پاکستان کے سیاسی اور آئینی منظرنامے میں ایک بار پھر بھونچال کی کیفیت ہے۔ عدالتی، مالیاتی اور انتظامی ڈھانچے کی ازسرِ نو تشکیل کے منصوبے کا اعلان محض ایک قانونی تجویز نہیں، یہ پورے وفاقی ڈھانچے، صوبائی خودمختاری، جمہوری اداروں اور آئینی توازن کے مستقبل کا سوال ہے۔ حکمران اتحاد کے اندر طویل مشاورت کے بعد اچانک یہ قدم، اور بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس کا اظہار، ملک کے سیاسی ماحول میں ایک نئے بحران کی گونج لے آیا ہے۔
یہ محض ایک ترمیم نہیں؛ یہ 18ویں آئینی ترمیم کے روحانی، سیاسی اور وفاقی فلسفے کے سامنے ایک چیلنج ہے۔ مجوزہ اقدامات میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریسی کی بحالی، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا تبادلہ، این ایف سی کے قابل تقسیم محاصل میں صوبوں کے آئینی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں تبدیلی، اور تعلیم و آبادی منصوبہ بندی جیسے اہم شعبہ جات کو دوبارہ مرکز کے کنٹرول میں دینا شامل ہیں۔ یہ نکات صرف شقوں کی تبدیلی نہیں، یہ ریاست کے طاقت کے توازن کی نئی تعریف ہیں۔
سوال یہ نہیں کہ ان تبدیلیوں کا مقصد کیا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں کس کے ہاتھ میں اختیارات مرکوز کریں گی، اور اس کا نتيجہ کیا ہوگا؟ صوبائی خودمختاری کا خاتمہ؟ عدلیہ کی آزادی پر ضرب؟ وفاقی اکائیوں کے درمیان عدم اعتماد؟ یا انتظامی کنٹرول کا بڑھتا ہوا دائرہ؟
18ویں ترمیم اس ملک کے وفاقی تانے بانے کا اہم ستون ہے۔ یہ ترمیم اس وقت کے سیاسی قیادت کے اتفاقِ رائے، تحریک بحالیِ جمہوریت کی جدوجہد اور آمریت کے خاتمے کے جذبات کا مظہر تھی۔ اس نے صوبوں کو حقیقی اختیارات دیے، وسائل کی تقسیم کو آئینی تحفظ دیا، اور مرکز کو وہ کردار دیا جو وفاقی ریاستوں میں ہوتا ہے: رابطہ کار اور سہولت کار کا۔ آج اگر مرکز ایک بار پھر کنٹرول واپس لے رہا ہے تو یہ نہ صرف ماضی کی جدوجہد کی نفی ہے بلکہ مستقبل کی مزاحمت کو دعوت بھی ہے۔
پیپلز پارٹی کے لیے یہ لمحہ کسی دو راہے سے کم نہیں۔ سندھ کی سیاسی دھڑکن میں صوبائی خودمختاری ایک جذباتی اور تاریخی مقام رکھتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اس ترمیم کی حمایت کرتی ہے تو وہ اپنے سیاسی وجود کو خطرے میں ڈال دے گی، کیونکہ سندھ کی شہری اور دانشور برادری پہلے ہی آبنوسی کینال منصوبوں اور پانی کے مسائل پر عدم اعتماد کا شکار ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی وفاقی سطح پر اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگی چاہتی ہے۔ یہ توازن آزمائش ہے — اور شاید فیصلہ ساز قیادت کے لیے دردناک۔
سیاسی تجزیہ کار واضح ہیں: این ایف سی پر دست درازی، تعلیم اور آبادی منصوبہ بندی جیسے شعبوں کی مرکز کو واپسی، صوبائی خودمختاری پر کھلا حملہ ہے۔ سندھ و خیبر پختون خوا کی حکومتیں صحت اور سماجی فلاح کے منصوبوں میں پیش پیش رہی ہیں۔ اگر وسائل کم ہو گئے تو یہ منصوبے زمین بوس ہوں گے۔ بلوچستان اور ضم شدہ قبائلی اضلاع کے لیے یہ بحران مزید شدید ہوگا، کیونکہ وہ پہلے ہی مالی و انتظامی بحرانوں کا شکار ہیں۔
یہاں معاشی پس منظر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک مدتوں سے این ایف سی ڈھانچے میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ ریاست کے بڑھتے اخراجات، دفاعی اور قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ، اور براہِ راست ٹیکس نافذ کرنے کی ناکامی نے وفاق کو غیر مستقیم ٹیکسوں اور صوبائی حصے پر نظریں گاڑنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ معاشی مجبوری نہیں — یہ معاشی بدانتظامی کی سزا ہے، جو صوبوں کے گلے میں زنجیر کی شکل میں ڈالی جا رہی ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ وفاق نے اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے وقتاً فوقتاً وزارتوں کو مختلف ناموں سے واپس کھینچا ہے۔ زرعی امور اور خوراک کی وزارت کی بحالی اس کا ثبوت ہے۔ اگر آج وفاق تعلیم اور آبادی منصوبہ بندی واپس لے رہا ہے تو کل صحت اور فلاح کا اختیار بھی واپس لے سکتا ہے۔ یہ ’’ری اسینٹرلائزیشن‘‘ نہیں، یہ طاقت کے سرچشمے کی باقاعدہ تعمیر نو ہے۔
قانونی ماہرین بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایگزیکٹو مجسٹریسی کی بحالی عوامی حقوق کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ ججوں کے تبادلے کا اختیار عدلیہ کی آزادی پر عمل دخل کے مترادف ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی انتخابی آزادی کو متاثر کر سکتی ہے۔ اور ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام عدلیہ کے اندر ’’دو دھاری نظام‘‘ کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ یہ سب مل کر پارلیمانی جمہوریت کی بجائے ’’انتظامی جمہوریت‘‘ کے ماڈل کا راستہ ہموار کرتے ہیں — جہاں عوامی نمائندگی تو موجود ہو مگر طاقت کہیں اور مرتکز ہو۔
بعض حلقے اس پورے عمل کو ’’جمہوری لباس میں ادارہ جاتی کنٹرول‘‘ کہہ رہے ہیں۔ وکلا برادری کی ممکنہ مزاحمت ایک حقیقت ہے۔ حکومت نے بار کونسل انتخابات کے فوراً بعد یہ قدم اٹھایا — جیسے طاقت کے مراکز کو پہلے مستحکم کرنا تھا اور پھر قدم بڑھانا تھا۔
یہاں ایک اور پہلو قابلِ غور ہے — سیاسی قیادت کی جوان نسل اور پرانی قیادت کے درمیان سوچ کا فرق۔ بلاول بھٹو کے سامنے مستقبل کی سیاست ہے، جبکہ آصف زرداری کے فیصلے حال کے توازن پر مبنی ہیں۔ اگر بلاول نے صوبائی خودمختاری پر سمجھوتہ کیا تو وہ سندھ میں اپنی سیاسی وراثت کھو سکتا ہے؛ اگر وہ مزاحمت کرتا ہے تو وفاقی اقتدار کی امیدیں کمزور ہو جائیں گی۔
یہ انتخاب صرف بلاول کا نہیں، پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کا بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان مستقبل میں ایک متوازن وفاق بنے گا یا مرکزیت کی نئی گھنٹی بجا دی گئی ہے؟
اس ترمیم کے اثرات محض آئینی نہیں — یہ سیاسی، معاشی اور سماجی ہیں۔ صوبوں کو کمزور کرنا مرکز کو مضبوط نہیں کرتا، بلکہ نظام کو غیر مستحکم کرتا ہے۔ جب وسائل اور اختیارات چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتے ہیں تو وفاق ٹوٹتا نہیں، مگر بکھر ضرور جاتا ہے۔ سیاسی بے یقینی، صوبائی ردعمل، اور عوامی بے اطمینانی بڑھتی ہے۔
کیا پاکستان کو اس وقت ایک اور محاذ کھولنے کی ضرورت تھی؟ ایک ایسی معیشت جو قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہے، ایک معاشرہ جو مہنگائی اور بے روزگاری سے نڈھال ہے، ایک نظامِ انصاف جس پر عوام کا اعتماد متزلزل ہے — کیا ایسے وقت میں آئینی تصادم ملک کو سہارا دے گا یا مزید گرا دے گا؟
تاریخ کا سبق واضح ہے: آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ کھیلنا کبھی سیاسی استحکام نہیں لاتا۔ 18ویں ترمیم کی حفاظت محض پارٹی مفاد نہیں — یہ وفاقی مفاد، جمہوری استحکام، اور عوامی حقوق کی حفاظت ہے۔
پاکستان کو آئین کی ترمیم نہیں، نظم و ضبط اور معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مرکز کو اگر وسائل درکار ہیں تو اسے ٹیکس نیٹ وسیع کرنا ہوگا، غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنا ہوں گے، اور شفافیت بڑھانی ہوگی — نہ کہ صوبوں کے حصے پر ہاتھ ڈالنا۔
اس نازک لمحے میں فیصلہ سازوں پر ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ سیاست وقتی ہے، آئین دائمی۔ اقتدار کی حرکیات بدلتی رہتی ہیں، مگر وفاق کا ڈھانچہ اگر ایک بار متزلزل ہو جائے تو تاریخ اس کی قیمت خون اور آنسوؤں میں وصول کرتی ہے۔
پاکستان کو آگے بڑھنا ہے — پیچھے نہیں جانا۔ جو راستہ آج چنا جائے گا وہ مستقبل کی نسلوں کی راہ کا تعین کرے گا۔ وفاق مضبوط ہو تو ریاست مضبوط ہوتی ہے؛ مرکز کا جبر نہیں، اختیارات کی تقسیم اس ملک کی بقاء ہے۔
اب وقت ہے کہ سیاسی قیادت، عدلیہ، قانون دان اور عوام آواز اٹھائیں — کہ آئین کا توازن نہ بگڑے، صوبوں کا حق نہ چھینا جائے، اور جمہوریت کو پارلیمانی مینڈیٹ سے آگے ادارہ جاتی نظم کے شکنجے میں نہ کسا جائے۔
پاکستان کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی — مگر یہ باب فیصلہ کن ہے۔ یہاں سے یا تو ایک مضبوط، بااختیار اور متوازن وفاق جنم لے گا، یا ایک ایسا ملک جہاں ریاستی ڈھانچہ اپنے ہی وزن سے لڑکھڑا جائے گا۔ فیصلہ آج ہے، اثرات نسلوں پر ہوں گے۔







