ریاست فلسطین کے قیام کے حق میں بین الاقوامی رائے عامہ کا رجحان تیزی سے مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ برسوں سے تعطل اور غیر مؤثر سفارتی بیانات کے درمیان اب ایک نیا دور شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس کی قیادت حیرت انگیز طور پر ان طاقتوں نے سنبھالی ہے جو ماضی میں یا تو خاموش تماشائی بنی رہیں یا پھر اسرائیل کے یکطرفہ موقف کی سیاسی یا سفارتی حمایت کرتی رہیں۔ فرانس کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر کے اجلاس کے دوران ریاستِ فلسطین کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کے اعلان نے بین الاقوامی سفارتی منظرنامے میں ایک فیصلہ کن موڑ پیدا کیا ہے۔
فرانس، جو دنیا کی سات بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہے، پہلا ملک ہوگا جس نے فلسطینی ریاست کو نہ صرف زبانی حمایت دی بلکہ اسے باقاعدہ تسلیم کرنے کا عندیہ بھی دے دیا۔ یہ محض ایک علامتی اقدام نہیں، بلکہ ایک ایسی سمت کا تعین ہے جس سے دیگر اثرورسوخ رکھنے والے ممالک صرف نظر نہیں کر سکتے۔ فرانس کا یہ اقدام اس پرانی سفارتی بے عملی کو چیلنج کرتا ہے جس نے مشرق وسطیٰ میں انصاف اور امن کے امکانات کو طویل عرصے سے یرغمال بنا رکھا تھا۔ فرانس کے اس اعلان نے وہ بند دروازہ کھول دیا ہے جس کے پیچھے عشروں سے فلسطینی عوام کی خودمختاری، شناخت اور ریاستی حیثیت کی امیدیں بند تھیں۔
پاکستان نے بھی اس موقع پر اپنی دیرینہ اور اصولی پوزیشن کو ایک بار پھر دہرایا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کا راستہ فلسطین کی ایک آزاد، خودمختار اور قابل عمل ریاست کے قیام سے ہو کر گزرتا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ سن 1967 سے قبل کی سرحدوں میں بقائے باہمی کے اصول پر قائم ہو۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں اس موقف کو دوٹوک انداز میں پیش کیا جانا نہایت اہم ہے، جس میں انہوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ ترسیل اور فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف حقیقی اور ٹھوس پیش رفت کی ضرورت پر زور دیا۔
نیویارک میں ہونے والی اس تین روزہ عالمی کانفرنس، جس کی میزبانی فرانس اور سعودی عرب نے مشترکہ طور پر کی، اس کوشش کا حصہ ہے جس کے ذریعے علامتی بیانات سے آگے بڑھ کر ایک مؤثر اور قابل عمل لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا کے 123 ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے شرکت کی، جو دو ریاستی حل کی بحالی کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ آٹھ ورکنگ گروپس پر مشتمل یہ کانفرنس محض رسمی اعلانات کے بجائے سفارتی ڈھانچے میں فوری، شفاف اور قابل حساب پیش رفت کو شامل کرنے کی کوشش ہے۔
پاکستان کی حمایت کسی وقتی یا جذباتی ردعمل کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی قانون اور تاریخی انصاف پر مبنی موقف ہے، جو عشروں سے فلسطینی عوام کے ساتھ استقامت سے کھڑا ہے۔ بطور صدرِ سلامتی کونسل، پاکستان نے حال ہی میں غزہ کی صورتحال پر ایک اہم اجلاس کی صدارت کی جس میں واضح کیا گیا کہ قبضہ، بمباری اور جبری بے دخلی جیسے اقدامات، سفارت کاری اور مکالمے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ وزیر خارجہ نے بجا طور پر کہا کہ اصل راستہ صرف بات چیت اور سفارتی عمل سے ہی نکل سکتا ہے — ایک پیغام جو پوری دنیا میں گونجنا چاہیے۔
اس عالمی اتفاق رائے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی سامنے آ رہی ہیں، بالخصوص اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے اس کانفرنس کی مخالفت اور دیگر ممالک کو شرکت سے روکنے کی کوششوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اب تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کو اب کسی ویٹو یا سیاسی دباؤ کی بنیاد پر انصاف پر مبنی امن عمل کو مزید ناکام نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے 140 سے زائد رکن ممالک پہلے ہی ریاستِ فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، اور فرانس کی پہل کے بعد یہ تعداد مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
یہ بڑھتا ہوا رجحان محض سفارتی ایوانوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ عالمی پالیسیوں اور عملی اقدامات میں بھی اس کا عکس نظر آنا چاہیے۔ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک تاریخی ضرورت ہے — ایک ایسا حق جسے ان لوگوں کو دیا جانا چاہیے جنہوں نے نسل در نسل قبضے، ناکہ بندی اور ریاستی حیثیت سے محرومی جھیلی ہے۔ یہ لمحہ اقوام عالم کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ یکجہتی، اخلاقی بصیرت اور اجتماعی فیصلہ سازی کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف بڑھیں — وہ حل جو عشروں سے بات چیت کا موضوع رہا، اب اسے حقیقت میں بدلنے کا وقت آ پہنچا ہے۔
ریاست فلسطین کو عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی جو نئی لہر اٹھی ہے، وہ نہ صرف سفارتی میدان میں اہم تبدیلی کی نشان دہی کرتی ہے بلکہ اس سے مشرقِ وسطیٰ کی زمینی حقیقتوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ برسوں سے عالمی طاقتیں “دو ریاستی حل” کا تذکرہ تو کرتی رہی ہیں، لیکن عملی طور پر فلسطینیوں کے لیے انصاف، آزادی اور خودمختاری کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی۔ مگر اب فرانس کی طرف سے ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد یہ موضوع دوبارہ بین الاقوامی ایجنڈے پر پوری قوت سے واپس آ گیا ہے — اور یہ کوئی اتفاقیہ پیش رفت نہیں۔
گزشتہ برسوں میں فلسطین کے اندر اور باہر جو کچھ ہوا، اس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ غزہ پر بمباری، غرب اردن میں غیر قانونی یہودی آبادکاروں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں، فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں نے وہ پردہ چاک کر دیا ہے جس کے پیچھے مغرب کی خاموشی، اقوام متحدہ کی بے بسی، اور عالمی ضمیر کی غفلت چھپی ہوئی تھی۔ اب یہ صورتحال مزید چھپ نہیں سکتی۔اس بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ فلسطینیوں کی حالتِ زار اور اسرائیل کی مسلسل جارحیت نے عالمی برادری کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ صرف بیانات اور قرار دادوں پر اکتفا نہ کرے بلکہ عملی اقدامات بھی کرے۔ فرانس کا اقدام اسی دباؤ کا نتیجہ ہے، اور یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب دنیا اس مسئلے پر خاموشی نہیں برت سکتی۔
پچھلے کچھ عرصے میں غزہ کی پٹی میں انسانی بحران جس سطح پر پہنچا، اس نے مہذب دنیا کو سخت آزمائش میں ڈال دیا۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے عالمی ادارے، غیر جانبدار صحافی، اور خود اسرائیل کے اندر سے اٹھنے والی چند آوازیں بھی یہ ماننے پر مجبور ہو گئیں کہ طاقت کے بے دریغ استعمال اور انسانیت سوز محاصروں نے فلسطینی عوام کو ایک زندہ مگر غیر مرئی قید میں دھکیل دیا ہے۔ آج فلسطینی بچے اسکول کی بجائے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں، اور بیمار مریض دوائی کے بجائے بے بسی کے سہارے زندہ ہیں۔ یہ وہ پس منظر ہے جس نے دنیا کو مجبور کیا ہے کہ اب “دو ریاستی حل” کو محض سفارتی جملہ نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے فوری عملی جامہ پہنایا جائے۔اس حوالے سے پاکستان کا کردار اور موقف نہایت اہم ہے۔ پاکستان نے نہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ پر حالیہ حملوں کی مذمت کی بلکہ دو ریاستی حل کی حمایت میں مضبوط موقف بھی اختیار کیا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ “سفارت کاری اور بات چیت ہی اصل راستہ ہے” ایک واضح پیغام ہے — ایسا پیغام جو نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ بین الاقوامی برادری کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
تاہم، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب بھی عالمی امن کی اس کوشش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے اس عالمی کانفرنس کی مخالفت، اور امریکہ کی جانب سے دیگر ممالک پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ اب بھی طاقت اور سیاسی اثرورسوخ کے ذریعے فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے کی روش پر قائم ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک — خاص طور پر ترقی پذیر اور اسلامی دنیا — اس روش سے سخت ناراض اور بے زار ہو چکی ہے۔
آج، جب 140 سے زائد ممالک ریاستِ فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، اور فرانس جیسے اہم یورپی ملک نے اس سمت عملی قدم اٹھایا ہے، تو یہ موقع ہے کہ باقی یورپ، لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے دیگر ممالک بھی اس انسانی اور تاریخی فریضے کو پورا کریں۔ فلسطین کے عوام نے کئی دہائیوں پر محیط جدوجہد، قربانیاں اور مزاحمت کے ذریعے اپنی شناخت، حقِ خود ارادیت اور ریاست کے قیام کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھا ہے — اب دنیا کی باری ہے کہ وہ اس مقدمے کا منصفانہ فیصلہ کرے۔
یہ وقت ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ انصاف، اسلامی تعاون تنظیم، اور علاقائی تنظیمیں ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائیں، جس کے تحت نہ صرف فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کیا جائے بلکہ اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی پابندی کا دباؤ بھی بڑھایا جائے۔ محض قراردادیں یا مذمتی بیانات کافی نہیں، بلکہ عملی سفارتی، سیاسی اور معاشی اقدامات ناگزیر ہیں۔
