وفاقی حکومت نے بلوچستان کے ریکوڈک کان کنی منصوبے کے لیے 390 ملین ڈالر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ کانوں سے نکلنے والے تانبے اور سونے کی برآمدی معدنیات کی ترسیل کے لیے 1,350 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک بچھایا جا سکے۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب وزارتِ ریلوے نے اس منصوبے کے حوالے سے سمری پیش کی۔ بظاہر یہ فیصلہ نہ صرف ریکوڈک منصوبے کی راہ ہموار کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ حکومت پاکستان عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کے ساتھ اپنے وعدوں پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجا طور پر کہا کہ یہ منصوبہ بلوچستان کے معاشی نقشے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ملک کے لیے روزگار، بنیادی ڈھانچے اور ترقی کے بے شمار مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ ریکوڈک منصوبہ دنیا کے سب سے بڑے غیر ترقی یافتہ تانبے اور سونے کے ذخائر میں سے ایک ہے، اور اس کی پیداوار پاکستان کو اربوں ڈالر کی آمدنی دلا سکتی ہے۔ حالیہ فزیبلٹی اسٹڈی کے مطابق اس منصوبے میں 60 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے غیر معمولی نعمت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بالخصوص بلوچستان اس منصوبے کے حقیقی ثمرات سے فائدہ اٹھا پائے گا یا یہ ایک اور منصوبہ بن کر رہے گا جہاں دولت بہتی تو ہے مگر عوام کے ہاتھ خالی رہتے ہیں؟ ریکوڈک کا معاملہ کئی دہائیوں سے متنازعہ چلا آ رہا ہے۔ ماضی میں حکومتی بدانتظامی، غیر شفاف معاہدے اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ تنازعات نے اس منصوبے کو کئی بار رکنے پر مجبور کیا۔ عالمی ثالثی عدالت میں مقدمات اور اربوں ڈالر کے جرمانے بھی اسی بدانتظامی کا نتیجہ تھے۔ اب جبکہ باریک گولڈ اور دیگر کمپنیوں کے ساتھ نئے معاہدے ہوئے ہیں اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی 410 ملین ڈالر کی فنانسنگ پیکیج فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، تو یہ موقع ہے کہ پاکستان اس منصوبے کو قومی ترقی کے لیے استعمال کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی بڑے خدشات بھی موجود ہیں۔ پہلا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کو اس منصوبے سے کتنا حصہ ملے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ وسائل سے مالا مال صوبے ہمیشہ محرومی کا شکار رہے ہیں۔ چاہے وہ گیس ہو، کوئلہ یا معدنیات، ان کی دولت پورے ملک کو روشن کرتی رہی لیکن مقامی آبادی غربت، بے روزگاری اور پسماندگی میں جکڑی رہی۔ اگر ریکوڈک منصوبے سے مقامی کمیونٹی کو روزگار، تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر میں سہولیات نہیں ملتیں تو یہ منصوبہ بھی بلوچستان کے عوام کے لیے اجنبی اور استحصالی بن جائے گا۔ دوسرا مسئلہ شفافیت کا ہے۔ ای سی سی کی منظوری کے بعد بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا اس منصوبے کے معاہدے واقعی عوام کے سامنے لائے جائیں گے؟ ماضی میں اکثر میگا منصوبے پردے کے پیچھے طے ہوئے اور ان کے نتائج بھی عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے۔ اس بار اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ ریکوڈک پاکستان کی تقدیر بدلے، تو اسے چاہیے کہ معاہدوں کو پارلیمان میں پیش کرے، ان پر بحث کروائے اور ہر مرحلے پر عوامی احتساب کو یقینی بنائے۔ تیسرا پہلو ماحولیاتی خطرات کا ہے۔ کان کنی کے بڑے منصوبے ہمیشہ مقامی ماحولیاتی نظام پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ بلوچستان جیسے خشک اور نازک ماحول والے خطے میں جہاں پانی پہلے ہی نایاب ہے، اتنے بڑے پیمانے پر کان کنی مقامی ماحول، زراعت اور آبادی کے لیے نئے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔ اگر حکومت نے ماحولیاتی اثرات کو نظرانداز کیا تو یہ منصوبہ ترقی کے بجائے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چوتھا پہلو سلامتی کا ہے۔ بلوچستان پہلے ہی دہشت گردی، عسکریت پسندی اور علیحدگی پسند تحریکوں کا شکار رہا ہے۔ ایسے میں ایک کثیر ارب ڈالر منصوبہ عسکریت پسند گروہوں اور دشمن قوتوں کے لیے ہدف بن سکتا ہے۔ اس لیے اس منصوبے کی سکیورٹی کے لیے خصوصی حکمت عملی ناگزیر ہے۔ لیکن یہ سکیورٹی بلوچستان کے عوام کے خلاف جبر کی صورت میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ مقامی کمیونٹیز کو شامل کرکے، ان کے ساتھ اعتماد سازی کے ذریعے ہونی چاہیے۔
