خواتین تحفظ مرکز قائم کیا گیا، جسے جدید ترین ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن 2018 میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سیاسی بے توجہی اور بجٹ کی کمی کی وجہ سے یہ قانون اپنی اصل روح میں نافذ نہ ہو سکا۔ یہ مرکز اپنی محدود کامیابیوں کے باوجود عملدرآمد کے مسائل، کم عملے، اور کمزور روابط سے دوچار رہا۔2022 میں لاہور ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد اس قانون کو پورے پنجاب میں نافذ کیا گیا۔ حکومت نے 36 دارالامان کو پناہ گاہوں کے طور پر، اور 11 بینظیر بھٹو انسانی حقوق مراکز اور 25 دارالامان کو خواتین تحفظ مراکز کے طور پر اعلان کیا۔اگرچہ موجودہ حکومت نے خواتین کے خلاف تشدد کے لیے صفر برداشت کی پالیسی کا اعلان کیا ہے، لیکن گھریلو تشدد کو “خاندانی معاملہ” سمجھنے کا نظریہ قانونی نظام میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ عدالتوں کے احکامات میں تاخیر، پولیس کا تعاون نہ کرنا، اور محکموں کے درمیان ناقص روابط متاثرہ خواتین کو انصاف سے محروم رکھتے ہیں۔مالی وسائل کی کمی خدمات کی کوالٹی کو محدود کرتی ہے، جبکہ بحالی کے اقدامات کے لیے مزید وسائل درکار ہیں۔ تاہم، موجودہ حکومت سے یہ توقع ہے کہ وہ خواتین کے تحفظ کے اس قانون پر مؤثر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے گی۔گھریلو تشدد ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لیے مؤثر قانون سازی، اس کا حقیقی نفاذ، اور عوامی شعور بیدار کرنا ناگزیر ہیں۔ پنجاب خواتین تحفظ قانون 2016 ایک امید کی کرن ہے، لیکن اس کے عملی نتائج حاصل کرنے کے لیے حکومت کو قانون کے ہر پہلو پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرنا ہوگا۔یہ وقت ہے کہ ہم گھریلو تشدد کے شکار افراد کو خاموشی کے اندھیروں سے نکال کر انصاف اور تحفظ فراہم کریں۔ عورت کی عزت اور تحفظ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کی بنیاد ہے، اور اس کو یقینی بنانا حکومت اور سماج دونوں کی ذمہ داری ہے۔

بجلی کے نرخوں میں تبدیلی: حکومتی حکمت عملی اور اس کا پورا میکانزم

پاکستان میں بجلی کے نرخوں میں اضافے اور توانائی کے شعبے میں مالیاتی مسائل کے تناظر میں حکومت نے بجلی کے نرخوں کے تعین کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے ایک نئی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت، بجلی کے نرخوں کے سالانہ نظرِ ثانی (rebasing) کو یکم جولائی کے بجائے یکم جنوری میں منتقل کیا جائے گا۔ اس مضمون میں نہ صرف حکومت کے اس فیصلے کی تفصیلات اور مقاصد کا جائزہ لیا جائے گا بلکہ بجلی کے نرخوں کے پورے میکانزم کو بھی واضح کیا جائے گا تاکہ عوام اس نظام کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔پاکستان میں بجلی کے نرخوں کا تعین ایک پیچیدہ اور متعدد اداروں پر مشتمل عمل ہے، جسے درج ذیل مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ نیپرا (نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی) بجلی کے نرخوں کا تعین کرنے والا بنیادی ادارہ ہے۔ نیپرا 1997 کے “ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن، اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ” کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ نیپرا کے قوانین کے مطابق، بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں (ڈسکوز) اور کے-الیکٹرک ہر سال اپنی “مینیمم فائلنگ ریکوائرمنٹس” جنوری کے آخر تک نیپرا کو جمع کراتی ہیں۔نیپرا بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواستوں کا تفصیلی جائزہ لیتا ہے، جس میں بجلی پیدا کرنے کی لاگت، ایندھن کی قیمتیں، بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نقصانات، ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کی کارکردگی، اور حکومتی سبسڈی جیسے عوامل کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ درخواستوں کے جائزے کے بعد، نیپرا عوامی سماعت منعقد کرتا ہے جس میں صارفین، ماہرین، اور متعلقہ ادارے اپنی تجاویز اور خدشات پیش کرتے ہیں۔ عوامی سماعت اور اندرونی مشاورت کے بعد، نیپرا بجلی کے نرخوں کا تعین کرتا ہے اور اپنی سفارشات وفاقی حکومت کو پیش کرتا ہے۔ وفاقی حکومت نیپرا کی سفارشات پر غور کرتی ہے اور یکساں نرخ (Uniform Tariff)اس حکمت عملی کے تحت آئی ایم ایف کے ساتھ مشاورت ایک اہم پہلو ہے۔ بجلی کے نرخوں میں تبدیلی کے فیصلے کو آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں غیر رسمی طور پر پیش کیا گیا، اور اس تجویز کو باقاعدہ طور پر آگاہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کی منظوری اس حکمت عملی کے کامیاب نفاذ کے لیے اہم ہوگی، خاص طور پر جب پاکستان پہلے ہی مالی بحران اور قرضوں کی شرائط کے تحت چل رہا ہے۔ کا اعلان کرتی ہے۔وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بجلی کے نرخوں کے تعین کے سالانہ عمل کو موسمِ گرما سے موسمِ سرما میں منتقل کیا جائے۔ یہ تبدیلی اس لیے کی جا رہی ہے تاکہ گرمیوں میں صارفین کو بجلی کے زیادہ بلوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیونکہ گرمیوں میں بجلی کی کھپت اور ایندھن چارجز ایڈجسٹمنٹ دونوں زیادہ ہوتے ہیں۔ نیپرا نے اس تجویز کی اصولی طور پر حمایت کی ہے اور حکومت کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے اس تبدیلی کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے اس حکمت عملی کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ غیر رسمی طور پر پیش کیا ہے تاکہ توانائی کے شعبے میں مالی استحکام کے لیے ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔بجلی کے نرخوں کا تعین بنیادی طور پر تین اہم عناصر پر منحصر ہوتا ہے: بجلی کی پیداوار کے لیے ایندھن (تیل، گیس، کوئلہ وغیرہ) کی قیمتیں بنیادی عامل ہیں۔ اگر عالمی منڈی میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو بجلی کی پیداواری لاگت بھی بڑھ جاتی ہے، جس کا بوجھ صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی ترسیل کے دوران تقریباً 18-20 فیصد نقصان ہوتا ہے۔ یہ نقصانات ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کی خرابی اور چوری کی وجہ سے ہوتے ہیں، جن کا اثر بھی صارفین کے بلوں پر پڑتا ہے۔ حکومت کم آمدنی والے صارفین کو ریلیف دینے کے لیے بجلی پر سبسڈی دیتی ہے۔ لیکن سبسڈی کی حد مقرر ہونے کے بعد اضافی بوجھ دیگر صارفین پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔حکومت کی نئی حکمت عملی کے ممکنہ فوائد میں یہ شامل ہیں کہ موسمِ سرما میں بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے، جس کے باعث کسی بھی اضافے کو زیادہ محسوس نہیں کیا جائے گا۔ بجلی کے نرخوں کو موسم کے مطابق ترتیب دینے سے صارفین کے لیے بلوں کی پیش گوئی آسان ہوگی۔ گرمیوں میں بجلی کے اضافی بلوں کی وجہ سے عوامی احتجاج معمول بن چکا ہے، اور یہ نئی حکمت عملی اس مسئلے کو کم کر سکتی ہے۔اگرچہ یہ حکمت عملی ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کے نفاذ میں کچھ چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں۔ حکومت کے مخالفین اس حکمت عملی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ حکومت کے لیے بجلی کے شعبے میں خسارے کو کم کرنا اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر ترسیلی نظام میں بہتری نہ آئی تو صارفین پر اضافی بوجھ برقرار رہے گا۔ ماضی کے تجربات کے باعث عوام کو حکومتی اقدامات پر بھروسہ نہیں۔حکومت کو بجلی کے نرخوں کے میکانزم کو مؤثر بنانے کے لیے قابل تجدید توانائی، شفافیت، اور ترسیلی نظام کی بہتری جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو بجلی کے نرخوں میں اضافے کی وجوہات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ حکومتی فیصلوں کو بہتر سمجھ سکیں۔بجلی کے نرخوں کے تعین میں موسمِ سرما کی منتقلی ایک اہم قدم ہے، جس سے صارفین پر مالی دباؤ کم ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس حکمت عملی کے کامیاب نفاذ کے لیے حکومت کو شفافیت، منصوبہ بندی، اور عوامی تعاون کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ذریعے ایک پائیدار نظام قائم کرے، تاکہ نہ صرف عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی ترقی دی جا سکے۔

درآمدات کے دباؤ میں اضافہ: معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

معیشت میں درآمدات کی بڑھتی ہوئی طلب ایک ایسا اقتصادی اشارہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ اس وقت کرنسی پر فوری دباؤ نہیں ہے، لیکن کچھ اہم اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ پس پردہ دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جسے پالیسی سازوں کو معیشتی استحکام برقرار رکھنے کے لیے دانشمندی سے سنبھالنا ہوگا۔تازہ ترین تجارتی اعداد و شمار ایک پیچیدہ صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ دسمبر 2024 میں درآمدات کی مالیت 5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی، جو کہ دسمبر 2022 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ تیل کی بڑھتی ہوئی درآمدات ہیں، جو جون 2022 کے بعد اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ نومبر 2024 کے اعداد و شمار بھی کافی زیادہ رہے، جو توانائی کی طلب میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔یہ رجحان ایک اور دلچسپ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے: غیر رسمی ذرائع، جیسے ایران سے اسمگلنگ، کے بجائے رسمی بینکاری ذرائع کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ شفافیت اور قانونی تقاضوں کے لحاظ سے یہ تبدیلی مثبت ہے، لیکن اس نے باضابطہ درآمدات کے اعداد و شمار میں خاصا اضافہ کر دیا ہے۔ایک اور چیلنج حقیقی مؤثر تبادلہ شرح (ریئل ایفیکٹو ایکسچینج ریٹ) کی بتدریج بڑھتی ہوئی سطح ہے، جو اب 105 کے نشان کو عبور کرنے کے قریب ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ روپے کی قدر بڑھ رہی ہے، جو پاکستان کی برآمدات کی مسابقت کو کم کر سکتی ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا، تو حقیقی مؤثر تبادلہ شرح نہ صرف برآمدات کو متاثر کرے گا بلکہ درآمدی بل میں بھی اضافہ کرے گا، جو ادائیگیوں کے توازن پر مزید دباؤ ڈال سکتا ہے۔بینکنگ مارکیٹ میں پہلے ہی دباؤ کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ درآمدی حجم میں اضافے کی وجہ سے ادائیگی کے مسائل سامنے آ رہے ہیں، خاص طور پر شپمنٹس کے کلیئر ہونے کے ایک سے دو ماہ کے وقفے کے ساتھ۔ کمرشل بینکوں کے خزانہ دفاتر نے ان چیلنجز کی تصدیق کی ہے، حالانکہ ترسیلات زر نے کچھ حد تک تحفظ فراہم کیا ہے۔یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کرنسی کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، لیکن اس کے پاس وسائل لامحدود نہیں ہیں۔ اگر درآمدی طلب کو قابو نہ کیا گیا تو اسٹیٹ بینک کو اپنی موجودہ پالیسیوں کے منفی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اسٹیٹ بینک کا عزم اس وقت مؤثر ہوگا جب اسے محتاط مالیاتی اور مالیاتی پالیسیوں کے ساتھ ملایا جائے۔ مارکیٹ کا موجودہ استحکام، جو زیادہ تر ترسیلات زر کی مضبوطی سے ممکن ہوا ہے، دیرپا نہیں رہ سکتا اگر درآمدی طلب اسی رفتار سے بڑھتی رہی۔ موجودہ حالات میں شرح سود میں زیادہ سے زیادہ 100 پوائنٹس کی معمولی کمی کے بعد توقف مناسب معلوم ہوتا ہے۔ حقیقی مؤثر تبادلہ شرح کے بڑھتے ہوئے رجحان اور کرنسی کی ممکنہ گراوٹ سے مہنگائی کے اثرات کو دیکھتے ہوئے یہ اقدام ناگزیر ہے۔پاکستان کی اقتصادی تاریخ یہ سکھاتی ہے کہ بغیر منصوبہ بندی کے درآمدات میں اضافہ معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ بڑھتا ہوا درآمدی بل، اگر برآمدات میں متناسب اضافہ نہ ہو، تو ملک کو کرنسی کی گراوٹ اور ہنگامی قرضوں جیسے ردعمل کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ خطرناک چکر روکنا ضروری ہے۔ موجودہ درآمدی رجحان ظاہر کرتا ہے کہ ملکی پیداوار میں اضافہ، خاص طور پر توانائی اور بنیادی اشیاء میں، ضروری ہے تاکہ عالمی منڈیوں پر انحصار کم ہو۔پالیسی سازوں کو ان دباؤ کو سنبھالنے کے لیے پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اسٹیٹ بینک کی محتاط مالیاتی پالیسی اہم ہے، لیکن حکومت کو بھی ساختی مسائل کے حل کے لیے مربوط کوششیں کرنی ہوں گی۔ برآمدی صلاحیت کو مضبوط بنانا، ترسیلات زر کے ذرائع کو بہتر بنانا، اور توانائی کے شعبے میں عدم موثریت کو کم کرنا بنیادی ترجیحات ہونی چاہئیں۔ ساتھ ہی، معیشتی حقائق کے بارے میں عوامی آگاہی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شفاف مواصلات ضروری ہیں۔اگرچہ کرنسی بحران کے فوری خدشات غیر حقیقی ہو سکتے ہیں، لیکن بے پروائی کا رویہ اختیار کرنا نقصان دہ ہوگا۔ درآمدات میں اضافے کی یہ نشانی ایک ایسے دباؤ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر کو کمزور کر سکتا ہے اگر اس پر قابو نہ پایا گیا۔ جیسے جیسے حقیقی مؤثر تبادلہ شرح بڑھ رہا ہے، پالیسی سازوں کو محتاط اور مستقبل کی سوچ رکھنے والی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی اور میکرو اکنامک استحکام کے درمیان توازن قائم رکھا جا سکے۔ مقصد واضح ہونا چاہیے: پائیدار معاشی ترقی کو فروغ دینا اور بیرونی خطرات سے بچنا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں