خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کی تحصیل سالارزئی میں پولیو مہم پر ہونے والا تازہ حملہ محض ایک سیکیورٹی واقعہ نہیں بلکہ پاکستان کے اجتماعی ضمیر، ریاستی ترجیحات اور سماجی شعور پر ایک گہرا سوال ہے۔ ایک طرف ریاست پورے عزم کے ساتھ ملک گیر پولیو مہم کا آغاز کرتی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک ناقابلِ علاج مرض سے محفوظ بنایا جا سکے، اور دوسری طرف اسی مہم کے دوران جانیں جاتی ہیں، ایک پولیس اہلکار شہید ہوتا ہے اور ایک عام شہری زندگی سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم محض مذمتی بیانات اور عزم کے اعادے سے آگے بڑھ کر اس مسئلے کی جڑوں کو سمجھیں، کیونکہ یہ حملے صرف افراد پر نہیں بلکہ زندگی کے حق، بچوں کے مستقبل اور قومی ذمہ داری کے تصور پر ہوتے ہیں۔
پولیو ٹیموں پر حملے برسوں سے ایک تلخ حقیقت بن چکے ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حساس علاقوں میں۔ یہ علاقے دہائیوں سے بدامنی، عسکریت پسندی، ریاستی کمزوری اور سماجی محرومی کا شکار رہے ہیں۔ جب ایک پولیو ٹیم پر حملہ ہوتا ہے تو دراصل یہ اس پورے نظام پر حملہ ہوتا ہے جو صحت، تعلیم اور فلاح کے نام پر عوام تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ پولیو کے قطرے پلانے والے کارکن، ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار اور ان کے ساتھ چلنے والے رضاکار دراصل ریاست کا سب سے نرم مگر سب سے اہم چہرہ ہوتے ہیں۔ ان پر گولی چلانا اس بات کی علامت ہے کہ شدت پسند سوچ زندگی کے سب سے بنیادی حق کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ پولیو جیسے مرض کے خلاف جدوجہد کو آج بھی سازشوں، افواہوں اور گمراہ کن بیانیوں کے ذریعے متنازع بنایا جاتا ہے۔ برسوں سے بعض حلقے یہ تاثر پھیلاتے رہے ہیں کہ پولیو ویکسین کسی بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پولیو ایک ایسا مرض ہے جو بچوں کو عمر بھر کی معذوری میں دھکیل دیتا ہے اور اس کا واحد بچاؤ ویکسین ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان آج بھی دنیا کے وہ دو ممالک ہیں جہاں پولیو مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکا، اور اس ناکامی کے پیچھے محض انتظامی کمزوریاں نہیں بلکہ وہ سماجی اور فکری رکاوٹیں بھی ہیں جنہوں نے صحت عامہ کے مسئلے کو نظریاتی تنازع بنا دیا ہے۔
سالارزئی کا واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پولیو مہم کے ساتھ جڑے خطرات اب بھی شدید ہیں۔ ایک پولیس کانسٹیبل کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستی اہلکار اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بچوں کے مستقبل کی حفاظت کر رہے ہیں۔ یہ اہلکار نہ کسی جنگی محاذ پر تھے اور نہ کسی جارحانہ کارروائی میں شریک، بلکہ وہ چند قطروں کی حفاظت پر مامور تھے جو ایک بچے کو معذوری سے بچا سکتے تھے۔ اسی طرح ایک عام شہری کا مارا جانا اس بات کی علامت ہے کہ تشدد کی یہ لہر اندھی ہے، جو کسی کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔
ریاستی سطح پر ہر ایسے واقعے کے بعد یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ پولیو مہم جاری رہے گی اور اسے کسی صورت متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یہ عزم اپنی جگہ قابلِ تحسین ہے، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف عزم کے اظہار سے اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک پولیو مہم کو محض ایک انتظامی یا سیکیورٹی چیلنج سمجھا جاتا رہے گا، تب تک یہ حملے ہوتے رہیں گے۔ اس کے لیے ایک جامع سماجی حکمتِ عملی درکار ہے جس میں مقامی آبادی کا اعتماد بحال کیا جائے، مذہبی و سماجی رہنماؤں کو ساتھ ملایا جائے اور برسوں سے پھیلی بداعتمادی کو ختم کیا جائے۔
یہ بھی غور طلب ہے کہ پولیو ٹیموں پر حملے اکثر انہی علاقوں میں ہوتے ہیں جہاں ریاست کی موجودگی کمزور، خدمات ناپید اور عوامی مسائل شدید ہوتے ہیں۔ جب ریاست صرف ویکسین کے دنوں میں نظر آئے اور باقی وقت عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دے تو بداعتمادی جنم لیتی ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر ریاست واقعی ہمارے بچوں کی فکر مند ہے تو پھر تعلیم، صاف پانی، صحت کی بنیادی سہولتیں اور روزگار کہاں ہیں؟ اس خلا کو شدت پسند عناصر اپنے بیانیے سے پُر کرتے ہیں اور پولیو مہم کو ایک علامت بنا کر نشانہ بناتے ہیں۔
اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں پولیو مہم کے دوران درجنوں صحت کارکن، پولیس اہلکار اور عام شہری جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ ایک خاموش جنگ ہے جس میں ہلاک ہونے والے نہ تو سرخیوں میں زیادہ دیر رہتے ہیں اور نہ ہی ان کے خاندانوں کی قربانی کو وہ مقام ملتا ہے جس کی وہ مستحق ہوتی ہے۔ ہر شہادت کے بعد چند دن شور مچتا ہے، پھر خاموشی چھا جاتی ہے اور اگلے واقعے تک ہم سب معمول کی زندگی میں لوٹ جاتے ہیں۔
پاکستان میں پولیو کا مکمل خاتمہ محض ایک طبی ہدف نہیں بلکہ ایک سماجی اور اخلاقی امتحان بھی ہے۔ یہ اس بات کا امتحان ہے کہ آیا ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو افواہوں، خوف اور تشدد کے حوالے کر دیتے ہیں یا عقل، علم اور اجتماعی ذمہ داری کو ترجیح دیتے ہیں۔ پولیو کے قطرے پلانے والے کارکن زیادہ تر مقامی خواتین اور مرد ہوتے ہیں، جو اپنے ہی علاقوں میں گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ ان پر حملہ دراصل اپنے ہی سماج کے کمزور ترین افراد پر حملہ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیو کے خلاف جدوجہد میں صرف ریاست نہیں بلکہ پورا معاشرہ شریک ہونا چاہیے۔ والدین، اساتذہ، علما، قبائلی عمائدین اور مقامی نمائندے سب کا کردار اہم ہے۔ جب تک پولیو ویکسین کو ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا، تب تک سیکیورٹی کے سخت انتظامات بھی مکمل تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ بندوق کے سائے میں صحت کی مہم چلانا ایک مجبوری تو ہو سکتی ہے، مستقل حل نہیں۔
سالارزئی کے واقعے نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ شدت پسند سوچ کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ زندگی کی سادہ حقیقتیں ہیں۔ ایک طرف معذور بچوں کی زندگیاں ہیں، دوسری طرف نفرت اور گمراہی۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ صرف مجرموں کی تلاش اور سزا تک محدود نہ رہے بلکہ اس سوچ کے خاتمے کے لیے طویل المدت اقدامات کرے جو بچوں کی صحت کو بھی دشمنی کا نشانہ بناتی ہے۔
پولیو ایک ایسا مرض ہے جو سرحدیں نہیں دیکھتا، زبان یا مذہب کی تمیز نہیں کرتا اور صرف کمزور جسموں کو نشانہ بناتا ہے۔ اس کے خلاف جنگ میں کوئی غیر جانبدار نہیں ہو سکتا۔ یا تو ہم بچوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا خاموشی سے ان قوتوں کے لیے جگہ چھوڑ دیں گے جو زندگی کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ باجوڑ کا واقعہ ہمیں یہ انتخاب ایک بار پھر یاد دلاتا ہے، اور یہ انتخاب محض ریاست کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا ہے۔
اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان پولیو سے پاک ہو، تو ہمیں ہر اس گولی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا جو پولیو کے قطروں کی طرف چلائی جاتی ہے۔ ہمیں ہر اس بیانیے کو چیلنج کرنا ہوگا جو جہالت کو ایمان اور تشدد کو غیرت کا نام دیتا ہے۔ ورنہ ہر نئی پولیو مہم کے ساتھ ہمیں ایک نئے جنازے کے لیے تیار رہنا ہوگا، اور یہ قیمت کسی بھی معاشرے کے لیے بہت زیادہ ہے۔







