ریاست اور مذہب : دائروں کا سفر

پنجاب حکومت نے ایمپلی فائر ایکٹ پر سختی سے عملدرآمد کرانے اور پنجاب بھر کی مساجد کے آئمہ کو ایک حلف نامہ فارم بھرنے کی ہدایت کی ہے۔ ان دو اقدامات کے خلاف پاکستان کی مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کی طرف سے سخت مخالفت کی جارہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے اپنے دھڑے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ملتان کے ایک مدرسے میں خطاب کے دوران کہا کہ وہ اس مساجد کے منابر سے سیاست کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ اس دوران انہوں نے یہاں تک کہا کہ وہ حکومت کی جانب سے منبر و محراب سے سیاست کرنے پر فورتھ شیڈول لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے اور جو انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں، میں انہیں کہتا ہوں، وہ بھاڑ میں جائیں ۔ مولانا فضل الرحمان نے افغان طالبان کے ساتھ پیدا ہونے والی کشیدگی پر حکومت کی لائن کی محالفت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے حکومت نے بھارت سے تعلقات خراب کیے اور اب طالبان سے معاملات خراب کیے جارہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کے سوال بارے دائروں میں سفر کررہے ہیں ۔ پاکستان کی جملہ مذہبی پیشوائیت ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے “ہندؤ راشٹر ” کے قیام کے پروگرام کی مخالفت کر رہی ہے اوراس مذہبی پیشوائیت کے ہندوستان میں ہم مسلکی مذہبی پیشواء اور غیر فرقہ وارانہ اسلام کی داعی جماعت اسلامی پاکستان کا ہندوستانی چیپٹر “سیکولر ہندوستان ” کو مسلمان اقلیت کی واحد پناہ گاہ قرار دیتی ہے اور وہ وہاں سیکولر ہندوستان بچاؤ تحریک جلانے والی ہندوستان کی سیکولر، لبرل اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بناکر کھڑی ہیں ۔ جبکہ پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی جماعتیں پاکستان میں سیکولر ازم کو “کفر اور ارتداد” قرار دیتی ہیں بلکہ ان میں اکثر جماعتیں وہ ہیں جن کے اکابر مذہبی پیشواء تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پش تھے۔ انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سمیت آل انڈیا مسلم لیگ کی صف اول کی قیادت کا اسلام “مذاق اور پاکھنڈ” لگتا تھا ۔ وہ پاکستان بننے کے بعد بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے اکابرین کے “اسلامی فہم” کا مذاق اڑاتے رہے۔ پاکستان بننے کے فوری بعد پاکستان مخالف مذہبی پیشوائیت نے بانی پاکستان سمیت پاکستان بنانے والے مسلم لیگ کے اکابرین کے خیالات اور اقدامات کے زریعے پاکستان کو ایک روشن خیال ، ترقی پسند اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی کوششوں کی مخالفت کرنا شروع کردی ۔ یہ پاکستان بننے کے بعد خودساختہ اس ریاست کے نظریاتی محافظ بن گئے اور انہوں نے پاکستان میں مذہبی اور شرعی قوانین کے حوالے سے ہر اچھی اصلاح کی “اسلام اور شریعت ” کے نام پر مخالفت کی ۔ پاکستان کی جتنی مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں پاکستان بننے سے پہلے ان کے اکابر برطانوی ہندوستان میں لاؤڈ اسپکیر کی آمد کے وقت اس کے مساجد میں استعمال کو غیر شرعی قرار دیتے رہے، پھر انہوں نے اس کے زریعے صرف ازان دینے اور عربی خطبہ پڑھنے کی اجازت دی اور پاکستان بننے کے بعد ابتدائی پانچ دہائیوں تک ان کی اکثریت لاؤڈ اسپیکر کا باجماعت نماز میں استعمال کو غیر شرعی قرار دیتے رہے۔ تصویر اور ويڈیو کے بارے میں بھی پہلے ان کا یہی خیال تھا ۔ آج یہ اذان، نماز ، ضروری اعلانات کے سوا لاؤڈ اسپکیر کے استعمال پر حکومتی پابندی کو اسلام اور شریعت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں ۔ ایوب خان کے زمانے میں پاکستان کی مذہبی پیشوائیت نے نکاح ، طلاق، پیدائش کے باقاعدہ اندراج سمیت عائلی قوانین کو غیر شرعی قرار دیا اور اس کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی ۔ آج ان کی اکثریت رجسٹرڈ نکاح خوان بنی ہوئی ہے۔ مذہبی پیشوائیت کی اکثریت کے رجعت پرست اور تاریک خیالی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں خیبر پختون خوا، بلوچستان ہی نہیں بلکہ کراچی سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں جو اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین لگوانے کو غیر شرعی اور گناہ سمجھتے ہیں ۔ ضبط تولید کے غیر شرعی ہونے پر بھی اس مذہبی سیاسی پیشوائیت کی اکثریت نے ایکا کیا ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمان سمیت وہ سب مذہبی پیشواء جو افغانستان میں بعذریعہ بندوق مخصوص فرقہ وارانہ نظام کے نفاذ کو ٹھیک قرار دیتے ہیں اور پاکستان کے باب میں یہ کہتے ہیں وہ پاکستان میں افغان طالبان جیسا نظام لانا چاہتے ہیں مگر بندوق کے زریعے نہیں بلکہ جمہوریت کے زریعے۔ ان سے پوچھنا چاہئیے کہ ان کی یہ دلیل پاکستان میں افغان طالبان طرز کے نظام لانے کے دعوے دار نام نہاد پاکستانی طالبان کیسے ان کی دلیل مان لیں گے۔ پاکستان کی مذہبی پیشوائیت کا سب سے خطرناک ہتھیار یہ ہے کہ وہ اسلام اور مذہب کے بارے میں اپنی “تعبیر ” کو عین اسلام قرار دیتے ہیں اور جو سیاسی جماعتیں ، حکومتیں اور ریاست کے حکام ان سے اختلاف کریں یہ انہیں اسلام دشمن ، شریعت دشمن قرار دے ڈالتے ہیں ۔ ستر کی دہائی تک یہ ساری سیاسی مذہبی جماعتیں جاگیرداری ، قبیل داری کے رسم و رواج اور بذات خود جاگیرداری کو عین اسلام قرار دیتی رہیں اور جن جماعتوں نے زمین کی ملکیت بارے ان کی تعبیر اسلام کو چیلنج کیا انہوں نے فوری طور پر ان پر کمیونسٹ ، دھریہ اور بے دین ہونے کا فتوا صادر کردیا۔ ان کی کٹر پوزیشن کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بلاسفیمی کے خلاف بنے قوانین کے غلط استعمال کے خاتمے کے لیے قانون سازی تک کی تجویز کو فوری طور پر “توہین ” قرار دے ڈالتے ہیں ۔ انھوں نے نوے کی پوری دہائی میں اس بنیاد پر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کو بلیک میل کیا اور پھر مشرف دور میں اس تجویز پر ہنگامہ کھڑا کیا – 2008-12 میں پی پی پی دور میں جب حکومت نے ان قوانین میں اندراج مقدمہ اور طریقہ تفتیش میں اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تو اس قدر جذباتی اور نفرت انگیز فضا پیدا کردی کہ ایک طرف تو پاکستان پیپلزپارٹی کے وفاقی وزیر اقلیتی امور و مذہبی ہم اہنگی ملک شہباز بھٹی دہشت گردی کا نشانہ بن کر جان سے چلے گئے تو خود وزیر مذہبی امور علامہ حامد سعید کاظمی پر طالبان نے قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ زخمی ہوئے اور ان کی جان جاتے جاتے رہے گئی ۔ اس کے فوری بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل ہوگیا۔ اس طرح سے پی پی پی کی حکومت کو مجبور کردیا گیا کہ وہ ان قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قانون سازی کا حیال ہی ترک کردے ۔ اب پنجاب کی چیف منسٹر نے مذہبی بنیادوں پر منافرت، تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات، مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلمان کے مسالک کے ماننے والوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد اور فساد کو پھوٹ پڑنے سے روکنے کے لیے مساجد و مدارس میں لاؤڈ اسپکیر کے استعمال کو محدود کرنے کی پابندی لگائی ہے اور وہ آئمہ مساجد کا معاشی تحفظ کرنے جارہی ہے تو ایک بار پھر یہ مذہبی سیاسی پیشواء متحرک ہوگئے ہیں ۔ دنیا کے کسی دوسرے اسلامی ملک میں کوئی مسجد، مدرسے کوسیاست کے لیے استعمال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان ممالک میں کوئی بھی نماز جمعہ و عیدین کے اجتماعات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا اور وہاں کوئی اسے خلاف اسلام و شریعت نہین سمجھتا تو پھر پاکستان میں ایسا کرنے پر پابندی سے مذہب کیسے خطرے میں پڑ سکتا ہے؟

شیئر کریں

:مزید خبریں