آج کی تاریخ

معلم یا درندے

زندہ باد حکومت پنجاب

کہتے ہیں کہ اپنے اردگرد کے ماحول کو عورت کی نظر سے دیکھو کیونکہ جو قدرتی نفاست اللہ تبارک و تعالی نے عورتوں میں رکھی ہے وہ مردوں میں کہاں اور رہا وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کا معاملہ تو اس حوالے سے ان کے بلند ترین معیار کا عکس صوبے بھر میں نظر آنے لگا ہے۔ پنجاب میں کئی سالوں سے کام کرنے کی طرف توجہ کم اور کام ڈالنے کی طرف توجہ زیادہ مرکوز رہا کرتی تھی اب صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ پہلی مرتبہ عام آدمی کی حیثیت سے مجھے اپنے لئے شہر بھر کی سڑکوں پر وی وی آئی پی پروٹوکول دیکھنے کو ملا اور احساس ہوا کہ عام شہری کی حیثیت سے اب میں بھی اہم ہوں ورنہ یہاں تو سڑکوں کی صفائی اور کوڑا ہٹائی صرف اس وقت ہوتی تھی جب کسی سڑک پر سے وی وی آئی پی نے گزرنا ہوتا تھا۔ میری چھ دہائیوں پر محیط زندگی میں یہ پہلی عید الاضحی ہے کہ شہر بھر میں کمال کی صفائی ہے اور کہیں بی اوجھڑی کی بدبو کے بھباکے نہیں۔ عید سے ایک روز قبل جمعہ کی صبح نماز فجر فوری بعد میں اپنے والدین اور اہلیہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے روانہ ہوا تو شہر کی ہر سڑک پر سوائے عملہ صفائی کے، اور کوئی نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں عملہ صفائی اور مشینری کو مصروف عمل دیکھا۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ عملے کے سٹال لگے ہوئے تھے، بینرز آویزاں تھے کچرہ ہٹایا جا رہا تھا، سڑکیں شیشے کی طرح صاف تھیں۔ اپنے سالہا سال کے سابقہ تجربے کی روشنی میں خیال آیا کہ یہ انتظام صرف لاہور ہی میں ہو سکتا ہے۔ دیگر اضلاع اور دور درواز کے قصبوں میں رہنے والوں کے نصیب میں ایسے انتظامات کہاں، پھر میرے اندر کا میڈیا پرسن اور رپورٹر جاگا جس سے میں نے اپنی 31 سال پر محیط میڈیا مینجمنٹ اور ایڈیٹری کی زمہ داریوں کے باوجود مرنے نہیں دیا لہذا اگلے دو روز میں نے پنجاب بھر کے ہر ضلع، تحصیل، ٹاؤن حتہ کہ قصبے تک میں پھیلے اپنے منظم ترین میڈیا نیٹ ورک اور پاکستان میں میڈیا ورکرز کی سب سے بڑی تنظیم اپنا” کہ جس کی صدارت کی زمہ داریاں دوستوں نے مجھے سونپ رکھی ہیں، سے منسلک دوستوں سے رابطے شروع کئے اور عید مبارک کے ساتھ ساتھ عید کے دنوں میں صفائی کے علاوہ قربانی کے جانوروں کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے عمل بارے معلومات لیں تو میں یہ جان کر حیرانی کی انتہا ہی نہ رہی کہ لاہور سے لے کر کوٹ چاننہ اور عیسی خیل تک، لاہور سے لے کر راجن پور روجھان کشمور اور راہوالی تک اور پھر لاہور ہی سے لے کر صادق آباد و کوٹ سبزل تک پنجاب کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں عید کے موقع پر کمال کی صفائی نہ رکھی گئی ہو اور جہاں سے قربانی کی باقیات ہٹانے کا عمل 24 گھنٹے کے دن رات میں 18 گھنٹے لگاتار جاری نہ رہا ہو۔
پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جو کہ قربانی کا ایام میں پورے کا پورا سلاٹر ہاؤس میں تبدیل ہوتا ہو۔ کہ کسی بھی مہزب ملک میں قربانی کہ اس طرح کھلے عام اجازت نہیں جیسے پاکستان میں ہے اور دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں تو قربانی کا جانور گھروں اور بازاروں میں رکھا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ سہولت صرف پاکستانیوں کو ہی میسر ہے اور اب اس منہ زور نظام قرنان پر کون کنٹرول کرے۔
اس مرتبہ پنجاب کے تمام علاقوں سے عید کے موقع پر صفائی کے حوالے سے میں نے اپنے ذرائع سے جو معلومات لیں اور ڈیٹا اکٹھا کیا اس میں لاہور کو اس لیے شامل نہیں کیا کہ یہ شہر اقتدار ہے اس لیے یہاں فنڈز بھی زیادہ ملتے ہیں اور افسران بھی احتساب کے ڈر سے ایکٹو رہتے ہیں۔ نمائندگان سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق پنجاب میں ملتان ڈویژن پہلے نمبر پر اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن دوسرے نمبر پر رہا۔ کمنشر ملتان ڈویژن عامر کریم خان نے تمام تر کنٹرول خود سنبھال رکھا تھا اور ویسے بھی مستعدی اور ورسٹائل آئیڈیاز کے حوالے سے وہ ایک لاجواب آفیسر ہیں۔ ملتان، لودھراں اور وہاڑی سے حاصل کی جانے والی معلومات کے مطابق انتظامیہ کی طرف سے قائم کردہ کنٹرول روم میں مجموعی طور پر صفائی، الائشوں کے اٹھائے جانے کے حوالے سے معلومات ریکارڈ پر لائے جانے کے کہ بعد رسپانس ٹائم بلدیاتی حدود میں زیادہ سے زیادہ 20 منٹ اور بلدیاتی حدود سے باہر 45 منٹ رہا۔ ملتان ڈویژن میں گزشتہ سال الائشوں کے لیے دو لاکھ 85 ہزار پلاسٹک بیگز تقسیم کیے گئے جبکہ رواں سال عید کے موقع پر یہ تعداد 18 لاکھ پر پہنچ گئی، یعنی چھ گنا زائد بیگز ڈویژن میں ملتان ڈویژن کے چار اضلاع میں تقسیم کیے گئے جبکہ قربانی کے جانوروں کے فضلے اور بچ جانے والے چارے کے ہٹائے جانے کا عمل بھی دن میں تین مرتبہ دہرایا جاتا رہا۔ کمشنر ملتان جہاں خود پورے ڈویژن کے لگاتار تین روز دوروں پر رہے وہیں ڈپٹی کمشنرز سے لے کر پٹواری تک سارے کا سارا عملہ سڑکوں پر تھا۔ خاتون ڈپٹی کمشنر لودھراں لگاتار تین دن صبح سے لے کر شام تک متحرک رہی۔ روزنامہ قوم کی طرف سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق گزشتہ سال ڈھائی ہزار ورکر سڑکوں پر تھے تو رواں سال یہی تعداد 18 ہزار تھی اور ڈویژنل مانیٹرنگ روم کی مستعدی بھی کمال کی رہی۔ گزشتہ عید کی نسبت ڈھائی گنا زائد قربانی کی باقیات اٹھائی گئی جو کہ ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ لودھراں کے چھوٹے سے قصبے دھنوٹ سے شاہد بھٹی نے بتایا کہ پہلی مرتبہ اس قصبے میں صفائی اور الائشوں کے ہٹائے جانے کا شاندار انتظام دیکھا گیا ہے۔
دیگر صوبوں کے وزرائے اعلی کو چنوتی دینے والی سب سے بڑی بات یہ ہے وزیر اعلی پنجاب از خود مانیٹرنگ کرتی رہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پنجاب بھر کے ڈپٹی کمشنرز اور کمشنرز کا ایک وٹس ایپ گروپ بنا رکھا تھا جس پر وہ از خود لمحہ بہ لمحہ معلومات لے رہی تھیں اور یہ عمل تین دن لگاتار جاری رہا۔ پاکستان کی 78 سالہ ہسٹری میں اتنے بڑے نیٹ ورک کے ساتھ عوامی خدمت کا یہ ایک انوکھا ریکارڈ ہے جس تک شاید ہی کوئی پہنچ پائے۔
پاکستان کی شاہرات پر سفر کے بعد ایک انگریز سیاح نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ پاکستان کی ہائی ویز پر سفر کرتے ہوئے آپ کو سڑک کے اطراف میں اچانک کوڑے کے ڈھیر اور درختوں پر شاپر لٹکتے ہوئے نظر آئیں تو آپ سمجھ لیں کہ جلد ہی کوئی آبادی آنے والی ہے اور دوسرا معروف مشہور جملہ اس کا یہ تھا کہ پاکستان کی سڑکوں سے جان بچا کر نکل جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ تب ہائی ویز ہی ہوا کرتی تھی موٹرویز تو ہوتی نہیں تھیں اور موٹرویز بننے کے بعد سے یہ تاثر تو بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔
میں اکثر سفر پر رہتا ہوا اپنی زندگی میں لاکھوں کلومیٹر سفر پاکستان کے اندرونی شاہرات پر کر چکا ہوں۔ ٹھوکر پر موٹروے کے اینڈ پوائنٹ کے اطراف پر میں نے ہمیشہ گندگی ہی دیکھی مگر محترمہ مریم نواز کے وزیراعلی پنجاب بننے کے بعد سالہا سال سے قائم یہ تاثر بہت تیزی سے بدل رہا ہے جو انکی نفاست کا جیتا جاگتا ثبوت ہے اور رہا ملتان کا معاملہ تو یہ شہر گزشتہ چند ماہ سے بہت خوبصورت تبدیلی کی طرف گامزن ہے۔ حالیہ عید کے حوالے سے اگر میں گزشتہ سالوں سے رواں سال کے انتظامات کا مقابلہ کروں تو مختصر ترین جملے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اسی ملتان شہر کے بعض علاقوں میں تین چار سال قبل شدت کی گرمی میں آنے والی عید الاضحی کے موقع پر اوجھڑیوں کی سرانڈ اور بدبو نے شہر کے بعض علاقوں میں لوگوں کو گھر تک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے کنٹرول اور ان کی منتخب کردہ انتظامی ٹیم نے کمال کر دکھایا ہے۔
پہلی مرتبہ دعوے کم اور کام کہیں زیادہ دیکھنے کو ملا۔ زندہ باد سی ایم پنجاب، زندہ باد ان کا ٹیم ورک اور زندہ باد ان کی ٹیم۔

شیئر کریں

:مزید خبریں