پنجاب بھر میں حالیہ سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے، وہ کسی قیامت سے کم نہیں۔ کھڑی فصلیں ہزاروں ایکڑ پر برباد ہو گئیں، جس سے ملک کی غذائی ٹوکری کہلانے والا پنجاب اس وقت شدید بحران میں مبتلا ہے۔ سندھ میں بھی صورت حال مختلف نہیں اور جلد ہی وہاں بھی یہی منظرنامہ سامنے آنے والا ہے۔ پاکستان بزنس فورم نے ابتدائی جائزے میں بتایا ہے کہ وسطی اور جنوبی پنجاب میں چاول کی 60 فیصد، کپاس کی 35 فیصد اور گنے کی 30 فیصد فصل تباہ ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہی معیشت اور لاکھوں کسانوں کے روزگار پر کاری ضرب لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بزنس فورم نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر ملک میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اس نوعیت کی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی اور اگر سندھ میں بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو وہاں بھی یہی حال ہوگا۔
یہ تباہی صرف کسانوں یا دیہی علاقوں کا مسئلہ نہیں بلکہ براہ راست قومی معیشت اور عوامی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔ ملک میں پہلے ہی خوراک کی قیمتیں قابو سے باہر ہیں۔ گوداموں اور گھروں میں محفوظ گندم کا بڑا حصہ پانی میں بہہ گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کی ذاتی ضرورت پوری نہیں ہو سکے گی بلکہ شہروں میں بھی آٹے اور دیگر اجناس کی قلت بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ یہ صورتحال لاکھوں شہریوں اور دیہی باسیوں کی غذائی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ اس خدشے کو اور واضح کرتی ہے کہ سیلاب سے پیدا ہونے والا نقصان مالی دباؤ کو بڑھا دے گا۔ زرعی اور صنعتی فصلوں کی تباہی کے باعث اب درآمدات پر انحصار مزید بڑھے گا، جس سے زرمبادلہ کا خسارہ اور مالیاتی دباؤ مزید بڑھنے کا قوی امکان ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک پہلے ہی غیر معمولی معاشی بحران کا شکار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زرعی شعبہ بارشوں اور سیلاب سے پہلے بھی مشکلات کا شکار تھا۔ گزشتہ مالی سال میں زرعی ترقی محض 0.56 فیصد رہی، جو گزشتہ دس برسوں میں سب سے کم ہے، جبکہ پانچ سالہ اوسط 3.38 فیصد رہی تھی۔ یہ ناکامی نہ صرف مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو متاثر کر رہی ہے بلکہ صنعتی اور خدماتی شعبے پر بھی براہ راست منفی اثر ڈال رہی ہے۔ اب جب کہ فصلیں بڑے پیمانے پر تباہ ہو چکی ہیں، خدشہ ہے کہ رواں سال بھی یہ بحران اور زیادہ شدت اختیار کرے گا۔
زرعی ایمرجنسی کا اعلان اس وقت ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ کسانوں کو فوری ریلیف ملے اور دیہی معیشت کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس بحران کو اصلاحات کے لیے ایک موقع سمجھے۔ زرعی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں کیے بغیر ہم ہر سال بارشوں اور سیلاب کے ہاتھوں اپنے کسانوں کو برباد ہوتا دیکھتے رہیں گے۔ پانی کے ذخائر کی کمی، جدید ٹیکنالوجی کا فقدان، زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری کی قلت اور کسانوں کے مسائل کو نظرانداز کرنے کی روایت نے اس شعبے کو پسماندہ بنا دیا ہے۔
پاکستان بزنس فورم کے ایک رکن نے درست کہا کہ یہ بحران ہمارے لیے ایک بیداری کا لمحہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف متاثرہ کسانوں کو فوری امداد فراہم کرے بلکہ طویل مدتی حکمت عملی کے ذریعے زرعی معیشت کو جدید بنیادوں پر استوار کرے۔ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات دن بدن بڑھ رہے ہیں، ایسے میں اگر آج فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو کل کو یہ بحران ہماری معیشت کو مکمل طور پر مفلوج کر سکتا ہے۔
لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت فوری طور پر زرعی ایمرجنسی نافذ کرے، متاثرہ کسانوں کے لیے مالی معاونت اور بیج و کھاد کی فراہمی یقینی بنائے، اور ساتھ ہی زرعی اصلاحات کا ایسا نظام متعارف کرائے جو آئندہ نسلوں کو موسمیاتی تباہ کاریوں سے بچا سکے۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے ہم اپنی غذائی سلامتی اور معیشت کو ڈوبنے سے بچا سکتے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ محض وقتی ریلیف کا نہیں بلکہ پالیسی سطح پر ایک بڑے فیصلے کا ہے۔ اگر حکومت صرف اعلان کرتی رہی اور عملی اقدامات نہ اٹھائے تو یہ بحران آنے والے برسوں میں اور بڑھ جائے گا۔ سیلابی پانی کے ریلے ہر سال لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کو تباہ کرتے ہیں، لیکن ہم اب تک ایسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں ناکام ہیں جو بارش کے پانی کو محفوظ کر کے بعد ازاں فصلوں کے لیے استعمال کر سکے۔ زرعی شعبہ ملک کی معیشت کا چوتھائی ہے اور 40 فیصد محنت کشوں کو روزگار فراہم کرتا ہے، لیکن یہی شعبہ سب سے زیادہ نظرانداز بھی ہے۔
کسانوں کے مسائل صرف قدرتی آفات تک محدود نہیں۔ بیج، کھاد اور ڈیزل کی قیمتیں کسان کی کمر توڑ رہی ہیں۔ زرعی منڈیوں میں مڈل مین کا کردار کسان کو اس کی محنت کا اصل معاوضہ نہیں لینے دیتا۔ حکومت کے ادارے اکثر صرف اعداد و شمار تک محدود رہتے ہیں، جبکہ عملی طور پر کسان کو اس کی پیداوار کا منصفانہ ریٹ بھی نہیں ملتا۔ اب جب کہ سیلاب نے زرعی ڈھانچے کو مزید کمزور کر دیا ہے، کسان کو سرکاری اور مالیاتی اداروں سے براہ راست مدد فراہم کرنا ہوگی۔ قرضوں میں سہولت، بیج و کھاد کی سبسڈی اور زمینوں کی بحالی کے منصوبے فوری ترجیح ہونی چاہییں۔
مزید یہ کہ پاکستان کو زرعی بیمہ اسکیم کو لازمی بنانا ہوگا۔ دنیا کے کئی ممالک میں کسانوں کی فصلیں اگر قدرتی آفات سے تباہ ہو جائیں تو بیمہ کمپنی ان کے نقصان کا بڑا حصہ پورا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی مضبوط پالیسی موجود نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال کسان اپنی محنت اور زندگی بھر کی جمع پونجی پانی میں بہا دیتا ہے۔ زرعی بیمہ نہ صرف کسان کو تحفظ دے گا بلکہ ملکی غذائی سلامتی کو بھی یقینی بنائے گا۔
پانی کے وسائل پر بھی فوری توجہ دینا ہوگی۔ اگر بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم اور ذخائر تعمیر نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں خشک سالی اور قحط کے خطرات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ سندھ اور بلوچستان پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہیں اور اگر اس بحران کا حل نہ نکالا گیا تو صوبوں کے درمیان کشیدگی بھی بڑھے گی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ ہماری قومی پالیسیوں میں ماحولیات ہمیشہ سب سے آخری ترجیح رہی ہے۔ اب وقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر دیکھا جائے۔ زرعی اصلاحات، پانی کے ذخائر، فصلوں کی انشورنس اور موسمیاتی منصوبہ بندی کو ایک ہی فریم ورک میں لانا ہوگا۔
آخر میں حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ زرعی ایمرجنسی کا مطلب صرف متاثرہ کسانوں میں چند ارب روپے بانٹ دینا نہیں ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر اصلاحی ایجنڈا ہونا چاہیے جو فوری ریلیف کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے مضبوط زرعی ڈھانچہ تشکیل دے۔ اگر یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا تو پاکستان نہ صرف اپنی غذائی سلامتی کھو دے گا بلکہ درآمدات پر انحصار کر کے معاشی غلامی کے ایک نئے دائرے میں داخل ہو جائے گا۔
