زیتون کا تیل، خاص طور پر ایکسٹرا ورجن زیتون آئل، صرف دل کی صحت اور جلد کے لیے ہی نہیں بلکہ ہڈیوں کی مضبوطی اور مجموعی ہڈیوں کی صحت کے لیے بھی ایک قدرتی نعمت تسلیم کیا جا رہا ہے۔ حالیہ سائنسی مطالعات اور ماہرینِ غذائیت کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیتون کا تیل نہ صرف ہڈیوں کو گھلنے سے بچاتا ہے بلکہ آسٹیوپوروسس جیسے خطرناک مرض کے خطرے کو بھی نمایاں طور پر کم کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق زیتون کے تیل میں موجود پولی فینولز، اولیک ایسڈ اور اولیوکینتھال جیسے قدرتی اجزا ہڈیوں کے خلیوں (Osteoblasts) کو فعال کرتے ہیں، جس سے نئی ہڈی کی تشکیل میں بہتری آتی ہے۔ یہی نہیں، یہ اجزاء پرانی اور کمزور ہڈی کے خلیوں (Osteoclasts) کی بے جا سرگرمی کو محدود کرتے ہیں، جس سے ہڈیوں کا بکھرنا یا “بون ریزورپشن” کم ہو جاتا ہے۔
زیتون کا تیل قدرتی اینٹی آکسیڈنٹس سے بھی بھرپور ہوتا ہے جو ہڈیوں کے خلیوں کو فری ریڈیکلز سے بچاتے ہیں، جو کہ ہڈیوں کے خلیات کی خرابی اور قبل از وقت کمزوری کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہڈیوں کا کمزور ہونا، جوڑوں میں درد اور سوجن جیسے مسائل میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
تحقیقات سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ زیتون کا تیل آنتوں میں کیلشیم کے جذب کو بہتر بناتا ہے، جو کہ ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے نہایت اہم عنصر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیتون کے تیل کو متوازن غذا کے حصے کے طور پر مستقل استعمال کرنے سے نہ صرف ہڈیوں کی کثافت میں بہتری آتی ہے بلکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ہونے والی ہڈیوں کی کمزوری کو بھی روکا جا سکتا ہے۔
بین الاقوامی تحقیقی جریدے Journal of Clinical Endocrinology and Metabolism میں شائع ہونے والی ایک اہم تحقیق کے مطابق، جن افراد نے روزانہ 50 ملی لیٹر ایکسٹرا ورجن زیتون کا تیل استعمال کیا، ان کی ہڈیوں کی کثافت (Bone Mineral Density) میں نمایاں بہتری نوٹ کی گئی، خصوصاً ان افراد میں جو پہلے سے آسٹیوپوروسس یا جوڑوں کے درد میں مبتلا تھے۔
مزید برآں، میڈیٹرینین ڈائٹ — جس میں زیتون کا تیل مرکزی جزو ہوتا ہے — کو عالمی سطح پر صحت مند طرزِ زندگی کے لیے تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس طرزِ خوراک کو اپنانے والے افراد میں ہڈیوں کے ٹوٹنے، درد اور آسٹیوپوروسس کے امکانات کم دیکھے گئے ہیں، خاص طور پر خواتین میں مینوپاز کے بعد۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ زیتون کا تیل سلاد، سبزیوں، دالوں یا ہلکی آنچ پر پکی ہوئی غذا میں شامل کر کے روزانہ کی خوراک کا حصہ بنایا جائے۔ البتہ ضرورت سے زیادہ استعمال سے گریز کیا جائے کیونکہ ہر قدرتی چیز اعتدال سے ہی فائدہ دیتی ہے۔
