آج کی تاریخ

معلم یا درندے

ریڈرانہ اور اہلمدانہ انصاف(قسط سوئم)

کالم کی ابھی دوسری قسط ہی شائع ہوئی ہے کہ میرے سامنے ڈمی اخبارات کا ایک ڈھیر پڑا ہے جن میں ہزاروں عدالتی اشتہار جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع کی عدالتوں سے ایسے اخبارات میں شائع شدہ ہیں جن کا کوئی سرے سے وجود ہی نہیں۔ مجھے کسی مہربان نے بہت سارا شائع شدہ ریکارڈ نشان لگا کر دیا ہے کہ کن کن مقدمات کے ڈمی اخبارات میں شائع شدہ اشتہارات کے نتیجے میں یک طرفہ فیصلے ہوئے ہیں اور اسی مہربان نے مجھے ڈاک خانے کی ایسی ٹکٹیں بھی بھیجی ہیں جن پر مہریں تو لگی ہوئی ہیں مگر یہ مہریں پڑھی ہی نہیں جا سکتیں کہ کس شہر کی اور کون سے ڈاکخانے کی ہیں۔ مجھے جس مہربان نے یہ مواد بھیجا اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ تمام تر مہریں جعلی بنائی گئی ہیں اور ڈاک خانوں سے ٹکٹ خرید کر ان پر جعلی مہریں لگائی جاتی ہیں عدالتی فائل کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے مگر جس کے خلاف کیس چل رہا ہوتا ہے اسے علم نہیں ہوتا اور عدم حاضری کی بنیاد پر یکطرفہ فیصلے ہو جاتے ہیں جن کے نتیجے میں طلاقیں ہو جاتی ہیں، جائیدادیں ٹرانسفر ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات تو سائلین کو اس وقت ہی پتہ چلتا ہے جب کئی ماہ گزر چکے ہوتے ہیں اور اپیل کا وقت بھی باقی نہیں رہتا۔
کالم کی دوسری قسط کے شائع ہونے کے بعد کسی اہم شخصیت کے ذاتی سٹاف کے لوگوں نے میرے ایک دوست اخبار نویس کے ذریعے رابطہ کیا اور استفسار کیا کہ آپ کے کالم کی پہلی قسط میں جس سید زادی کا ذکر کیا گیا ہے اس کی تفصیلات دیں تاکہ ان کی مدد ہو سکے۔ یہ ٹیلی فون ایک لحاظ سے میرے لیے تکلیف دہ تھا کہ کسی ایک کی مدد کرنے سے کیا اعلیٰ افسران کی ذمہ داریاں پوری ہو جائیں گی؟ کیا اس ایک کالم کے نتیجے میں جو ہزاروں سائلین اور بچیاں رل رہی ہیں کیا ان کی داد رسی نہیں ہوگی؟ کیا انصاف محض کسی مخصوص کیس کے سلسلے میں ہی ہو سکتا ہے؟ مجھ سے رہا نہیں گیا تو میں نے نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک حدیث مبارکہ سنا دی تاہم نہ جانے مجھے کیوں یہ احساس ہوا کہ میرا حدیث کا حوالہ دینا کچھ گراں گزرا ہے۔ حدیث کا مفہوم یا الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں’’عادل منصف روز محشر مینارہ نور پر میرے ساتھ کھڑا ہو گا‘‘ سچ سچ بتائیں کہ کیا یہ مقام اور یہ گارنٹی عادل منصف کے علاوہ کسی اور کو نصیب ہو سکتی ہے؟ مجھے کامل یقین ہے کہ ہمارے نظام انصاف سے وابستہ بہت سے لوگوں نے اس حدیث مبارکہ کو سن ہی نہیں رکھا ہو گا ورنہ اس اعلیٰ ترین مقام سے کون دور بھاگے اور کون اس کی خواہش اور طلب میں زندگی ہی داؤ پر نہ لگا دے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب وہ بات آج کے دور ریاکاری میں سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے کہ شاید میری امت کی آزمائش دولت ہو گی کیونکہ مجھ سے پہلے کسی بھی پیغمبر یا نبی کی امت کی آزمائش دولت نہیں تھی۔
بہرحال نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے بتایا کہ مذکورہ سید زادی کا تعلق بہاولپور ڈویژن سے ہے اور بہاولپور ڈویژن میں صرف تین اضلاع ہیں جتنے بڑے عہدے پر فائز مذکورہ معلومات لینے والے تعینات ہیں ان کے تو ایک حکم سے پورے ڈویژن کے سینکڑوں سائلین کی مدد ہو جائے گی تو پھر میں کسی ایک کا حوالہ کیوں دوں۔ میں بھی تو آج کے دور میں ہر بندے کی طرح لالچی ہوں کہ شاید زیادہ سے زیادہ لوگوں کا بھلا ہو جائے اور حضرت ابو بن ادھم کی تھیوری کے مطابق اللہ کی مخلوق سے محبت کرنے والوں کے رجسٹر پر میرا نام بھی کسی کونے کھدرے میں آ جائے کیونکہ جب میں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا اور شعبہ صحافت میں پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری لینے کے بعد قدم رکھا تھا تو ظہور عالم شہید مرحوم کے میکلوڈ روڈ والے دفتر میں بیٹھے ایک بزرگ جرنلسٹ نے مجھے کہا تھا’’ پتر قلم دا بھار چک لویں گا‘‘تب تو مجھے اس جملے کی سمجھ نہیں آئی تھی کہ چند گرام کے قلم کا وزن کیا ہو سکتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی سمجھ آئی کہ سب سے بڑا بوجھ ہی قلم کا بوجھ ہے اور سب سے بڑا انصاف ہی قلم کی نوک کے ذریعے کیا جا سکتا ہے کہ یہ قلم کی نوک ہی ہے جو زندگی کو موت کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے۔
ڈیرہ غازی خان، جام پور اور کوٹ ادو سے چند دوستوں نے ریڈرانہ انصاف کے حوالے سے ایسے ایسے واقعات بتائے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آ رہی انہیں تحریر میں کیسے لاؤں۔
بہت سال پہلے ملتان میں ایک ڈسٹرکٹ جج اچانک دفتری اوقات کے بعد دفتر تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی عدالت میں شبینہ عدالت لگی ہوئی ہے اور ریڈر صاحب جج صاحب کی میز پر ٹانگیں سیدھی کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بھٹی نامی مذکورہ ریڈر کو فوری طور پر ضلع بدر کر دیا گیا مگر مذکورہ ریڈر ضلع بدر ہونے کے باوجود اپنا نیٹ ورک بدر جہ بہتر انداز میں چلاتے رہے۔ ویسے بھی اب ریڈرانہ اور اہلمدانہ نوکریاں موروثی ہو چکی ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں