مغرب میں اسلام کے حوالے سے جو عمومی تاثر پایا جاتا ہے، وہ ہمیشہ سے متنازع اور پیچیدہ رہا ہے۔ خاص طور پر دینی مدارس کے حوالے سے مغربی دنیا کی سوچ میں انتہاپسندی، دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کا تاثر غالب آتا ہے۔ مدارس کو عام طور پر ان اداروں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جہاں نفرت، تشدد اور عدم برداشت کی تعلیم دی جاتی ہے، اور جہاں کے طلباء مستقبل میں شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
یہ سوچ نہ صرف حقیقت سے بعید ہے بلکہ اسلام کی اصل تعلیمات کے بالکل برعکس بھی ہے۔ دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو محبت، امن، اور رواداری کا پیغام دیتا ہے۔ قرآن اور حدیث میں بے شمار مقامات پر امن اور برداشت کی بات کی گئی ہے اور انتہا پسندی کا کوئی جواز نہیں دیا گیا۔
آسٹریلین حکومت نے پاکستانی دینی مدارس کو جدید تکنیکی تعلیم فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ اس خبر میں ایک نیا زاویہ نظر آتا ہے جس میں دینی مدارس کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اور یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مغربی دنیا اسلام کے روشن چہرے کو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کر رہی ہے۔
مغرب میں مسلمانوں کے حوالے سے جو عمومی تاثر ہے، اس کا بڑا حصہ میڈیا، سیاست اور بعض واقعات کی بنیاد پر ہے۔ 9/11 کے حملوں کے بعد مغربی میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردی اور انتہاپسندی سے جوڑنا شروع کیا اور اس کے نتیجے میں دینی مدارس کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ یہ تاثر عام طور پر اس بنیاد پر قائم کیا گیا کہ مبینہ طور پربعض مدارس کے طلباء اور فارغ التحصیل افراد نے دہشت گرد گروپوں میں شمولیت اختیار کی یا انتہا پسندانہ سوچ اپنائی۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام دینی مدارس ایک جیسے نہیں ہوتے۔ پاکستان میں تقریباً 18,000 دینی مدارس رجسٹرڈ ہیں اور ان میں سے اکثر مدارس میں تعلیم و تربیت کا مقصد محض دینی علوم کا فروغ اور معاشرتی بہتری ہے۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی بڑی تعداد ایسے ہیں جو معاشرتی خدمت میں پیش پیش ہیں اور اسلامی تعلیمات کو اپنانے کے بعد دنیا بھر میں امن و محبت کے پیغامات کا پرچار کرتے ہیں۔
اسلام میں کسی بھی صورت میں انتہا پسندی یا دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن و حدیث میں بار بار مسلمانوں کو امن، رواداری اور انسانیت کا احترام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام کسی بھی صورت میں جبر یا تشدد کو فروغ نہیں دیتا۔اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے پیروکاروں کو دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور رواداری کے اصولوں پر عمل کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تمہارے لئےبہترین قوم وہ ہے جو لوگوں میں سب سے زیادہ محبت، عدل اور انصاف کرے۔ (سورۃ آل عمران، 3:110)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اسلام میں کسی قسم کی انتہا پسندی یا شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ اسلام میں انسانوں کے ساتھ حسن سلوک، رواداری، اور محبت کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
حضرت محمد ﷺ کی ایک مشہور حدیث ہے:تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)
یہ حدیث اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کی بنیاد پر پیش آنا چاہیے۔ اسلام کی یہ تعلیمات ہر مسلمان کو ایک پرامن اور روادار فرد بننے کی ترغیب دیتی ہیں، اور اس میں کسی بھی قسم کی شدت پسندی یا تشدد کا کوئی تصور نہیں ہے۔
مغرب میں اسلام کے بارے میں جو منفی تاثر پایا جاتا ہے، اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں، جن میں میڈیا کا کردار اہم ہے۔ مغربی میڈیا اکثر ان واقعات کو اجاگر کرتا ہے جن میں کچھ مسلمان انتہاپسند گروپوں کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں، اور اسی کو بنیاد بنا کر اسلام کو ایک ’’شدت پسند‘‘مذہب کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ دینی مدارس میں پڑھنے والے بیشتر طلباء صرف اور صرف دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کا مقصد معاشرتی بہتری اور اسلامی اخلاقیات کی ترویج ہوتا ہے۔ مدارس میں طلباء کو قرآن، حدیث، فقہ، اور اسلامی تاریخ کی تعلیم دی جاتی ہے، جو انہیں ایک اچھا مسلمان اور معاشرتی فرد بنانے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
آسٹریلین حکومت کی جانب سے پاکستانی دینی مدارس کو جدید تکنیکی تعلیم فراہم کرنے کی پیشکش ایک نیا قدم ضرور ہے، مگر اس میں ایک چھپی ہوئی تشویش بھی شامل ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مدارس میں پڑھنے والے طلباء میں نفرت اور انتہا پسندی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ جب کوئی ملک مدارس کو جدید تعلیم دینے کی پیشکش کرتا ہے تو یہ اس بات کا عندیہ ہوتا ہے کہ وہ مدارس کو ایک متنازعہ ادارہ سمجھتا ہے جہاں مذہبی شدت پسندی کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ یہ پیشکش دراصل ایک مخصوص تصور کی عکاسی کرتی ہے کہ مدارس میں پھیلائی جانے والی تعلیمات معاشرتی عدم برداشت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کی طرف لے جا رہی ہیں۔
اس پیشکش کو ایک طرف سے اس لیے بھی خطرناک سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد میں کوئی کمی ہے جسے پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، مگر اس کے ساتھ یہ تاثر دینا کہ مدارس کے اندر بنیادی طور پر نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسلام یا دینی مدارس کے بارے میں مغربی دنیا کی سوچ ابھی تک منفی اور تعصبی ہے۔
وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین کا اس پیشکش پر خوشی کا اظہار اور مدارس کو جدید تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت کا ذکر ایک مثبت ردعمل ہے، مگر اس موقع پر انہیں اسلام کا اصل اور روشن چہرہ بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔ اسلام ہمیشہ سے انسانیت کے لیے ایک دین محبت اور امن رہا ہے، اور مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء دراصل اسی پیغام کو پھیلانے والے ہیں۔ وفاقی وزیر کو چاہئے تھاکہ وہ مغربی دنیا کو بتاتے کہ اسلام کبھی بھی انتہا پسندی یا نفرت کو فروغ نہیں دیتا۔ مدارس میں پڑھنے والے طلباء کی اکثریت معاشرتی بہتری اور امن کے لیے کام کر رہی ہے، اور یہ وقت تھا کہ وزیر صاحب اس بات کا واضح پیغام دیتے کہ مدارس میں پڑھنے والے افراد دہشت گرد نہیں ہیں، بلکہ وہ اپنے معاشرے کے مفاد میں کام کرنے والے افراد ہیں۔
مجموعی طور پر یہ پیشکش اس حقیقت کو نظرانداز کرتی ہے کہ دینی مدارس اسلام کی اصل تعلیمات کو پڑھا رہے ہیں، جو کہ امن، رواداری اور محبت پر مبنی ہیں۔ مغربی دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مدارس میں پڑھنے والے طلباء کے ذہنوں میں نفرت یا انتہاپسندی کا کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ وہ محض اپنی دینی تعلیمات حاصل کر رہے ہیں تاکہ ایک بہتر انسان اور مسلمان بن سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر مغرب کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مدارس کا کردار صرف اور صرف دین اسلام کی تعلیمات کا فروغ ہے، نہ کہ شدت پسندی کی ترویج۔
یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آسٹریلین حکومت کی پیشکش ایک طرف جہاں ایک تعلیمی تعاون کی علامت ہے، وہیں اس میں چھپی ہوئی تشویش بھی مغربی دنیا کے رویے کو ظاہر کرتی ہے جو دینی مدارس کو ایک متنازعہ ادارہ سمجھتی ہے۔ مدارس کا مقصد اور ان میں پڑھنے والے طلباء کی اکثریت امن، رواداری اور محبت کا پیغام دینے والے ہیں، نہ کہ نفرت اور انتہاپسندی کا۔ ہمیں اس حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ایک روشن خیال مذہب ہے جو ہر قسم کی شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہے۔
اگرچہ وزارت مذہبی امور نے مدارس کے طلباء کو جدید تعلیم دینے کی ضرورت کا ذکر کیا ہے، مگر اس موقع پر وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین کو اسلام کے اصل پیغام کو مغربی دنیا تک پہنچانے کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ انہیں یہ موقع استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح پر اسلام کی حقیقی تعلیمات، جو کہ محبت، امن اور رواداری پر مبنی ہیں، کی وضاحت کرنی چاہیے تھی تاکہ مغربی دنیا کے ذہنوں میں موجود منفی تاثر کو دور کیا جا سکے۔ مدارس میں پڑھنے والے طلباء کی اکثریت دہشت گرد نہیں بلکہ وہ معاشرتی بہتری، تعلیم اور محبت کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔
آخرکار، اس معاملے میں ہمیں عالمی سطح پر اسلام کی اصل روح کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ مدارس کا کردار کبھی بھی نفرت یا انتہاپسندی کو فروغ دینے کا نہیں رہا، بلکہ وہ معاشرتی خدمت کے لیے ایک مستند ذریعہ ہیں۔ مغربی دنیا کو چاہیے کہ وہ اسلام کے اصل پیغام کو سمجھے اور مدارس کے کردار کو اس نظر سے دیکھے جو حقیقت کے قریب تر ہو، نہ کہ ایک غلط تصور کی بنیاد پر۔
