کرم ضلع، جو خیبر پختونخوا کے دلکش لیکن زخم خوردہ پہاڑوں میں واقع ہے، آج خون کی سرزمین بنا ہوا ہے۔ یہ خون ان لوگوں کا ہے جنہیں نہ صرف تاریخ کے نوآبادیاتی مظالم نے زخمی کیا، بلکہ آج کا بے حس حکومتی نظام بھی ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔ کرم کا مسئلہ محض قبائلی جھگڑوں یا مقامی تنازعات کا مسئلہ نہیں ہے؛ یہ نوآبادیاتی تاریخ کے ان گہرے زخموں کی یاد دہانی ہے، جنہیں ایک پوسٹ نوآبادیاتی ریاست نے مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہ کہانی اس نظام کی ہے جو کنٹرول کے لیے بنا تھا، نہ کہ آزادی اور انصاف کے لیے۔کرم کو ایک بار پھر فراموش کر دیا گیا ہے، ایک ایسے علاقے کی شکل دے دی گئی ہے جو صرف استحصال کی کہانیوں میں زندہ ہے۔ کرم کے عوام اپنے وجود کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ایسے نظام کی لپیٹ میں جو نہ صرف ان کا خون چوس رہا ہے بلکہ ان کی آواز کو بھی دبا رہا ہے۔ اس بحران کی جڑ نوآبادیاتی ذہنیت میں دفن ہے، وہ ذہنیت جو انسانیت کو نہیں بلکہ سرحدوں اور کنٹرول کو ترجیح دیتی ہے۔کرم کے بحران کو سمجھنے کے لیے ہمیں “قبائلی تنازعے” اور “فرقہ وارانہ جھگڑوں” کی سرخیوں سے آگے دیکھنا ہوگا۔ یہ مسئلہ اس تاریخی تناظر سے جڑا ہوا ہے جب 1893 میں برطانوی سامراج نے ڈیورنڈ لائن کھینچی، بغیر یہ سوچے کہ اس کے اثرات وہاں بسنے والے لوگوں پر کیا ہوں گے۔ ایک ایسے خطے کو جو جغرافیائی اور ثقافتی طور پر ایک اکائی تھا، مصنوعی طور پر تقسیم کر دیا گیا۔ یہ سرحد برطانوی سامراج کے لیے “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی کا ایک اوزار تھی، لیکن ان لوگوں کے لیے یہ مصیبتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بن گئی۔آج، جب سامراجی حکمرانوں کا سایہ ختم ہو چکا ہے، پاکستان نے انہی نوآبادیاتی ڈھانچوں کو اپنا لیا ہے۔ کرم کو اب بھی ایک “بفر زون” سمجھا جاتا ہے، نہ کہ پاکستان کی روح کا حصہ۔ جب کسی علاقے کے لوگوں کو آپ اپنا نہیں سمجھتے، تو پھر ان کی فلاح و بہبود کی ضمانت کیسے دے سکتے ہیں؟ کرم کے موجودہ حالات ریاستی بے حسی کی انتہا کو ظاہر کرتے ہیں۔کرم کے زمینی اور آبی تنازعات ان گہرے مسائل کی علامت ہیں، جو نوآبادیاتی حکمرانوں کی چالاکیوں سے پیدا کیے گئے تھے۔ برطانوی دور میں فرقہ وارانہ اختلافات کو دانستہ طور پر ہوا دی گئی تاکہ اجتماعی مزاحمت کو کچلا جا سکے۔ آج، انہی اختلافات کو فرقہ وارانہ گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں نے مزید شدت سے بھڑکا دیا ہے۔وار آن ٹیرر” کا سامراجی کھیل، جس کا مقصد علاقے میں مغربی تسلط کو بڑھانا تھا، نے کرم کو مزید عدم استحکام کا شکار کر دیا۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش جیسی تنظیموں کی طاقت میں اضافہ اس عالمی سیاست کا براہ راست نتیجہ ہے، جس میں مقامی عوام کی قیمت پر سامراجی مفادات کو فوقیت دی گئی۔ یہ گروہ نہ صرف ریاستی غفلت کے خلا میں پھل پھولے بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کے مہروں کے طور پر استعمال ہوئے۔ کرم کے مظلوم عوام اس بین الاقوامی شطرنج کے کھیل کے محض مہرے ہیں، جنہیں ہر چال پر قربان کر دیا جاتا ہے۔گزشتہ سال نومبر میں، کرم کے علاقے بگان میں ایک قافلے پر حملے میں چالیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقعے کے بعد، کرم مزید عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔ 130 سے زائد افراد مختلف جھڑپوں میں مارے جا چکے ہیں، اور ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ تھل-پاراچنار روڈ کو ہفتوں تک بند رکھنے کی وجہ سے علاقے میں ایک انسانی بحران نے جنم لیا۔ ضروری اشیاء، ادویات، اور خوراک کی قلت نے حالات کو ناقابلِ برداشت بنا دیا۔نوزائیدہ بچے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دم توڑ گئے۔ بزرگ مریض، جن کا علاج ممکن تھا، دواؤں کی عدم دستیابی کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے۔ معصوم خاندان بھوک اور افلاس کی دلدل میں دھنس گئے، اور ریاست اس تمام صورتحال کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔تھل-پاراچنار روڈ کی بندش محض ایک انتظامی مسئلہ نہیں تھا؛ یہ ایک ظلم تھا۔ کسی بھی مہذب ریاست میں کسی علاقے کو محصور کرنا، حتیٰ کہ ایک دن کے لیے، ناقابلِ تصور ہوتا ہے۔ لیکن کرم میں، یہ حالت کئی ہفتوں تک جاری رہی۔ کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کرم کے عوام ریاست کے لیے “قابلِ قربانی” ہیں؟ریاست اور سیکیورٹی فورسز کا یہ دعویٰ کہ کرم کا مسئلہ “چند شرپسندوں” کی وجہ سے ہے، اصل حقیقت کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔ یہ بحران کسی بھی حد تک پہنچا، اس میں بنیادی وجہ ریاست کی وہ ناکامی ہے جو ہمیشہ سے موجود ہے۔ جرگوں اور وقتی امن معاہدوں پر انحصار کرنا اس مسئلے کا حل نہیں تھا۔ یہ وہی سامراجی حکمتِ عملی کی بازگشت تھی، جس کے تحت تقسیم کر کے حکومت کی جاتی تھی۔یکم جنوری کو کیا گیا امن معاہدہ، جو پشتون روایات کے تحت کیا گیا، ایک مثبت قدم تھا، لیکن اسے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جا سکا۔ اس دوران، شدت پسند گروہ اپنی کارروائیوں میں آزاد رہے، قافلوں پر حملے کرتے رہے، اور عوام کے لیے زندگی مزید مشکل بناتے رہے۔جرگے کے نمائندوں کی جانب سے پاکستان کی قیادت کو لکھا گیا خط ریاستی ناکامی کی کھلی گواہی دیتا ہے۔ جرگہ کے اراکین نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے قیام کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ذمہ دار عناصر کو سزا دی جا سکے، متاثرین کو معاوضہ دیا جا سکے، اور کرم میں امن قائم کیا جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ ناکام ریاست واقعی اپنے عوام کے لیے انصاف فراہم کرے گی؟ تاریخ اس پر بہت کم امید دیتی ہے۔اگر کرم کے لیے کوئی امید ہے، تو وہ اس میں ہے کہ ریاست اپنے عوام کے بارے میں اپنے رویے میں بنیادی تبدیلی لائے۔ وہ نوآبادیاتی ذہنیت جو کرم جیسے علاقوں کو محض کنٹرول کے لیے دیکھتی ہے، اسے ختم کرنا ہوگا۔ کرم کے عوام کوئی “شرپسند” نہیں ہیں؛ وہ پاکستان کے شہری ہیں، جنہیں وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو اسلام آباد، لاہور، یا کراچی کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ریاست کو کرم کے انفراسٹرکچر، صحت، اور تعلیم میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اور یہ سب وقتی نہیں بلکہ ایک طویل المدتی منصوبے کے تحت ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ، سامراجی قوتوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا ہوگا۔ کرم میں موجودہ بحران محض ایک مقامی مسئلہ نہیں ہے؛ یہ اس استحصالی نظام کا حصہ ہے جس کی جڑیں نوآبادیاتی تاریخ میں دفن ہیں اور جسے عالمی طاقتیں آج بھی بڑھا رہی ہیں۔کرم کے عوام کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے—پہلے نوآبادیاتی حکمرانوں نے، اور پھر ایک ایسی ریاست نے جو انہی نوآبادیاتی ڈھانچوں کا وارث بنی۔ ان کے انصاف کے مطالبے پہاڑوں میں گونج رہے ہیں، ایک ایسی پکار جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔یہ وقت کرم کے ساتھ کھڑا ہونے کا ہے، نہ کہ خیرات کے طور پر، بلکہ انصاف کے لیے ایک اجتماعی مطالبے کے طور پر۔ یہ وقت ہے کہ ان زخموں کو بھرا جائے، اور یہ کام گولیوں یا ناکہ بندیوں سے نہیں ہوگا، بلکہ ہمدردی، انصاف، اور سامراجی سوچ کے خاتمے کے ذریعے ہوگا۔ کرم کے لوگ آزادی کے مستحق ہیں۔ یہ وقت ہے کہ انہیں وہ آزادی دی جائے۔
دہشت گردوں سے مذاکرات، – ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا
پاکستان میں دہشت گردوں سے نمٹنے کا ہر موقع کسی ناٹک سے کم نہیں ہوتا۔ ایک طرف بندوق بردار عسکری قیادت ہے، جو کہتی ہے کہ ہر مسئلے کا حل “آپریشن ضرب” یا “آپریشن رد” کی صورت میں موجود ہے۔ دوسری طرف ہماری نرم گفتار سیاسی قیادت ہے، جو نہایت فلسفیانہ انداز میں مشورہ دیتی ہے: “چلو، ذرا دہشت گردوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ شاید وہ ہمیں سمجھ جائیں!” اور عوام، بیچارے عوام، درمیان میں پھنسے ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ ریاستی مزاحیہ شو کب ختم ہوگا۔پشاور میں حالیہ ملاقات کے دوران بھی یہی تماشا دیکھنے کو ملا، جہاں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور قومی سیاسی رہنما دہشت گردوں کے مسئلے پر گفتگو کرنے کے لیے اکھٹے ہوئے۔ اس ملاقات کا محور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان کی معصوم سی “نافرمانی” تھی۔ ہاں، وہی افغان طالبان جنہیں ہم نے نہایت گرمجوشی کے ساتھ کابل کی گدی پر بٹھایا، اور اب وہ ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قیادت یہ سوچ رہی ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کوئی چائے کی دعوت ہے؟ “چلو بھائی، ذرا ٹی ٹی پی کے ساتھ بیٹھ کر قہوہ پی لیتے ہیں، اور انہیں کہتے ہیں کہ بھائی، خدا کے واسطے، ذرا بم پھینکنا بند کر دو!” لیکن ٹی ٹی پی تو اپنے مطالبات لے کر آتی ہے جیسے وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں مذاکرات کے لیے آئے ہوں: “ہمیں یہ چاہیے، وہ چاہیے، اور ہاں، فاٹا کو دوبارہ بحال کرو اور اپنا آئین ہماری مرضی سے بدل لو!”یہاں مسئلہ صرف دہشت گردوں سے بات کرنے کا نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ ہماری قیادت کی “یادداشت” کافی کمزور ہے۔ شاید وہ بھول گئے ہیں کہ ماضی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیسے ناکام ہوئے تھے۔ ہر بار جب حکومت نے ان سے بات کی، ٹی ٹی پی نے باتوں کو صرف وقت خریدنے کے لیے استعمال کیا، اور پھر نئے حملوں کے ساتھ میدان میں واپس آگئے۔ یہ مذاکرات ایسے ہیں جیسے آپ کسی سانپ سے کہیں کہ “جناب، ذرا ڈسنا بند کریں”، اور وہ جواب دے کہ “ٹھیک ہے، لیکن ذرا اپنی گردن میرے قریب لائیں!” اب آتے ہیں عسکری قیادت کی طرف۔ ان کے نزدیک ہر مسئلے کا حل بندوق کی گولی ہے۔ لیکن یہاں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے: آپ دہشت گردوں پر کتنے ہی حملے کر لیں، جب تک ان کے نظریے اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ نہیں ہوگا، یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔ اور وہ محفوظ ٹھکانے کہاں ہیں؟ جی ہاں، افغانستان میں۔ اور افغان طالبان کیا کر رہے ہیں؟ وہ خاموشی سے ہماری پیٹھ پیچھے دہشت گردوں کو تحفظ دے رہے ہیں، اور جب ان سے پوچھو تو کہتے ہیں، “یہ ہمارے بھائی ہیں، ان کے ساتھ زبردستی نہ کریں۔”یہاں ایک اور ستم ظریفی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان، جو کبھی چین کے لیے طالبان تک رسائی کا ذریعہ تھا، اب خود چین سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ طالبان پر دباؤ ڈالے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جیسے آپ کسی بچے کو چاکلیٹ کھانے سے روکنے کے لیے کسی اور بچے سے مدد مانگیں، جبکہ وہ دونوں بچے خود بھی چاکلیٹ کھانے کے شوقین ہوں۔سیاسی قیادت کہتی ہے کہ مذاکرات کریں، عسکری قیادت کہتی ہے کہ بندوق اٹھائیں، اور عوام سوچتی ہے کہ یہ مذاق کب ختم ہوگا؟ کیا ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات اس وقت تک بے معنی ہیں جب تک ان کے خلاف ایک جامع اور مربوط حکمت عملی نہ ہو؟ کیا ہم نے ماضی کی ناکامیوں سے کچھ نہیں سیکھا؟حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی ایک منقسم تنظیم ہے، جس کے مختلف دھڑے اپنے اپنے مفادات رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کسی بھی معاہدے کی حیثیت صرف اتنی ہوگی جیسے آپ ایک پرندے کو جال میں پکڑ کر یہ امید رکھیں کہ وہ دوبارہ اڑنے کی کوشش نہیں کرے گا۔یہاں تک کہ اگر ہم مذاکرات کا راستہ اپناتے ہیں، تو یہ مذاکرات کامیاب کیسے ہوں گے؟ نہ تو ہمارے پاس کوئی غیر جانبدار ثالث ہے، نہ ہی افغان طالبان قابلِ اعتماد ہیں، اور نہ ہی بین الاقوامی برادری اس مسئلے کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک کھچڑی پکانے کی کوشش کریں، جس میں نہ نمک ہو، نہ مرچ، اور نہ آگ۔مختصر یہ کہ یہ صورتحال ایک بہت بڑی طنز کی مانند ہے، جس میں ہر فریق اپنی جگہ کھڑا صرف باتیں کر رہا ہے، جبکہ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت یا بندوق کا استعمال، دونوں ہی ناکام ہوں گے جب تک ہم ایک واضح، متحد اور عملی حکمت عملی نہیں اپناتے۔ لیکن کیا ہم یہ کر سکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ کیوں کہ ہمارے ہاں فیصلہ سازی ایک مذاق سے کم نہیں۔تو، اگلی بار جب کوئی کہے کہ “چلو دہشت گردوں سے مذاکرات کریں”، تو اس سے پوچھیں: “چائے کے ساتھ کیا لیں گے؟ بم یا بندوق؟”
سائبر سکیورٹی: جدید دنیا کا نازک مسئلہ
ورلڈ اکنامک فورم کی “گلوبل سائبر سیکیورٹی آؤٹ لک 2025 رپورٹ، شائع شدہ 13 جنوری، دنیا بھر میں سائبر سیکیورٹی کی سنگین حالت کی نشاندہی کرتی ہے۔ رپورٹ میں جغرافیائی کشیدگی، جدید ٹیکنالوجیز کا تیزی سے ابھرنا، اور سائبر حملہ آوروں کی بڑھتی ہوئی مہارت کو سائبر خطرات میں اضافے کی بڑی وجوہات قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 60 فیصد اداروں نے جغرافیائی عدم استحکام کو اپنی سائبر حکمت عملیوں پر نمایاں اثر ڈالنے والا عامل قرار دیا، جبکہ 45 فیصد نے عالمی طاقتوں کی کشیدگی کے باعث اپنے کاروباری عمل میں ممکنہ خلل کا خدشہ ظاہر کیا۔جدید ٹیکنالوجیز، خصوصاً مصنوعی ذہانت (AI)، کے تیزی سے بڑھتے ہوئے استعمال نے ان خطرات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ 66 فیصد اداروں نے AI کو مستقبل میں سائبر سیکیورٹی پر سب سے زیادہ اثر ڈالنے والا عامل قرار دیا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک، جہاں انٹرنیٹ کے استعمال اور ڈیجیٹلائزیشن میں تیزی آ رہی ہے، کو ان خطرات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان میں 5G ٹیکنالوجی اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ جیسی جدید خدمات کے نفاذ کے ساتھ ڈیجیٹل ترقی کے اقدامات، مثلاً ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل اور “اُڑان پاکستان” منصوبہ، حوصلہ افزا ہیں۔ تاہم، ان تبدیلیوں کے ساتھ سائبر سیکیورٹی کے لیے بھاری سرمایہ کاری، ماہرین کی تربیت، اور بنیادی ڈھانچے کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے، پاکستان میں حکومتی اقدامات خود ہی سائبر سیکیورٹی کے مسائل کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ سینسرشپ، رفتار کی کمی، اور وی پی این پر پابندیاں نہ صرف اعتماد کو مجروح کرتی ہیں بلکہ سیکورٹی کی خامیاں بھی پیدا کرتی ہیں۔ ان غیر ضروری اقدامات سے نہ صرف مواصلاتی نظام متاثر ہوتا ہے بلکہ سائبر حملوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔سائبر سیکیورٹی کے لیے قومی سطح پر شفاف، جدید اور عوام دوست حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ محض نگرانی اور کنٹرول کی پالیسیوں کے بجائے شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ اور ایک محفوظ ڈیجیٹل مستقبل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔